علیحدگی پسندوں کیلئے نشانِ عبرت

کراچی میں چینی قونصل خانے پر دہشت گردانہ حملے کا ماسٹر مائنڈ اور بلوچ علیحدگی پسند اسلم اچھو کے بارے میں یہ اطلاعات آتی ہیں کہ وہ افغانستان میں ایک خود کش حملے میں ہلاک ہوگیا ہے۔ اسلم اچھو بھارت میں ’’را‘‘ کے پاس تھا اور اس کا بھارت میں علاج بھی کیا گیا تھا، لیکن آخر کار وہ بھارت سے افغانستان کیسے پہنچا اور اس کا افغانستان جانے کا مقصد کیا تھا؟ در اصل اسلم اچھو کو بھارت نے ہی افغانستان پہنچایا تھا اور اس کا مقصد اسلم اچھو کوہلاک کروانا تھا، کیوں کہ کراچی میں چینی قونصل خانے پر ہونے والے حملے کے شواہد اور ان کی بنیاد پر کی جانے والی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی تھی کہ اس حملے کا ماسٹر مائنڈ اسلم اچھو تھا، جو اس وقت بھارت میں ’’را‘‘ کے قبضے میں تھا، چنانچہ یہ بات بھی پایہ ثبوت کو پہنچی تھی کہ ’’را‘‘ بھی اس حملے میں ملوث ہے۔
یہ بات اب ثابت ہو چکی ہے کہ اسلم اچھو نے ہی اس حملے کی منصوبہ بندی میں ’’را‘‘ کی مدد سے کی تھی۔ چنانچہ را نے اسلم اچھو کو اپنے گھناؤنے مقصد کیلئے استعمال کیا اور اسلم اچھو اور را نظروں میں آگئی۔ اس کے ساتھ ہی اس واقعہ کے دو ہفتے بعد ایران کی بندرگاہ چاہ بہار میں بھی دہشت گردی کی واردات ہوئی، جس میں را اور اسلم اچھو ہی ملوث تھے۔ چنانچہ را نے اسلم اچھو سے اپنے تعلق کو خفیہ رکھنے کے غرض سے اس کو افغانستان پہنچایا، جہاں اسے خود کش حملے میں ہلاک کر دیا گیا، تاکہ اسلم اچھو اور را کے تعلقات راز ہی میں رہیں۔ بھارت کو دراصل یہ خطرہ پیدا ہو چکا تھا کہ دہشت گردی کے ان دو واقعات میں بھارت کے ایران اور چین کے ساتھ تعلقات بری طرح متاثر ہو سکتے ہیں، چنانچہ ان واقعات کی ذمے داری سے بچنے کیلئے اسلم اچھو کی ہلاکت کی منصوبہ بندی کی گئی اور اسے بالآخر افغانستان پہنچا کر ہلا ک کروا دیا گیا۔ اسلم اچھو کی موت کے ساتھ بھارت کے ایران اور چین کے ساتھ تعلقات کی خرابی کا خطرہ بھی بڑی حد تک ٹل گیا ہے، کیوں کہ بھارت اب یہ کہنے پر خود کو حق بجانب تصور کرتا ہے کہ اسلم اچھو سے اس کا یا را کا کوئی تعلق نہیں، وہ تو بھارت میں نہیں، بلکہ افغانستان میںتھا، جہاں وہ مارا گیا۔
اسلم اچھو کی ہلاکت نے بلوچ علیحدگی پسندوں سمیت ان تمام دہشت گرد گروپوں کیلئے ایک سوال پیدا کر دیا ہے اور وہ یہ کہ آیا بھارت حقیقی طور پر ان کا ہمدرد یا دوست ہے یا پھر انہیں اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے کسی کے طور پر استعمال کر رہا ہے اور ظاہر ہے جس سے بھارت کا کام نکل جاتا ہے تو وہ ان سے اپنی جان چھڑانے اور ان سے تعلق کو راز ہی میں رہنے کیلئے انہیں مروانے میں دیر نہیں لگاتا۔ اسلم اچھو کی ہلاکت ان تمام عناصر کے لئے لمحہ فکریہ ہے، جو بھارت کی مدد واعانت کے ساتھ پاکستان کے خلاف کام کررہے ہیں۔ انہیں اب اچھی طرح اندازہ ہوجانا چاہئے کہ بھارت نہ ان کا ہمدرد ہے اور نا ہی دوست۔ اسلم اچھو کو جس طرح بھارت نے اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا، اس سے بھارت کو اچھی طرح سے اندازہ ہو گیا تھا کہ اگر اسلم اچھو پاکستان کی گرفت میں آگیا تو پھر کل بھوشن یادیو کی طرح بھارت کے تمام کالے کرتوتوں سے پردہ اٹھ جائے گا اور بھارت عالمی برادری کے سامنے ننگا ہو جائے گا۔ ویسے بھی بھارت کے منہ پر کل بھوشن یادیو کے اعترافات کے بعد جو سیاہی ملی گئی تھی، وہ ابھی تک صاف نہیں ہوئی ہے۔
اسلم اچھو کے قتل سے ایک بات بڑی حد تک صاف ہوگئی ہے کہ بھارت پاکستان کے گمراہ بلوچ علیحدگی پسندوں سے قطعاً کوئی ہمدردی یا دوستی نہیں رکھتا، بلکہ انہیں ورغلا کر اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے استعمال کرتا ہے اور جب اس کا مقصد پورا ہو جاتا ہے، اس کا کام نکل جاتا ہے تو رازداری برقرار رکھنے کی غرض سے ان بے وقوفوں کو مروایا جاتا ہے۔ گویا ان احمق اور بے عقل علیحدگی پسندوں کی حیثیت بھارت کی نظر میں ایک ٹشو پیپر سے زیادہ نہیں، جسے استعمال کے بعد ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جاتا ہے اور دوسرا ٹیشو پیپر نکال لیاجاتا ہے، پھر اس کے ساتھ بھی وہی ہوتا ہے، جو پہلے ٹشو پیپر کے ساتھ کیا جاتا ہے۔
اس ضمن میں خوش آئند بات یہ ہے کہ اوورسیز پاکستانی بلوچ یونٹی کے بانی ڈاکٹر جمعہ مری خان کافی عرصے سے یہ نکتہ ان علیحدگی پسند بلوچوں کو سمجھانے کی کوششیں کررہے ہیں اور ڈاکٹر جمعہ مری خان ان ناراض بلوچوں کو سمجھا بجھا کر قومی دھارے کی سیاست میں واپس لانے کی جدوجہد کررہے ہیں، کیوں کہ پاکستانی سیاست کے مرکزی دھارے میں واپسی ان ناراض اور بدظن بلوچوں کیلئے اب مزید اہمیت اختیار کرتی جا رہی ہے اور انہیں اب یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف دہشت گردی کرنے میں اصل فائدہ بھارت کو حاصل ہوتا ہے۔ وہ تو ایک بے مقصد مہرے کی طرح استعمال کئے جاتے ہیں۔ کیوں کہ بلوچستان کی علیحدگی بھارت کیلئے اہمیت نہیں رکھتی۔ بھارت کیلئے اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ بلوچستان کے حالات کو خراب رکھا جائے اور خاص کر سی پیک منصوبے کو سبوتاژ کیا جائے، کیوں کہ یہ منصوبہ پاکستان کی اقتصادی خوشحالی کا منصوبہ ہے، جو بھارت کو کسی طرح گوارا نہیں۔
سی پیک کی تکمیل کے بعد بلوچستان کے حالات تبدیل ہوں گے اور بلوچستان میں بھی خوشحالی آئے گی، بھارت کی کوشش ہے کہ یہ نہ ہونے پائے۔ ماضی میں سینکڑوں علیحدگی پسندوں نے اس نکتے کو سمجھتے ہوئے اپنے ہتھیار پاکستانی حکام کے حوالے کئے اور بر ملا اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ پاکستان کے خلاف کام کرنے سے انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوا، بلکہ ذلت اور خواری کا سامنا کرنا پڑا، جبکہ ان کے نام نہاد لیڈران دیگر ملکوں میں عیاشیانہ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ علیحدگی پسندوں کو اب سنجیدگی سے اس پر غور کرنا چاہئے، کیوں کہ بھارت ابتدا میں تو علیحدگی پسندوں کو اپنا اسٹرٹیجک اثاثہ قرار دیتا ہے۔ انہیں پیسہ و تربیت، ہتھیار اور سپورٹ فراہم کرتا ہے، انہیں اپنے گھناؤنے مقاصد کیلئے استعمال کرتا ہے اور بعد میں انہیں بوجھ قرار دے کر ان سے چھٹکارہ حاصل کرنے میں دیر نہیں لگاتا۔
اگر ناراض اور بدظن بلوچوں کو پاکستان سے کوئی شکایت ہے تو اس کے ازالے کے لئے حکومت سے رابطہ کریں، بات چیت کریں، اپنے تحفظات سے آگاہ کریں، تاکہ ان کے تحفطات کو دور کیا جائے اور پاکستانی سیاست کے مرکزی دھارے میں شامل کیا جائے، ناکہ وہ بھارت کے آلہ کار بن کر پاکستان کے خلاف کارروائیوں میں ملوث ہوجائیں اور اپنی زندگی بھی اجیرن بنائیں۔ ان علیحدگی پسندوں کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ بھارت کے آلۂ کار بن کر ان کو فائدہ ہوا ہے یا نقصان۔ جلاوطنی کی زندگی اچھی ہے یا اپنے وطن میں رہنا زیادہ بہتر ہے۔ اگر غداری کا لیبل لگوا کر کسی دوسرے ملک میں رہنا اچھا ہے تو پھر تاریخ سے سبق لینے کی ضرورت ہے، کیوں کہ تاریخ میں ایسے غداروں کو ننگ وطن اور ننگ ملت جیسے القابات سے یاد کیا جاتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بھارت کے مقاصد اور منصوبوں کو سمجھا جائے اور اس کے آلہ کار بننے سے احتراز کیا جائے، کیوں کہ یہی جذبہ حب الوطنی کا تقاضا ہے۔

Comments (0)
Add Comment