مشن فیلڈ

پی ٹی آئی، ایم کیو ایم اور سندھ کے چند سیاسی یتیم وڈیرے اپنے ناکام مشن کے زخم چاٹ رہے ہیں۔ سندھ حکومت کو گرانے اور اپنی حکومت بنانے کا منصوبہ ایک ایسا ایڈونچر ثابت ہوا ہے، جس نے پیپلز پارٹی کو پہلے سے زیادہ مضبوط بنا دیا ہے۔ اس ناکام مشن کے باعث ایک طرف پیپلز پارٹی کی صفوں میں موجود باغی ممبران بے نقاب ہوئے ہیں اور دوسری طرف تحریک انصاف کی اقتداری ہوس کھل کر سامنے آگئی ہے۔ اب پیپلز پارٹی کی قیادت کو موقع مل گیا ہے، وہ ایک طرف اپنے باغیوں کی سرزنش کرے اور دوسری طرف اپنی مظلومیت کا راگ الاپے۔ جب کہ اس مہم جو کارروائی کے باعث تحریک انصاف پارلیمانی سیاست کے شرمندہ کٹہرے میں کھڑے ہونے کے لیے مجبور ہو چکی ہے۔ اب اگر قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن اپنے اتحادیوں کے ساتھ وفاقی حکومت کے خلاف کوئی چال چلتی ہیں تو اس پر عمران حکومت انہیں روکنے یا ٹوکنے کا سیاسی حق کھو چکی ہے۔
کامیابی کے وارث بہت ہوتے ہیں، مگر ناکامی اس ناجائز بچے کی مانند ہوتی ہے، جس کو کوئی گلے نہیں لگاتا۔ مگر مذکورہ ناکامی سے تحریک انصاف اپنا دامن نہیں بچا سکتی۔ سندھ حکومت کے خلاف یہ ناکام کارروائی تحریک انصاف کے نام نہاد سفید دامن پہ لگنے والا وہ داغ ہے، جس کو مٹانے کے لیے تحریک انصاف کو کافی وقت درکار ہوگا۔ تحریک انصاف نے اپنی ناکام چال سے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ وہ عملی سیاست کی عقل نہیں رکھتی۔ اگر تحریک انصاف میں ذرا برابر بھی سیاسی سمجھ ہوتی تو وہ سندھ میں اقتدار حاصل کرنے کے سلسلے میں عجلت کا مظاہرہ نہ کرتی۔ وہ انتظار کرتی۔ سیاست میں انتظار کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔
کہتے ہیں کہ ایک شخص گوتم بدھ کے پاس آیا۔ گوتم بدھ نے اس شخص سے پوچھا کہ تم کیا چاہتے ہو؟ اس شخص نے جواب دیا کہ ’’مجھے گوتم بدھ بننا ہے۔ کیا تم اس سلسلے میں میری مدد کر سکتے ہو؟‘‘ بدھ نے کہا کہ ’’بالکل۔ مگر مجھے یہ بتاؤ کہ تمہیں کیا آتا ہے؟ میں تمہاری تعلیم و تربیت کہاں سے شروع کروں؟‘‘ اس شخص نے گوتم بدھ سے کہا کہ ’’مجھے صرف دو باتیں آتی ہیں۔ ایک بھوک برداشت کرنا اور دوسرا انتظار کرنا۔‘‘ کہتے ہیں کہ یہ بات سن کر بدھ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کا کنول کھل اٹھا اور اس نے کہا کہ ’’آدھے گوتم بدھ تو تم پہلے سے ہو۔ اگر تم بھوک کو برداشت کر سکتے ہو اور تمہیں انتظار کرنا آتا ہے تو پھر مکمل بدھ بننے کے لیے تمہیں زیادہ محنت کی ضرورت نہیں پڑے گی۔‘‘
تحریک انصاف میں یہ دونوں باتیں نہیں ہیں۔ نہ اس کو بھوک برداشت کرنا آتا ہے اور نہ وہ انتظار کر سکتی ہے۔ تحریک انصاف ایک ضدی بچے جیسی جماعت ہے۔ ایک ایسا بچہ، جس کے لیے ایک قدیم جاپانی ہائکو اس طرح لکھا گیا تھا:
’’سپاہی کے بغل میںگمشدہ بچہمٹھائی کی دکان کی طرفاشارہ کر رہا ہے‘‘
تحریک انصاف ’’سپاہی‘‘ کی گود میں گمشدہ بچہ ہے!!
اگر تحریک انصاف میں تل کے دانے جتنی عقل بھی ہوتی تو وہ سندھ میں ایسی مہم جو حرکت نہ کرتی، جو اس نے کی۔
سندھ میں اس من چلے اور بگڑے بچے نے جو کچھ کیا، اب اس کا گند بھی شاید اس سپاہی کو صاف کرنا پڑے گا، جو سوچ رہا ہے ’’تجربات… کس قدر تلخ تجربات…!!‘‘
اگر تحریک انصاف میں رتی بھر سیاسی سمجھ ہوتی تو وہ سندھ کو رس گلہ نہ سمجھتی۔ سندھ رس گلہ نہیں، سیاسی انگارہ ہے۔ اگر تحریک انصاف میں سیاسی سمجھ بوجھ ہوتی تو سندھ پر شفقت کا ہاتھ رکھتی۔ زرداری اور فریال کو ٹارگٹ کرتی۔ بلاول اور مراد شاہ پر شفقت کا ہاتھ پھیرتی۔ کراچی سے لے کر کاچھو اور تھر تک عام انسانوں کو حوصلہ دیتی۔ ان کو عزت دیتی۔ ان کو اہمیت دیتی۔ ان سے پوچھتی کہ ’’تم کس حال میں ہو؟‘‘ ان کو بتاتی کہ ’’تم اس حال میں کیوں ہو؟‘‘ مگر تحریک انصاف نے بھی ثابت کیا کہ ’’ان کو سندھ کے عوام کے لیے انصاف نہیںچاہئے۔‘‘ ان کو اپنے لیے ’’اقتدار چاہئے‘‘!
تحریک انصاف نے سندھ کے عوام کو زرداری سے دور کرنے کے بجائے، اس کے قریب کر دیا ہے۔ سندھ کے لوگ سیاسی طور پر عمل میں تیز نہیں، لیکن عقل میں کافی آگے ہیں۔ انہوں نے سوچا کہ ’’جب بات صرف اقتدار کی ہے تو زرداری کو چھوڑ کر عمران کی آغوش میں پناہ لینے کا کیا فائدہ؟‘‘ زرداری کم از کم حیدر آباد اور سکھر میں تو آتا ہے۔ اس کا ایک ایسا نیٹ ورک تو ہے، جو تھانے پر فون کرتا ہے۔ جو لفافے میں کچھ دیتا ہے۔ عمران تو اسلام آباد میں بیٹھا ہوا خان ہے۔ اس سے ملنے
کے لیے مٹھی اور کندھ کوٹ کا عام آدمی کہاں جائے گا؟ وہ شخص جس کے پاس کھانے کو روٹی نہیں۔ وہ شخص تھر سے اسلام آباد کس طرح جائے گا؟ کس طرح وزیر اعظم سے مل پائے گا؟
بنی گالہ بہت بلند ہے۔ اس کوہ پر چڑھنے کی طاقت سندھ کے ہاری، مزدور اور اس بیروزگار نوجوان میں نہیں، غربت کے باعث جس بھائی کی غیر شادی شدہ بڑی بہن کے بالوں میں بڑھاپے کی چاندی چمک رہی ہے۔
زرداری ایک جھوٹی امید کا نام ہے۔ مگر وہ امید تو ہے۔ عمران خان سندھ کے عوام کے لیے ایسی امید بھی نہیں۔
زرداری دودھ سے بھری بوتل نہیں۔ زرداری ایک سیاسی چوسنی ہے۔ مگر عمران خان وہ نپل بھی نہیں، جو ایک بھوکے بچے کو، جھوٹا ہی سہی، مگر ایک سہارا تو دیتی ہے۔
عمران خان کی قیادت اور سندھ میں اس کی سیاسی ٹیم نے جو کچھ بھی کیا، اچھا نہیں کیا!
عمران خان نے سندھ کو ابھی تک نہیں سمجھا۔ عمران خان نے سندھ کی یاترا کی ہے۔ اس سفر میں وہ وڈیروں اور سندھ کے چمکتی دمکتی ہوئی اپر مڈل کلاس سے تو ملا ہے، لیکن وہ ان سے نہیں ملا جو عام لوگ ہیں۔ جو حقیقی سندھ ہیں۔
عمران خان سندھ کی جس کلاس سے آشنا ہے، وہ سندھی میں بات کرتی ہے، ٹوپی بھی پہنتی ہے اور آنے والے مہمان کے شانوں پر اجرک بھی رکھتی ہے، مگر وہ کلاس سندھی میں محسوس نہیں کرتی۔ سندھ ہر مظلوم کی مانند ایک خیال اور ایک سوچ بھی نہیں۔ سندھ صرف
ایک احساس ہے۔ خالی آنکھوں، سوکھے ہونٹوں، میلے پیروں اور خشک بالوں کے ساتھ ایک پیر کے مزار پر دھمال ڈالنے والا احساس!
اس احساس سے کھیلنے کا فن سندھ کے ان وڈیروں کو آتا ہے، جن کا سیاسی سردار آصف زرداری ہے۔ آصف زرداری کو بھی معلوم ہے کہ سندھ کے لوگ اس سے محبت نہیں کرتے۔ مگر آصف زرداری نے عیاری کے ساتھ سندھ میں سیاسی نعم البدل پیدا ہونے نہیں دیا۔ آصف زرداری کی سیاسی مکاری کے بارے میں سارے سندھ کو معلوم ہے، مگر سندھ کے پاس سیاست کے اس کالے جادو کا کوئی توڑ نہیں، جس نے سندھ کو جکڑ رکھا ہے۔
گزرتا ہوا وقت بہتے ہوئے دریا کی طرح ہوتا ہے۔ اس دریا کی ایک لہر لیفٹ کو اپنے ساتھ لے گئی اور دوسری لہر سندھی قوم پرستی کے شاہ لطیف کے کردار ’’سوہنی‘‘ کا عکس بن گئی۔ سندھ میں ایک حد تک کوشش ہوئی کہ لکھے پڑھے مڈل کلاس والوں کا مناسب جمہوری پلیٹ فارم تشکیل دیا جائے، مگر اس کوشش کو بھی موقع پرستی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ آدرش کے چاند کو پانے کی تمنا نے سندھ کے سیاسی چکوروں کو مایوسی کی اندھیری راتوں میں بھٹکا دیا۔ سندھ کے معاشرے میں موجود سیاسی مایوسی کو آصف علی زرداری نے اپنے مفاد میں خوب استعمال کیا۔ جس طرح سندھ کے سماج کی نبض پر وڈیرے کی پکڑ بہت مضبوط ہے، اسی طرح سندھ کی سیاست کو آصف زرداری نے معاشی مفاد سے مشروط کرکے ایسا ماحول پیدا کیا ہے، جس کو توڑنے کے لیے طاقت کی ضرورت ہے۔ وہ طاقت تحریک انصاف کے ان افراد میں نہیں، جو سندھی بولتے ہیں۔ کراچی میں تحریک انصاف کی کیفیت وہ نہیں، جو اندرون سندھ میں ہے۔ اندرون سندھ میں اپنی کچھ کمزوری پر شرافت کا پردہ ڈال کر چلنے والے وڈیرے آصف زرداری جیسے آفت وڈیرے کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ سندھ میں آصف زرداری کو سیاسی شکست صرف عوامی طاقت سے دی جا سکتی ہے ۔ وہ طاقت تحریک انصاف میں نہیں ہے۔
تحریک انصاف کے پاس کے پی کے اور پنجاب میں کیا ہے؟ وہ کس قدر پختہ اور پائیدار ہے؟ ان سوالات کے جوابات سندھ میں تحریک انصاف کی سیاسی غربت کو ختم نہیں کر سکتے۔ سندھ میں تحریک انصاف کے ساتھ وہ وڈیرے جڑے ہیں، جو کوشش کے باوجود پیپلز پارٹی میں ایڈجسٹ نہ ہو سکے۔ سندھ میں کمزور فیوڈل کلاس آصف زرداری کو زیر نہیں کر سکتی۔ اگر مقابلہ تو وڈیروں کے درمیان ہے تو پھر وہ وڈیرہ جیت جائے گا، جو زیادہ طاقتور ہوگا۔ آصف زرداری کے پاس تجربہ کار اور بہت تیز وڈیروں کی ایسی فوج ہے، جس کو شکست دینا پی ٹی آئی کے بس کی بات نہیں۔ اس لیے اس مشن کو فیل ہونا ہی تھا، جو بغیر کسی تیاری اور منصوبہ بندی کے شروع کیا گیا۔
تحریک انصاف میں نہ تجربہ ہے نہ تدبر۔ نہ سمجھ اور نہ صبر! تحریک انصاف نے زرداری کی سندھ سرکار پر جو ناکام حملہ کیا ہے، اس کا نقصان کون بھرے گا؟
اس ’’ناکام مشن‘‘ کی قیمت صرف اور صرف سندھ کے وہ مظلوم عوام ادا کریں گے، جو تھر، کاچھو اور کوہستان میں بھوکے اور پیاسے ہیں۔
ان عوام کے درد کو کم کرنے کے بجائے اپنی اقتداری ہوس کی خاطر عمران خان نے اپنے نااہل سیاسی کمانڈوز کے سپرد جو مشن کیا، اس مشن کا حال پورے ملک کے سامنے ہے۔
اس غیر منظم اور منصوبہ بندی سے عاری مشن کا حال یہی ہونا تھا۔
وزیر اعظم کو یہ میسج سن کر غصہ ہونے کا کوئی حق نہیں کہ ’’سر! مشن فیلڈ‘‘

Comments (0)
Add Comment