پی ٹی آئی حکومت نے ای سی ایل میں نام ڈال کرپیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت سمیت اس کے ہراول دستے کے رستے مسدود کردیئے۔ زخموں پر نمک چھڑکنا اور کسے کہتے ہیں؟ اب پیپلز پارٹی والوں کی چیخیں تو نکلنا ہی تھیں، سو ہاہاکار مچ گئی ہے۔ کچھ روز قبل جب زرداری کے امریکہ میں موجود اثاثہ جات پر پی ٹی آئی کی سندھ قیادت نے الیکشن کمیشن میں ان کی نا اہلی کی درخواست دی تھی، اس وقت بھی پیپلز پارٹی والوں نے وزیر اعظم سمیت پی ٹی آئی کے بعض رہنماؤں اور وزیر اعظم کی بہن علیمہ خان کے اثاثہ جات پر الیکشن کمیشن سے معلومات طلب کرنے کی درخواست کی تھی، جب کہ علیمہ خان ایک عام شہری ہیں، وہ کبھی کسی پبلک آفس کی ذمہ دار نہیں رہیں، اب جو جعلی بینک اکاؤنٹس کی تحقیقات کے پس منظر میں حکومت وقت نے پیپلز پارٹی کی نامی گرامی قیادت اور اس کے ہمنواؤں کے نام ای سی ایل کی نذر کئے ہیں تو پیپلز پارٹی والے بڑی سوچ بچار کے بعد یہی جواز تراش سکے کہ پی ٹی آئی میں جن کی انکوائریاں چل رہی ہیں، ان کے نام بھی ای سی ایل میں ڈالے جائیں۔ بات اصولی طور پر تو درست ہے، مگر حکومتی ذمہ دار کہتے ہیں کہ انہوں نے پی پی والوں کے نام ای سی ایل میں حفظ ماتقدم کے طور پر ڈالے ہیں کہ ان میں سے بعض کے ملک سے فرار کا امکان تھا۔ ہمارے رہنما کہیں نہیں جارہے، انہیں جب بھی تحقیقاتی ادارے طلب کریں گے، وہ پیش ہوں گے۔ وزیر اعلیٰ کے پی کے بھی پیش ہو چکے ہیں۔ جعلی اکائونٹس کیس کے ملزمان کے نام سابقہ ان تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے ای سی ایل میں ڈالے گئے کہ عدالتوں اور تحقیقاتی داروں کو مطلوب افراد اپنی صفائی دینے کے بجائے کسی بہانے ملک سے فرار ہوگئے۔ مذکورہ وضاحت کے بعد پیپلز پارٹی کی مذکورہ فرمائش پرائمری کے ان بچوں کی مشق ہی قرار دی جاسکتی ہے، جو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے کرتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ایسا ہوا ہے تو مخالفین کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا جائے۔ حافظ جی سمجھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی جیسی جماعت کو اپنے سیاسی قد کا خیال رکھتے ہوئے ایسی بچکانہ باتوں سے پرہیز کرنا چاہئے۔
ای سی ایل فہرست کے اجراء سے ایک روز قبل نوڈیرو میں بے نظیر بھٹو کی برسی کی تقریبات میں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے ایک نجی ٹی وی چینل کے اینکر سے جے آئی ٹی رپورٹ پر پوچھے گئے اس کے سوال پر بڑے تفاخر سے کہا تھا: جے آئی ٹی کو سیریس کون لیتا ہے؟ لیکن آصف زرداری کو کیا پتہ تھا کہ حکومت جے آئی ٹی کو ہی نہیں، بلکہ اس کی سفارشات کو بھی سنجیدہ اقدامات کے طور پر لے رہی ہے۔ سو اس نے جے آئی ٹی کی سفارشات پر ہی میگا منی لانڈرنگ کی تحقیقات میں شامل تمام ایک سو بہتّر افراد کے ملک سے باہر جانے پر پابندی عائد کردی ہے۔ ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں جگہ پانے والوں میں آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری، فریال تالپور، موجودہ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، سابق وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ، زرداری کے کیسز لڑنے والے معروف قانون داں فاروق ایچ نائیک اور زرداری اینڈ کمپنی کے مالی فرنٹ مین انور مجید اپنی کم و بیش پوری فیملی کے ساتھ مذکورہ فہرست کی زینت ہیں۔ ایگزٹ کنٹرول لسٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد آصف زرداری نے ہی نہیں، پوری پیپلز پارٹی نے جے آئی ٹی کو سنجیدہ لیا ہے، جس کا ثبوت کئی روز سے جاری ان کا واویلا، کوسنے اور طعنے ہیں، جنہیں حکومت کے وزراء اور خود وزیر اعظم چور مچائے شور سے تشبیہ دے رہے ہیں۔
سچی بات تو یہ ہے کہ ہوس زر نے زرداری اینڈ کمپنی کو دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے۔ اب اس کی سمت کیا ہوگی، اس سلسلے میں آئندہ کل سپریم کورٹ کی سماعت اہمیت کی حامل ہے، جس میں میگا منی لانڈرنگ، جے آئی ٹی رپورٹ پر چیف جسٹس نے آصف زرداری، فریال تالپور اور دیگر کو اپنا جواب داخل کرانے کا حکم دیا ہے۔ واضح رہے کہ چوبیس دسمبر کو لاہور میں ہونے والی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کرپشن کارناموں سے مزین ہوش ربا جے آئی ٹی رپورٹ اسکرین لگا کر تمام حاضرین کے سامنے چلوائی تھی، جس کے بعد پیپلز پارٹی کی صفوں میں بھونچال کی سی کیفیت پیدا ہوئی، رہی سہی کسر ایگزٹ کنٹرول لسٹ نے پوری کر دی۔ یوں جلتی پر تیل والا کام ہوگیا۔ وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے جے آئی ٹی کو غیر سنجیدہ لینے کے زرداری کے بیان پر ایگزٹ کنٹرول لسٹ کے اجراء کا عندیہ دیتے ہوئے کہا تھا: امید ہے اب زرداری صاحب جے آئی ٹی کو غیر سنجیدہ نہیں لیں گے اور ہوا بھی ایسا ہی کہ اب زرداری صاحب کی ظاہری بے چینی بھی اس کی چغلی کھا رہی ہے، جس پر کنٹرول کرتے ہوئے انہوں نے نوڈیرو میں ایک ٹی وی اینکر کے سامنے خود کو مطمئن و بے فکر ظاہر کرنے کی کوشش کی تھی۔
پارٹی کمان گھبراہٹ کا شکار ہو جائے اور ثابت قدمی ساتھ چھوڑ دے تو وہ درست فیصلہ کرنے سے قاصر ہوتی ہے، ایسے میں اس کی سیاسی سپاہ میں انتشار در آتا ہے، یعنی کوئی گائیڈ لائن نہیں ہوتی، جس کو جدھر موقع ملے، وار کرے، جہاں بس چلے حد سے گزرے اور جہاں بس نہ چلے مظلوم بن کر دہائیاں دے۔ گویا گھمسان کی جنگ کا سماں ہوتا ہے، اب کچھ ایسی ہی صورت حال حافظ جی پیپلز پارٹی کی صفوں میں بھی دیکھ رہے ہیں۔ لگتا ہے پی پی قیادت نے اپنے دفاع کے لئے ہر رکن اسمبلی اور پارٹی عہدیدار کو فری ہینڈ دے دیا ہے۔ سو دیکھا اور سنا جا سکتا ہے کہ ان سب نے ہی حکومت پر کھلے عام اور عدلیہ و قومی سلامتی کے اداروں پر ڈھکے چھپے انداز میں لفظی گولہ باری شروع کر رکھی ہے۔ سیاست کے خُوگر زرداری ہوں، فریال یا نوآموز بلاول، انہوں نے حسب سابق بھٹو اور بے نظیر بھٹو کا علم بلند کرکے اپنا ذاتی اور خاندانی کیس پارٹی ارکان اسمبلی اور پیڈو نان پیڈ جیالوں کے سہارے لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ زرداری اینڈ کمپنی منی لانڈرنگ کیس کے حوالے کچھ بھی کہے، مگر حقیقت حال یہ ہے کہ یہ کیس ان کے حواسوں پر سوار ہو چکا ہے، جس کا اندازہ چند روز قبل بے نظیر کی برسی کے موقع پر منعقدہ ’’سیاسی شو‘‘ سے بھی بخوبی لگایا جا سکتا ہے، جہاں آصف زرداری بے نظیر کی سیاسی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے بجائے اپنے مختصر سے خطاب میں حکومت اور اس کے پھٹے ڈھولوں کی نوحہ گری کرتے سنائی دیئے۔ اس خطاب میں زرداری صاحب کے غصے اور جلال کا اندازہ ان کے اس جملے سے بھی لگایا جا سکتا ہے، جس میں انہوں نے حکومتی وزراء کی گفتگو کو عوامی مجمعے میں بکواس سے معنون کیا۔ سیاسی رہنماء کہاں اس قسم کی زبان استعمال کرتے ہیں ما سوا اس کے کہ قوت برداشت کا دامن ان کے ہاتھ سے چھوٹ جائے اور بے نظیر کی برسی کے جلسے میں چند مختصر جملوں کے خطاب میں زرداری صاحب کا جارحانہ انداز اسی بات کا غماز تھا کہ ان سے وہ سب کچھ برداشت نہیں ہو رہا، جو حکومت وقت کر رہی ہے۔ وہ سخت جلال میں ہیں۔ انہوں نے کسی سے نہ ڈرنے کی بات تو کی، مگر لڑائی کا تذکرہ بھی کر ڈالا۔ انہوں نے اپنی اس خواہش ناتمام کا اظہار بھی کیا کہ وہ الیکشن جیت کر دوبارہ وفاق میں حکومت بنائیں گے۔ حکومتی اقدامات کو للکارتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم حکمرانوں کے ہتھکنڈوں سے نہیں ڈرتے، پہلے بھی ایسے ہتھکنڈوں کا سامنا کیا ہے اور اب بھی کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ بلاول میرا اور بے نظیر کا بیٹا ہے، کوئی اسے ڈرا نہیں سکتا، مخالفین کو ہم پی پی والے اکیلے ہی منہ دیں گے۔ پی پی والوں کے اکیلے منہ دینے کے پس منظر میں بھی ان کا ایک پیغام پنہاں تھا کہ موجودہ حالات میں اپوزیشن متحد نہیں۔ آصف زرداری شاید بھول گئے کہ نواز شریف کے خلاف جب پانامہ کیس کی تحقیقات کے لئے جے آئی ٹی بنی تھی تو ان کی پارٹی کا کیا مؤقف تھا؟ پیپلز پارٹی کے سینئر ترین رہنماؤں نے ہنس ہنس کر نواز شریف کے لئے کہا تھا: ٹھاکر توگئیو۔ یہ بھی کہا گیا تھا کہ جے آئی ٹی چوروں اور لٹیروں کے لئے ہی بنتی ہے تاکہ ان کے کالے کرتوتوں کا پردہ چاک ہو، مگر آج جب پیپلز پارٹی خود مکافات عمل سے گزر رہی ہے تو اس کے رہنماء اور کارکنوں کا مؤقف سابقہ مؤقف کے بالکل برعکس ہے اور وہ اپنی تائید کی خاطر نواز شریف کے عدالتی فیصلوں کو بھی ان کے ساتھ ظلم قرار دے رہے ہیں۔ اس ساری صورت حال میں یہ بات بھی نوٹ کرنے والی ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن، محمود خان اچکزئی، اسفند یار ولی جیسے اپوزیشن لیڈران اور طرف دارانِ نواز شریف و زرداری خاموش ہی نہیں، بلکہ منظر سے ہی غائب ہیں۔ ان کے اس طرز عمل نے دونوں جماعتوں کے احتجاجی غبارے سے ہوا ہی نکال دی ہے۔
یہ بات پیپلز پارٹی والوں کے وہم و گمان میں بھی شاید نہ ہوگی کہ منی لانڈرنگ کیس میں بلاول بھی لپیٹے میں آجائیں گے۔ تیاری یہی تھی کہ زرداری اور فریال تالپور کی ممکنہ گرفتاری کے بعد بلاول کے ذریعے پارٹی کو سیاسی آکسیجن کی فراہمی کا بندوبست کیا جائے گا۔ ایسی صورت میں اسے گائیڈ لائن فراہم کرنے کے لئے خاندان کے کسی قریبی اور جید فرد کی بھی اشد ضرورت تھی۔ یہ بات شاہد ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت کو خاندان سے باہر والوں کو اختیارات دینا گوارا نہیں، سو اسی لئے صنم بھٹو کو پاکستان درآمد کیا گیا، مگر لگتا یوں ہے کہ صنم بھٹو نے صورت حال کی نزاکت کو اپنی سابقہ دور اندیشی کی پالیسی سے پرکھ لیا ہے، اسی لئے ابھی تک انہوں نے کوئی ایسا اشارہ نہیں دیا کہ وہ زرداری اور فریال کی عدم موجودگی میں پارٹی کو اپنی کمان فراہم کریں گی۔ صنم بھٹو کا ماضی گواہ ہے کہ انہوں نے بھٹو خاندان کا حقیقی خون ہوتے ہوئے بھی کبھی پیپلز پارٹی کے معاملات میں دلچسپی نہیں لی، نہ انہیں کبھی کسی پارٹی عہدے کی تمنا رہی، نہ ہی کسی نے انہیں اس جانب راغب کیا۔ اب بھی زرداری صاحب نے انہیں اپنی گرفتاری کے خدشات کے پیش نظر ضرورتاً پاکستان بلایا ہے اور معاملات ہنوز پردۂ اخفا میں ہیں تاآنکہ جعلی اکاؤنٹس کیس میں کرپشن کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھ نہ جائے۔
خیر بات شروع ہوئی تھی میگا منی لانڈرنگ کیس میں ایگزٹ کنٹرول لسٹ کی، جس میں بہت سے پردہ نشینوں سمیت بعض چھپے رستموں کا ذکر بھی ہے، جو عوامی عہدوں پر براجمان ہو کر عوام کے ہی حقوق پر شب خون مارتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا نام بھی ایسے ہی چھپے رستموں میں نکل آیا ہے، جو انہیں اقتدار سے بھی نکال باہر کر سکتا ہے۔ سو ان کی پریشانیاں بھی دو چند ہیں۔ ان کے کرتوت پوری سندھ حکومت کو ڈبو سکتے ہیں۔ تحریک انصاف والے تاک میں ہیں، ایسے میں وہ کب کوئی موقع ہاتھ سے جانے دیں گے۔ اگرچہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی اکثریت ہے، مگر موجودہ حالات میں پیپلز پارٹی کے اقتدار پر فارورڈ بلاک کی تلوار بھی لٹک گئی ہے کہ ہماری سیاست کا یہی چلن ہے۔ گرتی ہوئی دیوار کواپنے ہی دھکا دے کر گراتے آئے ہیں۔ خاموش اور ناراض جیالوں کو موقع مل رہا ہے کہ وہ زرداری کی پی پی سے بھٹو اور بے نظیر کی پی پی کا انتقام لیں۔ آصف علی زرداری کا جمعے کے روز گھوٹکی کا دورہ بھی انہی خدشات پر تھا، جہاں انہوں نے ہی نہیں، وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سمیت پیپلز پارٹی کے دیگر رہنماؤں نے بھی سادہ لوح عوام کو ورغلاتے ہوئے سندھ کارڈ کھیلنے کی کوشش کی۔
گستاخی معاف! صرف پیپلز پارٹی ہی نہیں، جو سندھ میں اپنی سیاسی بقا کے لئے سندھ کارڈ کھیل رہی ہے، پنجاب میں یہی کارڈ، مسلم لیگ (ن)، خیبر پختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی بھی کھیلتی رہی ہے۔ بلوچستان کی بعض قوم پرست پارٹیوں کا بھی یہی وتیرہ رہا ہے۔ مدتوں قومیت اور علاقائی تعصب کا یہی کارڈ ایم کیو ایم بھی کراچی اور سندھ کی مہاجر آبادیوں والے شہروں میں کھیلتی آئی ہے۔ اسے بد قسمتی ہی سمجھیں کہ سیاست دانوں کے مفادات نے کبھی پاکستانیوں کو ایک قوم نہیں بننے دیا۔ قومی وحدت کی بات کرنے والی پیپلز پارٹی بھی وقت پڑنے پر سندھ کارڈ کھیلنے پر اتر آئی ہے۔ حقیقت حال یہ ہے کہ ہوس زر نے زرداری اینڈ کمپنی کو دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے۔ اس کی سمت کیا ہوگی، اب اس کے لئے بہت زیادہ انتظار کی ضرورت نہیں، عین ممکن ہے آئندہ کل سپریم کورٹ کوئی راہ متعین کر دے یا پھر چند روز بعد کراچی کی بینکنگ کورٹ کوئی فیصلہ صادر کرکے اس کی قسمت کا فیصلہ کر دے۔ (وما توفیقی الا باللہ)