مودی کی شخصیت کا لازمی جز

پاک فوج کے جوانوں نے بھارت کا جاسوس ڈرون مار گرایا، جبکہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے آزاد کشمیر میں سرجیکل اسٹرائیکس کی ڈینگیں مارنی شروع کر دی ہیں۔ مودی کی ڈینگوں کی بازگشت کے دوران پاکستان نے آزاد کشمیر میں کنٹرول لائن کے باغ سیکٹر میں بھارتی فوج کے بغیر پائلٹ جاسوس ڈرون کواڈکاپٹر مار گرایا گیا، جس نے بھارت کے بے بنیاد دعوئوں کی قلعی کھولنے کے علاوہ اس کی دفاعی صلاحیتوں کا بھی بھانڈا پھوڑ دیا۔ پاکستان بڑے بول بولتا ہے نہ اوٹ پٹانگ دعوے کرتا ہے۔ اس کے فوجی نہایت اخلاص، دیانت داری اور لگن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے وطن کی سرحدوں کو دشمن کے جارحانہ عزائم سے بچانے کے لیے ہمہ وقت چوکس و بیدار رہتے ہیں۔ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کا کہنا ہے کہ دشمن کے کسی بھی کواڈکاپٹر یا ڈرون کو کنٹرول لائن پار نہیں کرنے دی جائے گی۔ بھارت میں انتخابات قریب آنے کی وجہ سے وزیراعظم نریندر مودی اپنے عوام کے سامنے شیخیاں بگھار رہے ہیں کہ بھارتی افواج پاکستان کی سرحدوں کے اندر گھس کر اس کے خلاف کارروائی کرنے کا عزم اور صلاحیت رکھتی ہیں، لیکن پاکستان کے فوجی جوانوں نے بھارتی ڈرون مار کر ثابت کر دیا ہے کہ ملک کے اندر بھارتی فوجیوں کا آنا تو درکنار، ان کا ڈرون بھی داخل نہیں ہو سکتا اور اگر کسی طرح وہ آجائے تو اس کا بچ کر جانا نہایت مشکل ہے۔ بھارتی فوج کی بہادری اس حد تک دکھائی دیتی ہے کہ وہ لائن آف کنٹرول پر بلاجواز فائرنگ اور گولا باری کر کے نہتے شہریوں کو ہلاک کر سکتی ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ پیر کو اٹھ مقام اور شاہ کوٹ سیکٹروں میں پیش آیا، جہاں بھارتی گولا باری سے ایک خاتون شہید اور سات شہری زخمی ہوئے۔ یاد رہے کہ 2018ء میں بھارت سیز فائر (جنگ بندی) کی دو ہزار تین سو پچاس سے زائد خلاف ورزیاں کر چکا ہے، جس کے نتیجے میں چھتیس بے گناہ شہری شہید اور ایک سو بیالیس زخمی ہوئے۔ شہری آبادی پر بھارتی فوجیوں کی فائرنگ ان کی بزدلی کا مظہر، عالمی قوانین کی خلاف ورزی اور علاقائی امن و استحکام کے لیے خطرہ ہے۔ ادھر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے خیال میں یہ سوچنا غلط ہے کہ ایک اور جنگ سے پاکستان سدھر جائے گا، اسے سدھارنے میں ابھی وقت لگے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ 2016ء میں اڑی فوجی کیمپ پر پاکستانی حملے کے بعد بھارتی فوج انتقام لینا چاہتی تھی، لیکن بھارتی فوج سے زیادہ آگ مجھے لگی ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ آج تک کسی بھی بھارتی وزیراعظم نے پاکستان کے ساتھ مذاکرات سے انکار نہیں کیا، لیکن ہم بموں کی گونج میں بات نہیں کر سکتے۔ ہم پاکستان کے ساتھ ہر موضوع پر بات کرنے کے لیے تیار ہیں، لیکن ایسا نہیں ہو سکتا کہ گفت و شنید میں مطالبہ کیا جائے کہ اس معاملے پر بات چیت کریں گے اور فلاں موضوع پر نہیں، پاکستان اور بھارت کے تعلقات کی ستر سالہ تاریخ اس حقیقت کی گواہی دیتی ہے کہ بھارت کی انتہا پسند ہندو قیادت پاکستان کو دھمکیاں دے سکتی ہے، لائن آف کنٹرول پر اشتعال انگیزی کر سکتی ہے اور مقبوضہ کشمیر سمیت پورے بھارت میں مسلمانوں، سکھوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف فسادات کرا سکتی ہے، لیکن وہ اپنے اور خطے کے حق میں کوئی مثبت قدم اٹھانے کے لیے کبھی آمادہ نہیں ہوتی۔ اس وقت جبکہ پاکستان بھی ایٹمی صلاحیت کا حامل ہے۔ اس لئے بھارت براہ راست جنگ کی بات کرنے کا حوصلہ نہیں کر سکتا۔ سازشیں اور دہشت گردوں کی سرپرستی و تربیت دو ایسے حربے ہیں، جن میں بھارتی رہنما، فوج اور سارے انتہا پسند حلقے طاق و مشاق ہیں۔ پاکستان کو سدھارنے کی بات کرنے والے نریندر مودی بذات خود اس امر کے محتاج ہیں کہ ان کے ذہنی و اخلاقی سدھار کا اہتمام کیا جائے۔ اڑی کیمپ پر حملے میں کوئی پاکستانی ملوث تھا یا نہیں، اس سے قطع نظر، بھارتی فوج سے زیادہ وزیر اعظم نریندر مودی کو آگ لگنا، ان کے ذہنی عدم توازن کو ظاہر کرتا ہے۔ سیاستدانوں کا کام جلتی آگ کو بجھانا ہوتا ہے، اس پر تیل ڈال کر مزید بھڑکانا نہیں۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی شخصیت کا بنیادی جز حسد کرنا، جلنا اور کڑھنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی وزارت عظمیٰ کے دور میں بھارت کے مظلوم عوام کے لیے کوئی قابل ذکر کام کر سکے ہیں، نہ خطے میں قیام امن کی کوششوں میں ان کا کوئی کردار نظر آتا ہے۔ ان کا یہ بیان سراسر جھوٹ ہے کہ آج تک کسی بھارتی وزیر اعظم نے پاکستان کے ساتھ مذاکرات سے انکار نہیں کیا۔ بنیادی بات ہے کہ نریندر مودی جیسے کٹر اور جنونی رہنمائوں نے پاکستان کے قیام کو اول روز سے تسلیم ہی نہیں کیا۔ عالمی برادری کے دبائو پر اور اسے وقتی طور پر مطمئن کرنے کے لیے بھارت پاکستان کے ساتھ کبھی مذاکرات پر آمادہ ہو بھی جاتا ہے تو جلد ہی مختلف حیلے بہانے کر کے گفت و شنید کو ٹالا جاتا یا عین مذاکرات کے دوران راہ فرار اختیار کر جاتا ہے۔ بھارتی رہنمائوں کی کہہ مکرنیوں سے گزشتہ ستر سال کی تاریخ بھری پڑی ہے۔ وہ صرف ڈرون حملوں جیسی بچگانہ اور بزدلانہ کارروائیاں کر سکتے ہیں، بامقصد مذاکرات اور پاکستان کے ساتھ کھلی محاذ آرائی سے گریز ان کی سیاسی اور دفاعی شکست کا پیشگی اظہار ہے۔
چین سے گرم جوشی میں کمی؟
مسلمان ملکوں سے ضرورت کے مطابق قرضوں کے حصول میں ناکام تحریک انصاف کی حکومت کے چین جیسے آزمودہ دوست کے ساتھ دو ارب ڈالر قرض کے لیے اب تک مذاکرات جاری ہیں۔ کہا جاتا ہے اصولی طور پر چین کی جانب سے امدادی پیکیج کا فیصلہ کیا جا چکا تھا، لیکن دو چیزیں غور طلب تھیں۔ ایک یہ کہ اس کا حجم کیا ہوگا اور دوم یہ کہ پیکیج پاکستان کو فراہم کرنے کا طریق کار کیا ہوگا؟ ایک برطانوی جریدے نے اپنی حالیہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ اسلام آباد میں حکومتی ذرائع کے مطابق دو ارب ڈالر قرضہ حاصل کرنے کے لیے چین سے مذاکرات کا سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ پھر یہ کہ قرضہ امدادی نہیں، کمرشل ہوگا، جس پر پاکستان کو آٹھ فیصد سود ادا کرنا ہوگا۔ چین سے قرضے کے حصول میں تاخیر زیادہ شرح سود اور مذاکرات کا ہنوز جاری رہنا ان شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے کہ موجودہ حکومت کے دور میں چین سے تعلقات میں ماضی جیسی گرمجوشی نہیں پائی جاتی۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ سابقہ دور حکومت میں عمران خان نے چار ماہ کے طویل دھرنے سے چینی صدر کا دورۂ پاکستان ملتوی کرایا تھا، جس کے باعث دونوں ملکوں کو سی پیک کے حوالے سے زبردست نقصان اٹھانا پڑا۔

Comments (0)
Add Comment