’’بچے ہمارے عہد کے…‘‘

سیلانی چھک چھک کرتی ریل گاڑی کی کھڑکی سے باہر کے دوڑتے مناظر بھی دیکھ رہا تھا اور ان نوجوانوں کی بحث بھی دلچسپی سے سن رہا تھا، وہ کسی کالج کے طالب علم تھے، جو کوہاٹ ایکسپریس کے چھ نشستوں کے کمپارٹمنٹ میں پھنس پھنسا کر بیٹھے ہوئے تھے۔ کمپارٹمنٹ کی ایک بنچ پر تین مسافر بیٹھ سکتے ہیں، لیکن جگہ کی کمی کی وجہ سے وہ چار چار بیٹھے ہوئے تھے اور برتھ پر بھی دو براجمان تھے، جو وہیں سے جوشیلے انداز میں بحث میں حصہ لے رہے تھے۔ اس وقت یہ نوجوان طالب علم جہاد کشمیر کے حوالے سے الجھے ہوئے تھے۔ ان میں سے کچھ کا مؤقف تھا کہ کشمیر کی عسکری تحریک معمولی تعلیم یافتہ جذباتی نوجوانوں کا ایڈونچر ہے، یہ نوجوان آسانی سے جہادی تنظیموں کے جوشیلے مبلغوں کے بہکاوے میں آ کر بندوقیں اٹھا لیتے ہیں، یہ مدارس کی مخصوص فضا کا کمال ہے۔ اس الزام پر سیلانی سے رہا نہیں گیا، اس نے مسکراتے ہوئے بحث میں حصہ لینے کی اجازت چاہی۔
’’مجھے کچھ عرض کرنے کی اجازت ہے؟‘‘
’’جی سر ضرور ضرور، یہ اوپن فورم ہے، جو کوہاٹ تک چلے گا۔‘‘ لمبے بالوں والے نوجوان نے مسکراتے ہوئے جواب دیا اور سب نوجوان سیلانی کی جانب متوجہ ہوگئے۔
’’بھئی! اس دعوے میں وزن ہوتا اگر مجھے ڈاکٹر اعجاز خان، سبزار احمد صوفی، عبدالمنان وانی اور اسحاق حسین ڈار کا علم نہ ہوتا، ان میں ڈاکٹر اعجاز پی ایچ ڈی عربی، سبزار احمد ایم ایس سی باٹنی، عبد المنان وانی پی ایچ ڈی جیالوجی اور اسحاق حسین ڈار ایم اے انگلش ہیں۔ ایک دو نام اور بھی یاد آرہے ہیں، ہاں! عمر احسن ایم ایس سی فزکس اور رفیع بھٹ پی ایچ ڈی سوشیالوجی ہیں۔ یہ وہ تعلیم یافتہ نوجوان ہیں، جنہوں نے کشمیر کی آزادی کے لئے بندوق اٹھا رکھی ہے۔‘‘ سیلانی کی بات پر کمپارٹمنٹ میں کچھ دیر کے لئے خاموشی چھا گئی۔
بالآخر ایک نے پوچھا ’’سر! آپ کیا کرتے ہیں، آپ کشمیری تو نہیں لگتے؟‘‘
’’نہیں، میں کشمیری تو نہیں ہوں، لیکن ان کے ساتھ ہوں، ویسے میں صحافی ہوں۔‘‘
’’اچھا، اچھا…‘‘ جہاد کشمیر کے حامی نوجوانوں کی آنکھوں میں چمک آگئی، جبکہ مخالفین ابھی بھی اپنے مؤقف سے دست بردار ہونے پر راضی نہ تھے۔ کہنے لگے ’’تین چار ناموں سے کیا فرق پڑتا ہے، اکثریت تو ان ہی جذباتی نوجوانوں کی ہے۔‘‘
’’تین چار نام نہیں ہیں، لمبی فہرست ہے، آپ سوشل میڈیا پر کشمیری حریت پسندوں کے پیجز پر تو جائیں، کلک تو کریں، بہت کچھ نیا پتہ چلے گا۔‘‘ سیلانی نے مسکرا کر جواب دیا۔
مجلس میں بحث خوب چل رہی تھی، لیکن اس سے بھی خوب کوہاٹ ایکسپریس تھی۔ یہ سیلانی کی زندگی کا پہلا موقع تھا جب وہ راولپنڈی سے کوہاٹ چھک چھک کرتی ریل گاڑی میں سفر کر رہا تھا۔ اس کے عزیز و اقارب اکثر اسی ریل گاڑی سے راولپنڈی آتے جاتے ہیں اور بڑی تعریف کرتے ہیں کہ صاف ستھری بوگیاں ہیں، سفر آرام دہ ہے اور کرایہ بھی کم ہے۔ سیلانی کی خالہ زاد بہن کی شادی تھی۔ خالہ نے سختی سے کوہاٹ پہنچنے کی تاکید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب کوئی بہانہ نہیں چلے گا۔ سیلانی نے رخت سفر باندھ لیا اور بیگم بچوں کو ساتھ لے کر اپنے ’’باکار‘‘ دوست مدثر یاسین کا انتظار کرنے لگا۔ اس نے مدثر کو ریلوے اسٹیشن چھوڑنے کے لئے کہہ رکھا تھا۔ مدثر وقت پر آگیا، لیکن انہیں گھر سے نکلتے نکلتے ڈھائی بج گئے، جبکہ ریل گاڑی کا وقت تین بجے کا تھا۔ وقت کم مقابلہ سخت والی کیفیت تھی۔ مدثر نے کسی نہ کسی طرح اسٹیشن پہنچا دیا۔ بھاگم بھاگ ٹکٹ لیا اور اسے الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا، اس میں کہیں بوگی نمبر درج تھا نہ سیٹ نمبر۔ سیلانی مدد کے لئے سامنے کھڑے ٹی ٹی بابو کے پاس پہنچ گیا اور اپنی الجھن سامنے رکھ دی۔ اس نے کرک کے خٹک لہجے میں کہا ’’بوگی موگی کوچھ نئیں اوتا، اوپن میرٹ ہے، جہاں دل مانتا بیٹھ جاؤ، شابا جلدی کرو، گاڑی چلنے والا ہے۔‘‘
اتنے میں انجن نے بھی سیٹی بجا دی۔ سیلانی کو جو ڈبہ سامنے نظر آیا، اس نے اسی میں بیگم اور بچوں کو سوار کرا دیا۔ اب اندر پہنچے تو ڈبہ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، اس نے ایک طرف بیگ رکھ دیا اور بیگم کی طنزیہ نظریں نظر انداز کرکے ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ کوہاٹ ایکسپریس نے چھک چھک کرتے پلیٹ فارم کو چھوڑا اور مردم خیز علاقے کوہاٹ کی جانب چل پڑی۔ گاڑی چلی تو کچھ دیر میں سب مسافر ایڈجسٹ ہونے لگے۔ سیلانی نے بیگ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بیگم سے بیٹھنے کے لئے کہا۔ وہ بیچاری منہ بنا کر بیٹھنے کو تھی کہ سامنے کمپارٹمنٹ والوں کو خیال آگیا۔ وہاں بیٹھی ایک خاتون نے جگہ بنائی اور بیگم کو ساتھ بٹھا لیا۔ شیث خان بیگ پر بیٹھ گیا۔ سیلانی نے ڈبے کا جائزہ لیا۔ حیرت انگیز طور پر کوہاٹ ایکسپریس صاف ستھری اور اچھی حالت میں تھی۔ تمام کھڑکیوں کے شیشے سلامت تھے، جس کی وجہ سے سرد ہوائوں کو اندر داخلے کی راہ نہیں مل رہی تھی۔ ریل گاڑی گولڑہ شریف کے اسٹیشن پر رکی تو سیلانی کے لئے بھی جگہ بن گئی۔ کالج کے لڑکوں نے سیلانی کو ساتھ بٹھا لیا تھا۔
ریل گاڑی چھک چھک چھکاچھک آگے بڑھتی جا رہی تھی۔ یہ ریل گاڑی چھک چھک کرتی گولڑہ شریف، بسال، فتح جھنگ، جنڈ سے ہوتی ہوئی شام سات بجے کوہاٹ پہنچتی ہے۔ بسوں ویگنوں کی نسبت کرایہ بھی کم ہے، اس لئے خوب رش ہوتا ہے۔ سیٹ لینے کے لئے اچھی خاصی دوڑ لگانی پڑتی ہے۔ سیلانی کا یہ پہلا تجربہ تھا، اس لئے اس نے دوڑ لگائی نہ سیٹوں پر چادر ٹوپی رکھ کر جملہ حقوق محفوظ کئے۔ خیر نوجوان طالب علموں کے جذبہ خیر سگالی کے تحت وہ ان کے بیٹھ چکا تھا اور طالب علموں کی گفتگو سے محظوظ ہوتے ہوئے کسی کھانے پینے کی چیز والے کا انتظارکر رہا تھا۔ ریل گاڑی پکڑنے کے لئے اسے بھاگم بھاگ گھر سے بنا کھانا کھائے نکلنا پڑا تھا اور اب اسے زوروں کی بھوک لگ رہی تھی اور کوئی چنے، سموسے، بسکٹ والا آکر ہی نہیں دے رہا تھا۔ کم مسافت کی ریل گاڑیوں میں ناشتے، کھانے والے آنا پسند نہیں کرتے۔ اب سیلانی کے پاس اسٹیشن پر ’’حفظان صحت‘‘ کے اصولوں کے عین مطابق تیار کی گئی اشیاء سے بھوک مٹانے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ سیلانی اس کے لئے بھی تیار تھا، لیکن ان چھوٹے اسٹیشنوں کے پلیٹ فارم پر دکانیں نہیں ہوتیں، جہاں ایک ہی گاڑی نے گزرنا ہو اور بمشکل دو منٹ رکنا ہو، وہاں کوئی کیا دکان کھولے گا؟ سیلانی سے خالی پیٹ بحث بھی نہیں ہوتی، اس لئے وہ وہاں چھڑی بحث میں مزید حصہ بھی نہیں لے رہا تھا۔ اب اسے جنڈ ریلوے اسٹیشن کا انتظار تھا۔ جنڈ جنکشن پر ریل گاڑی پانچ منٹ رکتی ہے اور یہاں کے گرما گرم پکوڑے روٹیاں مشہور ہیں۔ پر کیا کیا جائے کہ سیلانی کی قسمت میں یہاں ٹھنڈے ٹھار پکوڑے ہی تھے۔ شام کا وقت تھا، بلا کی سردی تھی، کھولتے تیل کے کڑاھے سے پکوڑے نکالتے ہی ٹھنڈے ہو جاتے اور اس پر بھی رش لگا ہوا تھا۔ سیلانی نے پچاس روپے کے پکوڑے لئے اور ادائیگی کے لئے جیکٹ کی نصف درجن جیبیں ٹٹولنے لگا۔ بٹوہ جانے کس جیب میں تھا، وہ تو نہ ملا، البتہ سو روپے کا سرخ نوٹ قمیض کی جیب میں مل گیا، جسے سیلانی نے دکاندار کی جانب بڑھا دیا۔ اسی وقت ریل کے بارعب انجن نے سیٹی بجا دی۔ آخری ڈبے میں کھڑے ٹی ٹی بابو نے ہری جھنڈی لہرا کر انجن ڈرائیور کو روانگی کا سگنل دے دیا۔ ٹنوں وزنی ریل گاڑی سرکنا شروع ہو گئی۔ یہ دیکھ کر سیلانی نے دکاندار کے ہاتھ پر جھپٹا مار کر بقایا رقم لی اور ریل کی طرف بھاگا۔ ریل گاڑی آہستہ آہستہ رفتار پکڑ رہی تھی۔ سیلانی نے اپنی رفتار بڑھائی اور کوہاٹ ایکسپریس کے ساتھ بھاگتے بھاگتے بوگی کے دروازے کے دائیں بائیں لٹکے ڈنڈے پکڑ کر پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ خود کو اچھال کر اندر پہنچا دیا۔ اب وہ پھولی ہوئی سانسیں درست کر رہا تھا، دو تین منٹ میں سانسیں برابر ہوئیں، جس کے بعد سیلانی ٹھنڈے ٹھار پکوڑوں سے بھوک مٹانے لگا۔ سامنے ہی دو پیارے سے گول مٹول بچے کھڑے ہوئے اسے دیکھ رہے تھے۔ ان کی نیلی آنکھیں ان کی رگوں میں آفریدی خون کا پتہ دے رہی تھیں۔ بڑے پیارے بچے تھے۔ پانچ چھ برس کے ہوں گے۔ سیلانی کی ان سے آنکھیں ملیں تو اس نے مسکراتے ہوئے بچوں کے سامنے پکوڑوں کا لفافہ کردیا۔ ایک نے پکوڑے لینے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو دوسرے نے فوراً اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور اسے پشتو میں سمجھانے لگا کہ اجنبیوں سے کوئی چیز نہیں لیتے۔ سیلانی نے مسکراتے ہوئے کہا ’’لے لو بیٹا کوئی بات نہیں، پکوڑے بہت سارے ہیں، میں اتنے نہیں کھا سکتا۔‘‘
بڑے والے لڑکے نے انکار میں سر ہلا دیا۔ سیلانی نے کاندھے اچکائے اور ان سے باتیں کرنے لگا۔ چھوٹا والا شرارتی اور بااعتماد تھا اور سیلانی سے خوب باتیں کررہا تھا۔ بڑا والا اسے منع کر رہا تھا اور ہاتھ پکڑ کر واپس لے جانے کے لئے اصرار کر رہا تھا۔ سیلانی نے چھوٹے والے کے سامنے پھر لفافہ کر دیا، جسے اس نے لے لیا۔ اتنے میں وہاں سے ریلوے پولیس کے دو تنومند سپاہی گزرنے لگے۔ بڑے لڑکے نے انہیں روک لیا اور سیلانی کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگا ’’چاچا یہ ہمیں ورغلا رہا ہے، اس نے میرے بھائی کو زبردستی پکوڑے بھی کھلائے ہیں۔‘‘
’’ارے، ارے… کیا کہہ رہے ہو بیٹا، مم، مم‘‘ سیلانی گڑبڑا گیا۔ سپاہیوں کی مشکوک نظروں نے سیلانی کو حصار میں لے لیا۔ ایک نے سیلانی کو گھورتے ہوئے کہا ’’یہ بچہ کیا کہہ رہا ہے؟‘‘
’’ایسا کچھ بھی نہیں ہے، میں پکوڑے کھا رہا تھا، ان بچوں کو بھی پوچھ لیا۔‘‘
’’شناختی کارڈ چیک کراؤ۔‘‘ دوسرے نے تحکمانہ لہجے میں کہا۔ سیلانی نے جیب میں بٹوہ نکالنا چاہا تو بٹوہ ندارد۔ دوسری جیب چیک کی تو وہاں بھی کچھ نہ تھا۔ ادھر سپاہیوں کی نظریں سیلانی پر گڑی ہوئی تھیں۔
’’وہ میرا خیال ہے کہ بٹوہ مسز کے پاس رہ گیا۔‘‘
’’اور تمہارا بیوی گھر پر رہ گیا ہے۔‘‘ سپاہی کے لہجے میں گہرا طنز تھا۔ وہ سیلانی سے بات کرتے ہوئے غیر محسوس طریقے سے دروازے کی جانب یوں کھڑا ہو گیا، جیسے سیلانی نے چلتی ریل گاڑی سے چھلانگ لگانے کا ارادہ کر لیا ہو۔ ’’دیکھیں ایسا کچھ نہیں ہے، میں اپنی فیملی کے ساتھ کوہاٹ جا رہا ہوں، وہ بھی اسی ٹرین میں ہیں۔‘‘
’’اچھا، کدھر ہے؟‘‘ اب سیلانی انہیں کیا بتاتا کہ مسز کہاں ہے، وہ تو جانے کون سی بوگی میں تھی۔ سیلانی کی پریشانی نے ان کا شک مزید پختہ کر دیا۔ انہوں نے سیلانی کو ایک جانب کھڑا ہونے کو کہا ’’دیکھیں آپ غلطی پر ہیں، ایسا کچھ نہیں ہے، جو آپ سوچ رہے ہیں، میں ایک باعزت شہری اور صحافی ہوں۔‘‘
سیلانی نے جھنجھلا کر تعارف کرایا تو وہ ذرا چونکے۔ انہوں نے سیلانی سے پریس کارڈ مانگا اور پریس کارڈ بٹوے میں تھا اور بٹوہ یقینی طور پر بیگم صاحبہ کے پاس تھا۔ سیلانی عجیب مشکل میں پڑ گیا۔ وہاں لوگوں کا رش لگ گیا۔ لوگ ایک دوسرے کے کاندھوں پر یوں مڈیاں ٹکائے کر سیلانی کو تکنے لگے جیسے وہ کوئی دہشت گرد ہو۔ مجمعے میں سے طرح طرح آوازیں آرہی تھیں۔ ایک کی آواز آئی شکل سے تو پروفیسر لگتا ہے، دوسرے نے کہا بال دیکھو جیسے فوجی ہو اور کام دیکھو… سیلانی بس دانت پیستا رہ گیا۔ اس نے سپاہیوں سے ذرا سختی سے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔
’’یہ کیا تماشہ لگا لیا ہے آپ نے، میں نے کہہ دیا کہ میں ایک باعزت صحافی ہوں اور آپ میری کوئی بات سننے کو تیار نہیں، بچے نے ایک بات کہہ دی اور آپ نے یقین کرلیا۔‘‘
’’صحافی صیب! کوئی کارڈ شارڈ دکھاؤ اور اپنا جان چھڑاؤ، ام ایسے تم کو نہیں چھوڑے گا‘‘
اف کیا مصیبت ہے۔ سیلانی بڑبڑایا ’’میر اخیال ہے کہ میری فیملی سیکنڈ لاسٹ ڈبے میں ہے۔ آپ ذرا آئیں میرے ساتھ۔‘‘ خدا کا شکر ہے کہ یہ بات ان کی سمجھ میں آگئی۔ وہ سیلانی کو لے کر اس کے ڈبے میں پہنچ گئے۔ سیلانی آگے بڑھا اور طالب علموں کے کمپارٹمنٹ سے گزرنے لگا تو ایک کی آواز نے اسے روک لیا ’’سر! جی یہ بٹوہ آپ کا ہے؟‘‘
سیلانی کی آنکھوں میں چمک اور جان میں جان آگئی۔
اس نے جھپٹ کر بٹوہ لیا، اسے کھولا، شناختی کارڈ نکال کر سپاہیوں کے ہاتھ پر رکھ دیا ’’یہ لیں میرا شناختی کارڈ، یہ لیں سندھ انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کا کارڈ، یہ لیں کراچی پریس کلب کا کارڈ…‘‘ سپاہیوں نے ایک ایک کرکے سارے کارڈز دیکھے اور واپس کرتے ہوئے معذرت خواہانہ انداز میں کہنے لگے ’’سر! سچویشن ایسا تھا کہ آپ پر شک کرنا پڑ گیا، معاف کرنا ہمارا کام ایسا ہے، ہمیں ٹریننگ ہی شک کرنے کا دیا جاتا ہے۔‘‘ انہوں معذرت کرکے پکوڑوں کا لفافہ سیلانی کے ہاتھ میں دے دیا اور آگے بڑھ گئے۔ سیلانی نے ایک طویل سانس لی اور آئندہ کسی سفر میں کسی بچے سے دوستی کی کوشش سے توبہ کرتے ہوئے ہاتھ میں پکڑے پکوڑوں کا لفافہ دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment