طوفان کی آنکھ

ڈاکٹر ضیاألدین خان
پہلے ایک کہانی سن لیں۔ کہانی لکھی ہے ناصر خسرو نے۔ جو 1004 عیسوی میں مشرقی ایران میں پیدا ہوئے اور فاطمی سلطنت کے بادشاہ المستنصر کے دربار سے وابستہ رہے۔ وہ اسماعیلی مذہب کے داعی تھے۔ اور بلا کے شاعر۔ ادیب اور فلاسفر۔ افغانستان کے صوبے بدخشاں میں ان کا انتقال ہوا۔ اب آیئے کہانی کی طرف۔ ایک دن عقاب اپنے چٹانی بسیرے سے اٹھا اور غذا کی تلاش میں اپنے بازو اور پر پھیلائے۔ اپنے بڑے پروں کو دیکھ کر وہ پھولے نہ سمایا۔ اور تکبر سے باآواز بلند بولا۔ آج پوری دنیا میرے پروں تلے ہے۔ میں سمندر پر بلند پرواز کرتا ہوں تو اپنی آنکھ سے وہ ننھا سا بال بھی دیکھ سکتا ہوں۔ جو سمندر کی تہہ میں پڑا ہے۔ اور زمین پر اگر کوئی مچھر کسی تنکے پر چلے۔ اس کی حرکت بھی اپنی تیز نگاہ سے پکڑ لیتا ہوں۔ پوری دنیا میں کون ہے۔ جو میری طرح اڑ سکے؟ گدھ بڑا گدھ۔ سیمرغ کوئی اور عقاب۔ کون؟ اچانک کسی پوشیدہ گوشے سے ایک تیر بلند ہوا اور قضائے بد کی طرح سیدھا اپنے نشانے کی طرف لپکا۔ بلند ہوتا۔ ہوا کو چیرتا پھاڑتا تیر عقاب کے بازو میں اتر گیا۔ اور اسے بلندی سے کھینچ کر نیچے پستی میں لا پٹخا۔ وہ بے یار و مددگار پرندہ لڑھکنیاں کھاتا ہوا زمین پر گرا اور مچھلی کی طرح تڑپنے لگا۔ بے یقینی کے عالم میں اس نے آنکھیں پھاڑ کر دائیں بائیں دیکھا تو اس کی نگاہ تیر پر پڑی۔ تب اس نے دیکھا کہ تیر کو توازن دینے کے لئے اس پر عقاب کے پر لگے ہوئے ہیں۔ اس عقاب کے جو اس سے پہلے تکبر کا شکار ہوا تھا۔ تب اس نے رو کر کہا۔ میں کیا شکایت کروں۔ ہم جو کرتے ہیں۔ وہی بھرتے ہیں۔ اے خسرو اپنا غرور و تکبر ایک طرف رکھ۔ تو نے دیکھا کہ شیخی باز عقاب پر کیا گزری؟ یہ کہانی سب سے پہلے الطاف حسین کو پڑھنی چاہئے۔ پھر نواز شریف کو اور اب آصف زرداری کو۔ شیخی و تکبر نے ان تینوں کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کیا۔ اور پر نچے پرندے کی طرح شکاری کے تھیلے میں پھینک دیا۔ الطاف کا پتہ صاف ہوا۔ نواز کی کہانی سوگئی۔ زرداری کا باب بند ہونے کو ہے۔ تم آج مسافر ہو تو ہم کل سفری ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پیپلز پارٹی آج پریشان ہے۔ ایک زرداری۔ سب پر بھاری پڑ گئے ہیں۔ ان کے بعد کس کی باری ہے؟ کسی کو پتہ نہیں۔ کسی کو یقین نہیں۔ کوئی 170 بتاتا ہے۔ کوئی 270 تو کوئی 370۔ گرفتار کرنے والوں نے اپنے اہداف چھپا رکھے ہیں۔ ان سے پوچھا جائے تو مسکرا کر جواب دیتے ہیں کہ ابھی تو صرف پرندے شمار کرنا ہے۔ یہ پھر بتائیں گے کس کا شکار کرنا ہے۔ پیپلز پارٹی بہت دیر سے جاگی۔ مزید دیر سے حرکت میں آئی۔ اور اب ہاتھ پائوں پھلائے بیٹھی ہے۔ کارکن اور قیادت میں جو فاصلے برسوں کے تکبر نے پیدا کئے تھے۔ وہ جلسوں کے طوفانی دھارے مٹا نہیں پا رہے۔ پارٹی کارکن کبھی زرداری کے نام پر نہیں نکلا۔ اب بھی نہیں نکلے گا۔ لیکن بلاول کی گرفتاری ہوئی تو بے نظیر کے بیٹے اور بھٹو کے نواسے کے نام پر ضرور باہر آئے گا۔ آصف زرداری شاید پہلی بار سیاسی مات کھا چکے ہیں۔ ان کے اندازے۔ تخمینے۔ رابطے۔ تجزیئے اور اشارے سب غلط ثابت ہوئے۔ نواز شریف کی قیمت پر وہ خود کو بچا نہ پائے۔ اس لئے ان کے لہجے میں تلخی رفتہ رفتہ جارحیت میں بدلتی جا رہی ہے۔ مشکل یہ ہے کہ انہوں نے کبھی پارٹی کارکنوں سے براہ راست رابطے نہیں رکھے۔ اپنے اور کارکنوں کے درمیان نادیدہ دیواریں کھڑی کر دی تھیں۔ جو بلاول ہائوس کی دیواروں سے زیادہ بلند۔ ٹھوس اور نا سننے والی تھیں۔ گزشتہ الیکشن کے نتائج نے انہیں اعتماد کی ایسی لہر پر سوار کر دیا۔ جس کی بلندی عقاب کے شہ پروں کو چھوتی تھی۔ لیکن وہ بھول گئے کہ کرنے والے صرف نواز شریف پر اکتفا نہیں کریں گے۔ ڈاکٹر عاصم۔ انور مجید۔ حسین لوائی۔ یہ سب کسے ہوئے پھندے تھے۔ لیکن زرداری بے بسی کے عالم میں شکنجہ تنگ ہوتے دیکھتے رہے۔ اور خود کو تسلی دیتے رہے۔ جو بندہ اپنی ذات کے لئے ساتھیوں کو قربان کرنے پر آمادہ ہو۔ ایک دن اسے بھی قربانی دینی پڑتی ہے۔ آج سندھ حکومت جس دبائو کا شکار ہے۔ وہ صرف زرداری کے باعث ہے۔ ورنہ مراد علی شاہ کبھی گرفت میں نہیں آتے۔ اب مشکل یہ ہے کہ پیپلز پارٹی میں فارورڈ بلاک بنتا ہے اور حکومت خطرے میں پڑتی ہے تو وزیر اعلیٰ اسمبلی توڑنے کا آپشن استعمال کر سکتے ہیں۔ اور ایک بار اسمبلی ٹوٹ گئی تو سارا کھیل بکھیڑا ہو جائے گا۔ گورنر راج پیپلز پارٹی کو مظلومیت کے ہمالیہ پر بٹھا دے گا۔ پورے ملک میں بے چینی اور نا پسندیدگی کی ایسی لہر اٹھے گی کہ جو حکومت کو وقت سے پہلے کٹہرے میں کھڑا کر دے گی۔ دوسروں کا حقِ حکمرانی غصب کرنے اور دوسری جماعتوں میں نقب زنی کر کے فارورڈ بلاک بنانے کے خلاف عمران خان کے آگ اگلتے بیانات کی تپش اب بھی ٹی وی کلپس میں محفوط ہوگی۔ نواز لیگ کے دورِ حکومت میں صوبہ خیبر پختون کی حکومت کے خلاف جب بھی عدم اعتماد کی بات چلی۔ عمران خان کی بے چینی دیدنی رہی۔ ان کے اور پارٹی لیڈروں کے بیانات نکال کر دیکھ لیں۔ کائنات میں سب سے گندی چیز جس کا ذکر انسان کر سکتا ہے۔ ان کے نزدیک فارورڈ بلاکنگ اور نقب زنی تھی۔ یہ تو قسمت اچھی تھی کہ نواز شریف مانے نہیں۔ ورنہ صوبائی حکومت دو دن بھی نہ چلتی۔ آج وہی نقب زنی تحریک انصاف کر رہی ہے۔ اور ببانگ دہل کر رہی ہے۔ ایک صاحب فرماتے ہیں کہ ہم پانچ برس یہ حکومت برداشت نہیں کر سکتے۔ دوسرے کہتے ہیں فارورڈ بلاک بن رہا ہے۔ سترہ اٹھارہ بندے میرے رابطے میں ہیں۔ تیسرے کہتے ہیں حکومت ہٹانا ہمارا حق ہے۔ ضرور ہے۔ لیکن نقب زنی کر کے نہیں۔ جمہوری روایات کی پاسداری کر کے۔ حیرانی یہ ہے کہ ہارس ٹریڈنگ اور وفاداریاں بدلنے کے خلاف چیخ و پکار کرنے والی تحریک انصاف آج خود اس پر اتر آئی۔ سندھ حکومت سے ہمیں کوئی دلچسپی نہیں۔ نہ زرداری کے سیاسی مستقبل سے کوئی لگائو ہے۔ لیکن جو ہو رہا ہے۔ وہ کم سے کم الفاظ میں افسوسناک ہے۔ اگر ہٹانا تھا تو لانے کی کیا ضرورت تھی؟ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس تیار کر کے اچانک پیپلز پارٹی کی حکومت بنا دی گئی۔ الائنس کو خدا ملا نہ وصال صنم۔ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے۔ اسی لئے اس بار الائنس والوں نے صاف کہہ دیا ہے کہ آپ فارورڈ بلاک بنائیں۔ جب سارا کام تیار ہو جائے تو ہمیں بتا دیں۔ اس سے پہلے ہم سرگرم نہیں ہوں گے۔ کیونکہ پہلے بھی چوٹ کھا چکے ہیں۔ اب یہ طے ہے کہ پیپلز پارٹی اپنی حکومت بچانے کے لئے جان کی بازی لگا دے گی۔ پیسے کی کوئی کمی نہیں۔ دھمکی میں کوئی عار نہیں۔ زرداری گاجر اور ڈنڈے کی سیاست کے ماہر ہیں۔ اور ترازو میں مینڈک تولنے کے بھی۔ سندھ انتظامیہ ان کی مٹھی میں ہے۔ وہ کسی مینڈک کو چھلانگ لگانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اور سارے مینڈک جانتے ہیں کہ اگر آج فارورڈ بلاک میں شامل ہو گئے تو کل انہیں اور ان کے خاندان کا سندھ میں رہنا مشکل ہو جائے گا۔ دریا میں رہ کر مگرمچھ سے بیر لینا آسان نہیں۔ سو ہمارے نزدیک فارورڈ بلاک بنانا شاید اتنا آسان نہ ہو۔ وہ فارورڈ بلاک جو صوبائی حکومت کا تختہ الٹ سکے۔ شاید اسی لئے مراد علی شاہ کی بدن بولی میں اتنا تنائو نہیں۔ وہ خاصے اعتماد سے بات کرتے نظر آتے ہیں۔ تبدیلی کے خواہش مندوں کو یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ پیپلز پارٹی کے ارکانِ اسمبلی صرف وفاداری کے حلف سے نہیں بندھے۔ خوف کے جال میں بھی بند ہیں۔ اور یہ نظر بھی آتا ہے۔ آپ تو جانتے ہیں کہ ہینگ کی باس۔ پریم کی راس اور خوف کی سانس چھپائے نہیں چھپتی۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ دھوپ چھائوں کا کھیل ہے۔ آج پارٹی لیڈرشپ سے سختی ہے تو کل نرمی بھی ہو سکتی ہے۔ مقتدر حلقوں کی ترجیحات بدلتی رہتی ہیں۔ سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کو وہ شطرنج کے مہروں کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ آج اگر پارٹی سیاہ خانوں پر کھڑی ہے تو کل سفید خانوں پر بھی آ سکتی ہے۔ سو وقتی فائدے کے لئے ایسے خطرات کیوں مول لیں۔ جس سے ان کی سیاست۔ زندگی۔ خاندان اور دھندا چوپٹ ہو جائے۔ ہم ڈرا نہیں رہے۔ حقیقت بتا رہے ہیں۔ اور اس کی سب سے بڑی مثال مخدوم طالب المولیٰ کے بیٹے مخدوم امین فہیم تھے۔ مشرف کے گیارہ برسوں میں وہ پیپلز پارٹی کے سربراہ رہے۔ مشرف اور دیگر جرنیلوں سے ذاتی تعلقات تھے۔ لیکن کبھی اس بات پر آمادہ نہیں ہوئے کہ بے نظیر سے پارٹی چھین کر مشرف اقتدار کا حصہ بن جائیں۔ وہ صاف کہتے تھے کہ ہمیں سندھ میں رہنا ہے۔ اور یہیں سیاست کرنی ہے۔ ایسا کرنے سے ہمارے لئے سندھ میں رہنا مشکل ہو جائے گا۔ تو جب مخدوم خاندان جیسا طاقتور اور مضبوط گروہ چاہنے کے باوجود پارٹی سے علیحدگی یا قبضے کا نہ سوچ سکا۔ تو زرداری کے دورِ ظلمت نشاں میں کون ہمت کرے گا؟ سندھ حکومت ختم ہوئی اور تحریک انصاف نے حکومت بنائی تو کتنے دن چلے گی؟ آخر کو ایک دن وہ بھی ختم ہوگی۔ اور پیپلز پارٹی سے سندھ چھیننا مگرمچھ کے جبڑے سے مرغابی نکالنا ہے۔ تب کیا ہوگا؟ فارورڈ بلاک کے ان غریبوں کو رہنا تو سندھ میں ہے۔ ساری وارداتیں یہیں کرنی ہیں۔ ویسے بھی ان کی فائلیں جس طرح وفاق کے پاس ہیں۔ اسی طرح زرداری کے پاس بھی ہیں۔ ان کے کرتوتوں پر مقدمے بنانا کوئی مشکل کام نہ ہوگا۔ سو یہ محبت نہیں خوف ہے۔ جو انہیں ایسے اقدام سے ممکنہ طور پر باز رکھے گا۔ ہاں ایک بات اور اس کی سندھ میں بہت اہمیت ہے۔ وہ یہ کہ یہاں تحریک انصاف کو پنجاب کی جماعت سمجھا جاتا ہے۔ باہر سے آنے والی یا مسلط کی جانے والی جماعت۔ جس کی جڑیں سندھ میں نہیں پھیلیں۔ شہری سندھ میں نہ دیہی سندھ میں۔ یونین کونسلوں کے حالیہ انتخابات نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ تحریک انصاف کی عوامی حمایت صفر ہے۔ کراچی ڈویژن کے الیکشن میں پیپلز پارٹی نے 8۔ متحدہ نے 10۔ اور تحریک انصاف نے صرف ایک یونین کونسل جیتی ہے۔ حالانکہ یہی کراچی ہے۔ جہاں سے قومی الیکشن میں قومی کی 14 اور صوبائی کی 23 نشستیں تحریک انصاف کی جھولی میں آ گری تھیں۔ فیصلے کرنے والے یہ بھی سوچ لیں کہ فارورڈ بلاک کے لئے مطلوبہ عدد پورے نہ ہوئے تو پھر کیا ہوگا؟ پیپلز پارٹی اور صوبائی حکومت جس جارحانہ موڈ میں آئیں گی۔ اس کے نتیجے میں پارلیمنٹ میں قانون سازی کون مائی کا لال کر پائے گا؟ بند گلی کی طرف قدم اٹھانے سے بہتر ہے کہ احتساب کو کرپشن پر گرفت تک محدود رکھا جائے۔ اسے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے سے آپ ظالم کو مظلوم بنا دیں گے۔ اور کرپٹ کو فرشتہ۔ اور تب بھی نکلے گا کچھ نہیں۔ ایک ٹیڈی پیسہ بھی نہیں۔ یقین نہ ہو تو آزما کر دیکھ لیں۔
٭

Comments (0)
Add Comment