لیفٹیننٹ کرنل (ر) عادل اختر
کسی ملک کی سب سے بڑی قیمتی دولت اس کے عوام ہوتے ہیں اور عوام کی سب سے قیمتی دولت ان کا کردار (Character)، صحت اور تعلیم ہوتے ہیں۔
انسان کے اندر برائی پر ابھارنے والی قوت ہوتی ہے، جیسے نفس امارہ کہتے ہیں۔ نفس امارہ کو وعظ یا تلقین سے راہ راست پر نہیں رکھا جاسکتا، بلکہ قانون اور سزا کا خوف ہی اسے کنٹرول میں رکھتا ہے۔ اچھی تعلیم اور روزگار بھی عوام کا کیریکٹر بنانے میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ایک ایسا کلچر رائج ہو گیا ہے، جس میں عوام یا غریبوں کو انصاف نہیں ملتا، بلکہ انصاف سے محروم رکھا جاتا ہے۔ دولت مند لوگ انصاف خرید لیتے ہیں۔ انصاف سے محرومی عوام کے اندر مایوسی اور تلخی پیدا کردیتی ہے اور انہیں یقین ہو جاتا ہے کہ اب انصاف تو ملنے والا نہیں۔ اس لئے ان کے اندر ایک منفی ردعمل پیدا ہو جاتا ہے۔ جسے پشتو زبان کا لفظ ’’ٹوپک زماں قانون‘‘ بخوبی ادا کرتا ہے۔ آپ ذرا پاکستان کی سڑکوں اور گلیوں میں گھوم پھر کر دیکھیں۔ ٹریفک دیکھیں۔ قلی، مزدور، دکاندار، ریڑھی والا، کلرک سب لوگ کاٹ کھانے کو دوڑ رہے ہیں۔ لوگ چڑچڑے، بدمزاج اور بدتمیز ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ان کا انصاف سے محروم رہنا ہے۔ یہ لوگ خراب نہیں ہیں، جب ملک سے باہر جاتے ہیں تو وہاں کے قانون کا پورا احترام کرتے ہیں، کیوں کہ وہاں قانون عملی طور پر نافذ دیکھتے ہیں۔
جب سے ثاقب نثار صاحب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بنے ہیں۔ انہیں اس ناانصافی کا بہت ادراک اور احساس ہے۔ خوش نما تقریریں تو سب کرلیتے ہیں۔ ثاقب نثار صاحب نے عملی اقدامات بھی کئے ہیں۔ ایک منہ زور ملزم جو جیل کے بجائے اسپتال میں پڑا داد عیش دے رہا تھا اور کسی میں طاقت نہیں تھی کہ اسے پکڑ سکے۔ ثاقب نثار صاحب اس کے اسپتال کے کمرے تک جا پہنچے اور ملزم کو دوبارہ جیل بھجوا دیا۔ اس طرح کی کئی اور مثالیں موجود ہیں۔ حال میں ہی لاہور میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے اجلاس میں انہوں نے کھل کر انصاف فراہم کرنے والے اداروں پر تنقید کی۔ مقدمات سال ہا سال چلتے رہتے ہیں اور کبھی فیصلہ نہیں ہو پاتا۔ فیصلے میں اتنی تاخیر ہو جاتی ہے کہ انصاف مانگنے والا قبر جا پہنچتا ہے۔ بعض وکیلوں اور ججوں کو ان کے سخت الفاظ پسند نہیں آئیں گے۔ لیکن انصاف کی عدم فراہمی سے لوگ عدالتوں اور وکیلوں سے مایوس ہو جاتے ہیں۔ عدالتوں اور وکیلوں کی عزت اور توقیر جاتی رہتی ہے، جو جج اور وکیل آج پیشہ ورانہ بددیانتی کرتے ہیں، وہ وکیلوں کی اگلی نسلوں کا مستقبل تباہ کر رہے ہیں۔ مایوسی پھیلتی ہے تو لوگوں کے اخلاق اور کردار بھی تباہ ہو جاتے ہیں۔ راقم نے غیر ممالک میں مقیم کئی پاکستانیوں سے پوچھا کہ اگر آپ کا جھگڑا ہوجائے تو کیا آپ کو ان ممالک کی عدالتوں پر اعتبار ہوتا ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ سو فیصد۔ عوام کا عدالتوں کے انصاف سے اعتماد اٹھ جانا ہماری بڑی بدنصیبی ہے۔ ایسی عدالتی اصلاحات ہونی چاہئیں اور ہوتی رہنی چاہئیں کہ سب لوگوں کو انصاف مل سکے۔ انصاف فراہم کرنے والے ادارے، پولیس، جج، وکیل اور عدالتوں میں کام کرنے والا عملہ سب عوام کو انصاف کی فراہمی کے ذمہ دار ہیں۔ اپنی جیب بھرنے کی خاطر انصاف کا قتل ظلم عظیم ہے اور اس ظلم کا نتیجہ معاشرے کی تباہی اور بربادی کی شکل میں نکلتا ہے۔
خوشی اور اطمینان کی بات یہ ہے کہ ہماری اعلیٰ عدالتیں اور ان کے جج صاحبان، پیشہ ورانہ مہارت، انصاف سے محبت اور خدا کا خوف رکھنے والوں پر مشتمل ہیں۔ ہمیں ابھی تک یقین ہے کہ ایک دن عام پاکستانی بھی انصاف سے فیضیاب ہو سکے گا۔ وہ جو شاعر کا خواب ہے کہ ارض وطن! تیری بہاروں کو اندیشہ زوال نہ ہو۔ اس خواب کی تعبیر اس وقت ملے گی جب ہر شہری کو انصاف ملنے کا یقین ہو جائے۔