احتساب سیزن

علی اسد

چوہدری نثار خوب بولتے ہیں، نپا تلا کلام، سوچا سمجھا مفہوم، مضبوط دلیل اور واضح مؤقف، طویل خاموشی کے بعد انہوں نے اعلان کیا ہے کہ موجودہ احتساب یکطرفہ اور انتقام پر مبنی نظر آتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ احتساب حکومت نہیں ادارے کرتے ہیں۔ ان کا اشارہ غالباً نیب اور عدلیہ کی طرف تھا، لیکن انہیں اعتراض ہے کہ حکومت ان اداروں کی کارروائی اور کارکردگی اپنے کھاتے میں ڈال کر احتساب کو مشکوک بنا رہی ہے اور سیاسی انتقام کا رنگ دے رہی ہے۔ ان کا دوسرا اعتراض یہ تھا کہ حکومت کی اپنی صفیں احتساب سے محفوظ ہیں، جس کے نتیجے میں یہ شفاف اور غیر جانبدار نظر نہیں آتا۔ چوہدری نثار فی الوقت کسی جماعت سے وابستہ نہیں۔ نواز لیگ نے انہیں چھوڑ دیا ہے اور تحریک انصاف انہوں نے اپنائی نہیں۔ حالانکہ راویانِ روایت اور حاکیانِ حکایت کہتے ہیں کہ انہیں انتخابات سے قبل تحریک انصاف اور مالکانِ سیاہ و سفید کی طرف سے بار بار ترغیب دی گئی کہ تحریک انصاف کے شامیانے تلے آجائیں تو انہیں پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنایا جا سکتا ہے، لیکن نثار نے یہ پیشکش نرمی سے ٹھکرا دی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ نواز شریف پر تنقید اصولی بنیادوں پر کررہے ہیں۔ تحریک انصاف جوائن کرلی تو یہ سودے بازی ہو گی، جو وہ کسی قیمت پر نہیں کر سکتے۔ بلاشبہ چوہدری کے اس مؤقف نے ان کے احترام اور قد میں اضافہ کیا ہے اور اس وقت وہ ملک کے چند سیاستدانوں میں سے ایک ہیں، جن کے اصول پرست اور دیانتدار ہونے کی قسم کھائی جا سکتی ہے۔ لیکن شاید یہی اصول پسندی ان کی سیاست کے رستے میں رکاوٹ بن گئی تھی، کیونکہ تب لانے والے ہر قیمت پر عمران خان کو لانا چاہتے تھے۔ بغیر یہ سوچے کہ اس میں اصول اور اخلاقیات کے کتنے ٹکڑے ہوتے ہیں اور وہ کہاں کہاں کن پیروں تلے روندے جاتے ہیں، یہ پروا کسی کو نہ تھی اور تھی تو فکر نہ تھی اور فکر تھی تو ہمت نہ تھی اور جن میں ہمت تھی، ان کی یہ آرزو نہ تھی۔ سو دل پھر طواف کوئے ملامت کو چل پڑا۔ اب وہی زمین ہے، وہی آسمان، وہی ایوب وہی ایبڈو، وہی یحییٰ وہی لسٹیں، وہی مشرف وہی تصرف، وہی کرپشن وہی سیاستداں۔ ایک ہی فارمولہ ہے۔ بار بار سیاست پر آزمایا جاتا ہے اور ہر بار ٹپا کھا کر واپس پلٹ جاتا ہے۔ ہمارے ادارے ناکامیوں کا تسلسل دہرانے میں اتنے مستقل مزاج ہیں کہ دیکھ کر رشک آتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ رشک خوف میں بدلتا ہے اور خوف مایوسی میں۔ یہی مایوسی عوام کو ریاست سے، سیاست کو شرافت سے، اداروں کو حدود سے دور کرتی ہے۔ کیونکہ پیسے کی ہوس کی طرح اختیار کی بھوک بھی کبھی نہیں مٹتی۔ تب شہر خرابات کا ہر شخص خود کو ولی سمجھتا ہے اور دوسرے کو شیطان۔ ہر گروہ اپنی سماجی اخلاقیات خود تراش کر اس سے چمٹ جاتا ہے اور اس کے ذریعے اپنے معاشی، سیاسی یا اختیاراتی مفاد کا تحفظ کرتا ہے۔ ان گروہوں میں کوئی تخصیص نہیں۔
سیاست، عدلیہ، فوج، میڈیا، بیوروکریٹ، بزنس مین سب کی اپنی اپنی اخلاقیات ہیں اور ہر ادارہ خود کو اس اخلاقیات کا محافظ سمجھتا ہے، یا اس اخلاقیات کو اپنا محافظ گردانتا ہے۔ تاہم یہ اخلاقیات وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہیں، حالانکہ اخلاقیات ہمیشہ ابدی ہوتی ہیں، وہ کبھی نہیں بدلتیں۔ مثلاً جھوٹ بولنا اور چوری کرنا پانچ ہزار سال پہلے بھی برا تھا، آج بھی برا ہے۔ لیکن حیرانی یہ ہے کہ یہاں اس تبدیلی پر کوئی شرمساری نہیں ہوتی، بلکہ فخر سے بیان کی جاتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ یہ فارمولے ضرورت اور مفاد کے مطابق بنائے جاتے ہیں اور انہیں اخلاقیات کا نام دے دیا جاتا ہے۔ مثلاً ایک وقت تھا جب کرپشن تھی، لیکن اس پر تشویش نہیں تھی۔ اب ہے، کیونکہ اب پرانے درخت اکھاڑنے کی ضرورت ہے۔ ایک وقت تھا جب متحدہ کی منافرت اور تشدد بھری سیاست تھی، لیکن ایشو نہیں تھی۔ اب ہے، کیونکہ اس کی جگہ کسی اور کو دے دی گئی ہے۔ ایک وقت تھا جب مذہبی اور دینی جماعتیں گرے ایریا میں نہیں تھیں۔ اب ہیں، کیونکہ اب ان کی ضرورت نہیں رہی۔ ایک وقت تھا، جب عدلیہ سیاسی معاملات میں دخل نہیں دیتی تھی۔ اب ڈنکے کی چوٹ پر دیتی ہے، کیونکہ حکومتیں کمزور ہیں یا اسے اپنے فائدے میں سمجھتی ہیں۔ ایک وقت تھا جب بیوروکریٹ سیاست میں ملوث نہیں تھے۔ اب ہیں۔ ایسی سینکڑں مثالیں ہیں، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ جس چیز کو بھی امرت بتا کر ہمیں پلایا جاتا تھا، اب زہر کا لیبل لگا کر دور کر دی گئی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ان چیزوں کے ضرر یا افادیت میں فرق نہیں آیا۔ تاثیر اب بھی وہی ہے، جو پہلے تھی۔ فرق یہ ہے کہ پہلے کسی خاص گروہ کے معاشی، سیاسی یا انتظامی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے ان کی ضرورت تھی، اب نہیں ہے۔ اس لیے انہیں ضرر رساں کہہ کر صفایا کر دیا جاتا ہے۔ متحدہ سے بڑی مثال اور کیا ہو گی؟ جس آئین کے تحفظ کی قسم سارے ادارے اٹھاتے ہیں، اسی آئین میں لسانیت، قومیت اور علاقائیت کی بنیاد پر سیاست کرنا اور سیاسی گروہ بنانا جرم ہے۔ لیکن انہی حلف اٹھانے والے اداروں نے متحدہ جیسی خوفناک لسانی اور تشدد سے بھری جماعت بنا ڈالی اور اسے قوم پر تیس برس تک مسلط کر دیا، پھر اسے اجازت دی کہ وہ سارے معاشرے کو اپنی زہرناکی سے بھر دے۔ ریاست کی نس نس میں تشدد، غنڈہ گردی، لسانیت، تعصب، خانہ جنگی اور ملک توڑنے کی سوچ اتار دے۔ ملک اور معاشرے پر اس کے کتنے سنگین اثرات ہوں گے، اس کی پروا کسی کو نہ تھی۔ لیکن جب ضرورت نہ رہی اور اس کی جگہ تحریک انصاف کو دے دی گئی تو اسے راندۂ درگاہ کر دیا گیا۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ متحدہ مظلوم ہے، جی نہیں، وہ ظالم ترین گروہوں میں شامل ہے۔ لیکن اس سے زیادہ ظالم وہ ہیں، جنہوں نے اسے بنایا، بڑا کیا اور مسلط کیا۔ جب متحدہ کو سزا ملی تو ان کو کیوں نہیں ملی؟ وہ تو زیادہ سزا کے مستحق تھے۔ اسی طرح کرپشن کا معاملہ ہے، جن بڑوں نے آصف زرداری کو این آر او دیا یا نواز شریف کو آگے بڑھایا، پھر پارٹی اور ملک پر مسلط کیا۔ برسوں بلکہ دہائیوں تک کرپشن ہنسی خوشی برداشت کی۔ انہی بڑوں کے رشتہ داروں، دوستوں اور ساتھیوں نے بھی کرپشن کی بہتی گنگا میں غوطے لگائے۔ اب ان بڑوں کو سزا کیوں نہیں ملتی؟ انہیں نیب کا سامنا کیوں نہیں کرنا پڑتا۔ بے نظیر کی حکومت اور زرداری کی صدارت کے دوران کرپشن کرنے والے صرف سیاستداں، بیوروکریٹ اور بزنس مین نہیں تھے۔ بے شمار پردہ نشین اور بھی تھے، جنہوں نے اس مکروہ عمل کو تحفظ دیا۔ اس سے چشم پوشی کی یا اس میں شریک رہے۔ سوال یہ ہے کہ ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوتی؟ آپ بے شک زرداری کو سخت ترین سزا دیں، کسی کو ہمدردی نہیں ہوگی، لیکن ان کو بھی دیں، جو اسے حکومت اور اقتدار کے تخت تک کاندھے پر بٹھا کر لائے۔ سرپرستی کی اور کھل کھیلنے کا موقع دیا۔ پھر اگلا سوال اٹھتا ہے مشرف کی طرف۔ کیا مشرف بالکل پاک صاف اور دودھ کے دھلے ہوئے تھے؟ کیا انہوں نے کرپشن نہیں کی یا کرپٹ لوگوں کو تحفظ اور سرپرستی نہیں دی؟ کیا زمینوں کی الاٹمنٹ سے لے کر سرکاری عہدوں کی تقرری تک سارے عمل شفاف اور قانون کے مطابق تھے؟ یہاں تو آپ محض بدنیتی کی بنا پر سزا دینے کے حق میں دلائل دیتے ہیں۔ وہاں کھلی آنکھوں سے سموچا بیل نگلنے پر بھی چپ رہتے ہیں اور آخر میں تحریک انصاف۔ کیا پارٹی اور حکومت میں شامل سارے لوگ دامن نچوڑتے ہیں تو فرشتے وضو کرتے ہیں؟ کیا سارے نیک اور دیانتدار ہیں؟ حال یہ ہے کہ وزیر اعظم کا غیر قانونی گھر معمولی جرمانہ لگا کر قانونی بنا دیا جاتا ہے اور ایمپریس مارکیٹ میں پچاس پچاس برس کی قانونی دکانیں مسمار کر دی جاتی ہیں؟ وزیر اعظم کا گھر گرانے میں کیا قباحت تھی؟ کیا موصوف پر واجب نہ تھا کہ گھر خود ہی خالی کر کے گرانے کا حکم دے دیتے؟ دوسروں کے لیے مثال اپنی ذات سے شروع کرتے۔ ریاست مدینہ کا حوالہ دینے سے تو ریاست قائم نہیں ہوتی۔ قانون خود پر لگانے سے بنتی ہے اور چالاکی دیکھئے۔ وزیر اعظم کے گھر کا معاملہ آیا تو اسے ناجائز تجاوزات نہیں کہا گیا، غیر ریگولر تعمیر کہا گیا، تاکہ سننے میں سنگینی نظر نہ آئے۔ حالانکہ اس کیس سے مماثلت رکھنے والے درجنوں گھر بنی گالہ میں گرا دیئے گئے، لیکن حکمراں سے نظر چرالی گئی۔ جب وزیر اعظم کا یہ حال ہے تو کجا ماند مسلمانی؟ نیچے والوں کی تو بات ہی نہ کریں۔ ہر ماتحت کے ہاتھ میں ہتھوڑا ہے اور ہر مسئلے کو کیل سمجھ کر ٹھوکتا پھرتا ہے۔

Comments (0)
Add Comment