قربان انجم
ممتاز بھارتی صحافی سگرنیل سنہا نے "Southasian monitor.com” کے 26 نومبر 2018ء کے بلاگر میں ’’پھر وہی مندر کی سیاست‘‘ "INDIA,s ROWNG PARTY BACK TO TENPLE POLITIES” کے عنوان سے ایک آرٹیکل لکھا ہے، جس کے افتتاحیہ میں بتایا گیا ہے: بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے ایک بار پھر مندر کی سیاست شروع کر دی ہے۔ 2019ء میں عام انتخابات ہو رہے ہیں، اس سے قبل بی جے پی چاہتی ہے کہ عام ہندوئوں کے جذبات کو اپیل کرنے والی باتیں کر کے ووٹ بینک کو کسی طور برقرار رکھا جائے۔ بھارت میں ہندوئوں کی اکثریت کو مختلف نعروں کے ذریعے سے ایک طرف دھکیلا جاتا رہا ہے، جن اہم معاملات کو بنیاد بنا کر عوام کو بے وقوف بنایا جاتا رہا ہے، ان میں رام جنم بھومی مندر کی تعمیر کا معاملہ بھی نمایاں ہے۔
مسٹر سنہا لکھتے ہیں: اترپردیش کے شہر ایودھیا میں منعقد کی جانے والی ایک ریلی میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ایودھیا میں جہاں بابری مسجد ہوا کرتی تھی، وہاں رام جنم بھومی مندر تعمیر کرنے کے حوالے سے خصوصی آرڈی نینس جاری کیا جائے۔ ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی کی قیادت میں اقتدار کے ساڑھے چار سال مکمل کرنے والی حکومت کو اب تسلسل سے ہمکنار رہنے کے حوالے سے حزب اختلاف کے ہاتھوں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ بی جے پی محسوس کرتی ہے کہ آئندہ سال کے عام انتخابات میں بھرپور کامیابی حاصل کرنا آسان نہ ہوگا۔
ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتیں، روزگار کے مواقع کی کمی، کسانوں میں پایا جانے والا شدید اضطراب اور معاشرے میں ذات پات کی بنیاد پر موجود تقسیم کے حوالے سے شدید انتشار… یہ سب مل کر بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں۔ 2014ء کے عام انتخابات میں عوام نے کانگریس کی قیادت میں یونائیٹڈ پروگریسیو الائنس کی حکومت کی کارکردگی سے مایوس ہو کر بی جے پی کو مینڈیٹ سے نوازا تھا۔ بی جے پی کی قیادت نے عوام کو یقین دلایا تھا کہ معاملات کو درست کیا جائے گا، اچھے دن یقینی بنائے جائیں گے۔ بہرکیف، اب یہ بالکل واضح ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی ایک بار پھر منتخب ہونے کے لیے رام جی کا سہارا لے رہی ہے۔ بات پھر مندر کی سیاست تک آگئی ہے۔
انتہا پسندی کی سوچ کے ساتھ سیاست کرنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی نے اب سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کا سہارا لینے کا تہیہ کیا ہے۔ سپریم کورٹ کہتی ہے کہ وہ یہ طے کرے گی کہ کون سا بینچ کب رام جنم بھومی مندر کی تعمیر کے کیس کی سماعت کرے گا۔ جنوری میں سماعت کا امکان ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ عام انتخابات سے قبل رام جنم بھومی مندر کی تعمیر سے متعلق کیس کا حتمی فیصلہ متوقع نہیں۔ 2014ء کے بعد سے اب تک بھارتیہ جنتا پارٹی کو ضمنی انتخابات میں شکست کا سامنا رہا ہے۔ پانچ ریاستوں کے انتخابات میں حکمراں انتہا پسند بی جے پی کو غیر معمولی نقصان اور شرمناک شکست کا سامنا رہا۔ اب پارٹی میں اس حوالے سے شدید اضطراب پایا جاتا ہے۔ یہ خیال کھل کر ظاہر کیا جا رہا ہے کہ عام انتخابات میں غیر معمولی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس حوالے سے ابھی سے تیاری کرنا پڑے گی۔ بی جے پی نے پہلے بھی رام مندر کی سیاست کے کاندھے پر سوار ہو کر اقتدار کے ایوان تک سفر کیا تھا۔ اب ایسا لگتا ہے کہ پارٹی پھر مندر کی سیاست کو گلے لگانے کی تیاری کر رہی ہے۔ چار پانچ سال کے دوران میں بھارت میں ہندو انتہا پسندی کی لہر رہی ہے۔ بی جے پی نے بظاہر پوری تیاری کر لی ہے، رام جنم بھومی مندر کے ایشو کو آئندہ عام انتخابات تک بھرپور توجہ کے ساتھ زندہ رکھا جائے اور عوام کے ذہنوں پر دوبارہ مسلط کیا جائے۔ کانگریس اور دیگر جماعتوں نے رام جنم بھومی مندر کے معاملے میں کھل کر مؤقف نہیں اپنایا۔ بی جے پی رام مندر ایشو کے معاملے پر دیگر سیاسی جماعتوں کے مبہم اور متذبذب رویئے کو اپنی مرضی کے مطابق اپنے مفاد کے لیے بروئے کار لانا چاہتی ہے۔
رام مندر کے مسئلے پر بی جے پی کو مزید مضبوط ہونے کا موقع اس لیے ملا ہے کہ کانگریس نے ہندوتوا کے ایجنڈے پر خاصی نرمی اور کمزوری دکھائی ہے۔ کانگریس کے سربراہ راہول گاندھی کو ’’جنیو دھاری‘‘ برہمن کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ بی جے پی نے مذہبی معاملات میں کانگریس کے کمزور مؤقف سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ کانگریس کو بھارت میں GOP (GRAND OLD PARTY) کی حیثیت حاصل ہے۔ بی جے پی اچھی طرح جانتی ہے کہ وہ مذہب کے معاملے پر کھل کر سامنے نہیں آسکتی۔ ہندوتوا بھی کانگریس کا ایجنڈا نہیں رہا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے ہمیشہ یہ نکتہ ذہن نشین رکھا ہے کہ کانگریس نے اقلیتوں کو ساتھ ملا کر چلنے کی کوشش کی ہے۔ بی جے پی کی طرف سے یہ بات زور دے کر کہی جاتی رہی ہے کہ کانگریس نے ہمیشہ اکثریت یعنی عام ہندوئوں کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے میں تساہل اور تغافل کا مظاہرہ کیا ہے۔ کانگریس نے رام مندر کے انتہائی حساس ایشو پر بھی عام ہندوئوں کے جذبات کو اپیل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اب بی جے پی اس صورت حال کا بھرپور فائدہ اٹھانے کی تیاری کر رہی ہے۔
بی جے پی کے قائدین اور غیر جانبدار مبصرین کہتے ہیں کہ رام مندر کی سیاست سے بی جے پی کو فائدہ ضرور پہنچے گا، مگر بہت زیادہ نہیں۔ کیونکہ دیہی آبادی کو رام مندر کی تعمیر سے زیادہ اس بات سے غرض ہے کہ پینے کا صاف پانی ملے، صحت کی بنیادی سہولتیں ملیں، تعلیم کا بہتر انتظام ہو، بجلی آئے، ایندھن ملے، سڑکیں تعمیر کی جائیں اور کسانوں کے معاشی مسائل حل کرنے پر خاطرخواہ توجہ دی جائے، تاکہ ان میں خود کشی کا رجحان کمزور پڑے۔
وزیر مملکت برائے صحت و خاندانی بہبود انوپریہ پٹیل نے پارلیمان کے ایوان بالا راجیہ سبھا میں ایک تحریری جواب میں کہا تھا کہ ملک بھر میں بنیادی صحت کے 61.2 فیصد مراکز ایسے ہیں، جن میں صرف ایک ڈاکٹر تعینات ہے اور 7.69 فیصد مراکز ایسے ہیں، جن میں کوئی ڈاکٹر تعینات نہیں۔ 2017ء کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ دنیا بھر میں غذائی قلت سے دوچار بچوں کی نصف تعداد بھارت سے تعلق رکھتی ہے۔ بھارت صحت کے شعبے پر خام قومی پیداوار کا صرف 1.2 فیصد خرچ کرتا ہے جو ضرورت سے بہت کم ہے۔
فراہمی و نکاسی آب سے متعلق امور پر کام کرنے والے ادارے ’’واٹرایڈ‘‘ نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ بھارت کے دیہی علاقوں میں کم از کم 6 کروڑ 34 لاکھ افراد پینے کے صاف پانی تک رسائی سے مکمل طور پر محروم ہیں۔ یہ تعداد کسی بھی ملک میں پینے کے صاف پانی تک رسائی سے محروم افراد کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔ کسانوں کے خراب حالات بھارت کا بڑا مسئلہ ہے۔ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 1998ء سے اب تک تین لاکھ سے زائد کسان مالی مشکلات سے تنگ آکر خود کشی کر چکے ہیں۔ موسمی حالات کی خرابی سے فصل کے بگڑ جانے پر قرضے ادا کرنے کے قابل نہ رہنے والے کسان خودکشی کر لیتے ہیں۔ اس حوالے سے کوئی جامع حکمت عملی اب تک مرتب نہیں کی جا سکی ہے۔ گزشتہ سال حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ 2014ء سے اب تک بارہ ہزار سے زائد کسان خودکشی کر چکے ہیں۔
بھارت میں اب تک خام قومی پیداوار بڑھانے پر زور دیا جاتا رہا ہے۔ مجموعی قومی پیداوار کا بڑھنا کسی بھی اعتبار سے بھرپور قومی ترقی کا ضامن نہیں ہوا کرتا۔ سوال پالیسیوں میں توازن کا ہے۔ بی جے پی کے لیے بہتر یہ ہوگا کہ بنیادی مسائل حل کرنے پر توجہ دے اور رام مندر کی تعمیر کا معاملہ سپریم کورٹ پر چھوڑ دے۔ نریندر مودی نے2014ء میں جن ’’اچھے دنوں‘‘ کی نوید سنائی تھی، وہ ’’اچھے دن‘‘ اب تک نہیں آئے۔ رام مندر کی سیاست نے بی جے پی کو جس تباہی سے دوچار کیا ہے، وہ آئندہ انتخابات میں اس کے حشر کے ’’اچھے دن‘‘ قوم اور پوری دنیا کو دکھا دے گی۔