احتساب کا سلسلہ نہیں رکنا چاہئے!

منی لانڈرنگ کی تحقیقات کیلئے بنائی گئی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کی سفارش پر وفاقی حکومت نے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو، شریک چیئرمین آصف علی زرداری، ان کی بہن فریال تالپور اور وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سمیت ایک سو بہتّر افراد کے نام ای سی ایل میں ڈال دیئے ہیں۔ اب یہ افراد بیرون ملک سفر نہیں کر سکتے۔ جبکہ سنگین الزامات کے تحت ان کی گرفتاریوں کا بھی امکان ہے۔ دیگر اہم افراد میں اومنی گروپ کے انور مجید، عبدالغنی مجید، نازلی مجید، مناہل مجید، کارپوریٹ ہیڈ طلحہ رضا، نجی بینک کے سربراہ حسین لوائی، اسلم مسعود، ناصر لوتھا، عارف خان شامل ہیں۔ جعلی بینک اکاؤنٹس میں مبینہ طور پر ملوث ملزمان کے نام ای سی ایل میں ڈالے جانے کے بعد مزیدکارروائی بھی کی جائے گی۔ وفاقی کابینہ کے اس اقدام کو زرداری کے ترجمان فدا عامر پراچہ نے کھلی بدمعاشی قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان اپنی حکومت کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو کچل رہے ہیں۔ آصف زرداری مقدمات کا سامنا کریں گے۔ واضح رہے کہ رواں ماہ کی آخری تاریخ کو سابق صدر کی پیشی ہے۔ جس میں ان کی گرفتاری کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ کیونکہ جے آئی ٹی میں ان پر انتہائی سنگین نوعیت کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے سیاسی ناقد پروفیسر غفور احمد مرحوم کہا کرتے تھے کہ بھٹو پر کوئی بھی الزام لگایا جا سکتا ہے۔ مگر ان پر مالی بدعنوانی اور کرپشن کا الزام نہیں لگایا جا سکتا۔ لیکن بے نظیر بھٹوسے شادی کے بعد جب آصف زرداری پیپلز پارٹی اور سیاست کا حصہ بنے تو اس جماعت کی شہرت ہی کرپشن قرار پانے لگی۔ بے نظیر بھٹو کی دونوں حکومتیں کرپشن ہی کے الزام میں ختم کردی گئیں۔ اسے اتفاق کہیں یا قانون قدرت کی حرکت کہ ستائیس دسمبر دو ہزار سات کو بے نظیر بھٹو کی موت کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت ہتھیانے والے آصف علی زردری اور ان کے ہمنواؤں کے نام بھی ستائیس دسمبر کو ہی ای سی ایل میں ڈالے گئے۔ مبینہ وصیت نامے کی بنیاد پر پیپلز پارٹی کی قیادت اور پھر سندھ اور وفاق میں اقتدار حاصل کر کے جس منظم طریقے سے لوٹ مار کا بازار گرم کیا گیا، اس کی مثال ملکی تاریخ میں ملنا مشکل ہے۔ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے چن چن کر ایسے لوگوں کو اہم عہدوں پر فائز کیا جو ان کے اشارۂ ابرو پر ناچتے اور ملکی خزانے کو لوٹنے میں ہر ممکن تعاون فراہم کرتے رہے۔ انہیں بعد میں مزید ترقیوں سے نوازا گیا۔ جعلی بینک کھاتوں کے ذریعے رقوم کی ہیر پھیر اور لوٹ مار کی حد کر دی گئی۔ جس سے پاکستانی بینک سسٹم سے ہی لوگوں کا اعتماد اٹھ گیا۔ سندھ کے اہم صنعتی یونٹ اپنے من پسند افراد کو کوڑیوں کے مول بیچے گئے۔ پھر جعلسازی کر کے سبسڈی کے نام پر انہیں ملکی خزانے سے اربوں کے قرضے بھی دلوائے گئے۔ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے صرف ایک شخص، سابق وزیر پیٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین پر چار سو ارب روپے سے زائد رقوم کی کرپشن کا الزام لگا۔ رینجرز کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ان میں سے دو سو تیس ارب روپے دہشت گردی کیلئے استعمال ہوئے۔ ڈی رینجرز کی جانب سے ایپکس کمیٹی میں جمع کی جانے والی اس رپورٹ میں اگرچہ آصف زرداری کا نام نہیں تھا۔ مگر وہ پاک فوج پر برسنے لگے اور پورا ملک جام کرنے اور اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی تک دے ڈالی۔ اس کے بعد موصوف نے ملک ہی چھوڑ دیا اور طویل عرصے تک بیرون ملک بیٹھ کر سندھ کابینہ کے اجلاس کبھی دبئی اور کبھی لندن بلاتے رہے۔ پیپلز پارٹی دور سے متعلق کرپشن کی کئی ہوشربا داستانیں زبان زد عام ہیں، جن کی آزادنہ تحقیق ہونی چاہئے۔ حکمرانوں نے ملکی خزانے کو اس بے دردی سے لوٹا ہے کہ جس کا حساب لگانے سے کیلکولیٹر بھی عاجز ہیں۔ مشہور ہے کہ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی جب جیل میں تھے تو انہوں نے اپنی گھڑی بیچ کر بچوں کی فیس ادا کی تھی۔ مگر اقتدار ملنے کے بعد ان کے بچے دنیا کے مہنگے ترین شاپنگ سینٹر ’’ہاروڈز ‘‘ (Harrods) سے کروڑوں پائونڈ کی خریداری کرتے رہے۔ ان کی نا اہلی کے بعد وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہونے والے راجہ پرویز اشرف نے بھی کرپشن میں بڑا نام کمایا۔ دست قدرت نے وطن عزیز کو قدرتی و انسانی وسائل سمیت ہر نعمت سے نوازا ہے۔ مگر کرپشن کا ناسور اس ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہا ہے۔ اقتصادی بحران، بیروزگاری، توانائی کی کمی سمیت تمام مسائل کی جڑ بد عنوانی ہے۔ بلکہ بڑی حد تک دہشت گردی میں بھی اسی کا ہاتھ ہے۔ دہشت گردی کی وجہ سے ستّر ہزار ہلاکتوں کا تو بڑا چرچا ہے۔ مگر ملکی خزانے کی لوٹ مار کے نتیجے میں جو لوگ ادویات سے محروم ہو کر بالواسطہ ہلاک ہوتے ہیں، ان کا کوئی شمار ہی نہیں۔ صرف تھر میں ہر سال سینکڑوں بچے غذائی قلت کا شکار ہو کر مرتے ہیں۔ کہنے کو تو سندھ حکومت تھری بچوں پر اربوں روپے خرچ کر رہی ہے۔ سندھ کول اتھارٹی میں مالی بے ضابطگیوں کے کیس کی سماعت کرتے ہوئے ایک مرتبہ سپریم کورٹ کے جج، جسٹس گلزار احمد نے اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ باقی صوبوں میں پچاس فیصد رقم خرچ ہوتی ہوگی، مگر سندھ میں سب کچھ ہڑپ کیا جاتا ہے۔ نواز شریف کیخلاف مقدمات اور ان کی گرفتاری پر اہل وطن کا ایک ہی سوال تھا کہ پیپلز پارٹی قیادت پر کب ہاتھ ڈالا جائے گا۔ پیپلز پارٹی قیادت اپنی مفاہمت اور مک مکا کی پالیسی کے ذریعے ابھی تک بچی رہی۔ مگر بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی؟ اب لگتا ہے کہ ملکی قانون کے ساتھ وہ قانون قدرت کی گرفت میں آچکی ہے۔ قدرت کا یہ اٹل قانون اور حق تعالیٰ کی صفت ہے کہ وہ پہلی مرتبہ جرم کرنے والے پر پردہ ڈال دیتا ہے، لیکن جب خدا کی ڈھیل اور شان ستاری سے کوئی ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے تو رسی مزید دراز نہیں کی جاتی۔ باقی کسی سیاسی جماعت کے شور پر کان دھرنے کی یوں بھی ضرورت نہیں کہ پاکستانی سیاستدانوں کا یہ وتیرہ رہا ہے کہ جب بھی احتساب کا عمل شروع ہوتا ہے تو وہ اسے سیاسی انتقام قرار دیتے ہیں۔ محب وطن اداروں کو چاہئے کہ اب اس سلسلے کو مزید آگے بڑھائیں اور بلا امتیاز ہر چور اور ڈاکوکو پکڑ کر اس سے لوٹی ہوئی رقم نکال کر ملکی خرانے میں جمع کرائیں، تاکہ وطن عزیز اقتصادی بحران سے نجات پاکر خوشحالی و ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔اگر احتساب میں امتیاز برتا گیایا کسی ایک ہی جماعت کو نشانہ بنایا گیا تو اس کا فائدہ کے بجائے نقصان ہوسکتا ہے۔ ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment