اسٹور کی صفائی کرتے ہوئے اس سیاہ بیگ پر نظر پڑی جو صندوقوں کے پیچھے دبا پڑا تھا۔ جس میں بے شمار پرانے کاغذات، تصاویر، ڈائریاں بھری ہوئی تھیں۔ اس بیگ کو چھوتے ہی مجھے جیسے کرنٹ سا لگا۔ دل میں عجیب ٹیس اٹھی اور میں جذباتی ہوگئی۔ میں نے اس بیگ کو کھنگالنا شروع کر دیا۔ اس کو الٹ کر میں جیسے پاگل سی ہوگئی۔ ان تصاویر سے میرا ماضی بھی وابستہ تھا۔ بے حد خوبصورت یادیں تھیں، جو ایک ایک کر کے میرے سامنے بکھرنے لگیں۔ وہ یادیں جو کبھی چھبن بن کر ٹیسیوں کی طرح لو دیتی ہیں تو کبھی پھول بن کر مہکنے لگتی ہیں۔ مجھے نہ جانے کیوں آج دسمبر کے حوالے سے وہ ساری باتیں یاد آ رہی تھیں۔ جن کو میں ابھی تک روگ لگائے بیٹھی ہوں ’’میگھ بون کن ناتھا کے میگھ جو بولے کیسے … ‘‘ ایک سریلی سی خوبصورت آواز آج تک میں بھول نہیں پائی۔ میری بچپن کی دوست، سانولی سلونی دبلی پتلی سیاہ لمبے بالوں والی شیریں، جو میری محلے دار بھی تھی۔ اسکول اور کالج کی ساتھی بھی۔ اسکول میں ایک ساتھ دونوں پڑھتے رہے، پھر ایک ہی کالج میں داخلہ لیا۔ کالج میں شیریں کے علاوہ ہمارے گروپ میں دو لڑکیاں رابعہ اور صائمہ بھی شامل ہوگئیں۔ انگریزی ادب اور نفسیات ہم چاروں کا اختیاری مضمون تھا اور ان دونوں مضامین میں ہم چاروں کے درمیان سخت مقابلہ ہوتا۔ دوستی اپنی جگہ تھی، مگر پڑھائی میں کوئی رو رعایت نہیں تھی۔ ہم چاروں ہی اپنے اساتذہ کے لاڈلے تھے، کیونکہ ہر قسم کی نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں سب سے آگے رہتے۔ اسمبلی میں تلاوت قرآن پاک سے لے کر قومی ترانے تک ہم چاروں نمایاں تھے۔ سالانہ فنکشن میں افسانے، شاعری، محفل موسیقی، ڈرامے میں سب سے آگے ہوتے۔ پانچویں پریڈ کے بعد Reces کی بیل ہوتے ہی ہم چاروں کینٹین کے قریب درختوں کے جھنڈ میں آ کر اپنے اپنے لنچ بکس نکال لیتے۔ اسکول کے کینٹین میں بوا لڑکیوں کی پسند کی بے شمار چیزیں بیچتی تھیں، مگر ہم لوگوں کو گھر کے کھانے کی لت پڑی ہوئی تھی۔ یا شاید ہماری جیب اس بات کی اجازت نہیں دیتی تھی۔ رابعہ کا تعلق سندھی فیملی سے، صائمہ پنجابی آرائیں گھرانے سے، شیریں بنگالی اور میں اردو بولنے والی تھی۔ ہم چاروں کی زبان ضرور مختلف تھی، لیکن دل ایک تھے۔ ایک دوسرے کی تکلیف پر تڑپ جانے والے ہر لمحے
ایک دوسرے کا خیال رکھنے والے۔
میرے ہاتھ میں جو اس وقت تصویر ہے، وہ کالج میں سالانہ فنکشن کی ہے، جس میں شیریں بنگالی ساڑھی میں، میں شلوار قمیض میں، رابعہ سندھی لباس میں اور صائمہ لاچے میں تھی۔ فینسی ڈریس میں ہم چاروں نے اسی روپ میں ایک ہی نغمے کو پنجابی سندھی اردو اور بنگالی میں گایا تھا اور اس پر فرسٹ پرائز بھی حاصل کیا تھا۔
کالج کا زمانہ بھی عجب بے فکری کا زمانہ تھا۔ اس وقت پڑھائی کے ساتھ ہلہ گلا بھی زندگی کا حصہ تھا۔ ہم چاروں پڑھائی کے ساتھ ساتھ شرارتوں میں بھی بے مثال تھے۔ مگر شرارتوں میں بدتمیزی کا کوئی شائبہ تک نہ ہوتا تھا۔ شیریں بنگالی تھی اور اس کی آواز بے حد خوبصورت اور سریلی تھی۔ فری پریڈ میں ہم لوگ اکثر اس سے بنگالی نغمے سنتے اور مفہوم اور معنی سمجھے بغیر سر دھنتے رہتے۔ میں تو اسے بنگال کی جادوگرنی کہا کرتی تھی۔ بنگالی لہجے میں اردو بولتے وہ بہت پیاری لگتی، مذکر کو مونث اور مونث کو مذکر بنا دینا تو اس کے لئے کوئی بات ہی نہیں تھی اور یہی معصومیت اس پر سجتی تھی۔ انٹر کالجیٹ مقابلوں میں ہم چاروں ہی حصہ لیتے اور اکثر انعام لاتے، مگر شیریں تو اپنے نغموں کی ادائیگی اور سریلی آواز کی وجہ سے ہمیشہ پہلا انعام لے کر آتی۔ شیریں مزاج کی بھی بہت دھیمی اور نرم تھی۔ سن ستر کے انتخابات کے بعد مشرقی پاکستان کے حالات تبدیل ہو گئے۔ شیخ مجیب الرحمن نے بھاری اکثریت حاصل کر لی، مگر مغربی پاکستان کے سیاستدانوں نے اس اکثریت کو تسلیم نہیں کیا اور حالات بگڑتے چلے گئے۔ پڑوسی ملک نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور ہندو مکتی باہنی اردو اور بنگالی کے درمیان تلوار بن کر کھڑے ہوگئے۔ قیادت کی ناسمجھی نے حالات اور خراب کر دیئے۔ نفرت کی دیوار بڑھتی گئی اور ملک دو ٹکڑے ہو گیا۔ یوں تو پورا مغربی پاکستان ہی اذیت میں تھا، مگر ہم چاروں میں سے تین بہت بے قرار تھے۔ کیونکہ شیریں تو ڈھاکہ واپس جا رہی تھی۔ اس کا رویہ اچانک ہی بدل گیا تھا۔ اب وہ میٹھے لہجے والی نرم و نازک شیریں نہیں تھی۔ اس کا انداز و لہجہ سب تبدیل ہوگیا تھا۔ اب وہ بنگالی لہجے میں اردو نہیں بولتی تھی۔ یا تو انگریزی ہی بولتی تھی یا بنگالی۔ اسمبلی میں ہمیشہ قومی ترانہ وہی لیڈ کرتی تھی، مگر بنگلہ دیش کے قیام کا اعلان ہوتے ہی شیریں نے اسمبلی میں آنا اور قومی ترانہ پڑھنا چھوڑ دیا۔ مس عذرا نے جب اسے ترانہ پڑھنے کے لئے بلایا تو اس نے انتہائی بدتمیزی سے جواب دیا ’’Sorry, I am not Pakistani‘‘ ہم سب اس کے روکھے لہجے پر حیران پریشان تھے۔ وہ اپنا بیگ اٹھا کر چلی گئی۔ اس نے ہم لوگوں کی محبتوں کا جواب نفرت سے دیا۔
مجھے یاد آیا کہ اس کی سالگرہ 16 دسمبر کو ہوتی تھی اور میں ہمیشہ اس کو کوئی نہ کوئی کتاب دیتی تھی۔ مگر 16 دسمبر 1971ء سقوط ڈھاکہ کے اذیت ناک واقعہ نے مجھے اس کی سالگرہ بھلا دی۔ وہ ہم سب کو چھوڑ کر چلی گئی، کبھی نہ آنے کے لئے۔ تقریباً ایک سال کے بعد مجھے اس کا انگریزی میں لکھا ہوا خط ملا، جس میں اس نے لکھا تھا ’’ I
Hate all Pakistani, I hate at i of you‘‘ شاید یہ ہماری محبتوں کا صلہ تھا کہ ہم اجنبی کے اجنبی ہی رہے۔ کبھی ان کے قریب نہ آ سکے۔ ہماری دوستی ہماری محبت، خلوص، سب بھلا دیئے گئے۔ خط تو اس نے بہت طویل لکھا تھا۔ مگر صرف نفرت کا اظہار تھا۔ شاید اس نے لکھا تھا ’’ مجھے پتہ نہیں کہ میرے باپ دادا نے پاکستان بنانے میں تم سب کی کیوں مدد کی؟ تم لوگوں نے ہم سے سب کچھ چھین لیا۔ ہم غربت کی انتہا پر پہنچ گئے، تم سب محلوں میں رہتے ہو۔ ہم فاقے کرتے ہیں ،تم عیش کرتے ہو۔ ہم فاقہ کش مزدور کپاس اور چاول اگاتے ہیں، تم اسے بیرون ملک بیچ کر سرمایہ کماتے ہو۔ مجھے تم سب سے نفرت ہے۔ شدید نفرت۔‘‘
شیریں کے سلگتے ہوئے خط نے کتنے دن تک میری نیندیں اڑا دیں تھیں ۔ میرا خیال تھا کہ کبھی اس کو اس بات کا احساس ہو گا کہ یہ نفرتیں ہم عوام نے نہیں، حکمرانوں نے پھیلائی ہیں۔ عوام تو سب ایک ہیں۔ مسلمان کلمہ گو ایک خدا، ایک قرآن اور ایک رسولؐ کو ماننے والے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔
میری شاید یہ خوش فہمی ہی تھی۔ میرے بیگ میں اس کے خط اور تصاویر میں نے سب سے چھپا کر رکھ لیں۔ سینتالیس (47) سال پہلے ہم ایک تھے۔ شاید پھر کبھی ایک ہو جائیں۔ شاید اسے کبھی بچپن کی محبتوں اور رفاقتوں کا خیال آ جائے۔ شاید کبھی رفاقتوں اور مدارتوں میں یکجائی ہو جائے۔
٭٭٭٭٭