ڈاکٹر ضیاألدین خان
dr.ziauddinkhanpk@gmail.com
فرانس کا عظیم شہنشاہ نپولین بونا پارٹ انگریزوں سے آخری لڑائی واٹر لو کے میدانوں میں ہار گیا۔ وہ انگریزوں سے بیس برس تک جنگ کرتا رہا اور اس دوران فرانس کو عظیم طاقت بنا دیا۔ لیکن اپنوں کی ریشہ دوانیوں کے سبب وہ آخری جنگ ہارا اور 31 جولائی 1815ء کو انگریزوں کی قید میں آگیا۔ اس نے رضاکارانہ گرفتاری دی تھی۔ اسے برطانوی بحریہ کے جہاز بیلرو فون پر نظر بند کیا گیا۔ نپولین نے گرفتاری اس لئے دی تھی کہ فرانس کو تقسیم ہونے سے بچایا جا سکے۔ لیکن برطانوی بادشاہ لوئی ہشت دہم اس سے خوفزدہ تھا۔ اس نے نپولین کو جنوبی بحر اوقیانوس کے ایک دور دراز جزیرے سینٹ ہیلینا جلا وطن کرنے کا حکم دیا۔ نپولین کی گرفتاری کے بعد فرانس کے نئے بادشاہ چارلس دہم نے اپنے ایک درباری متھولون کو حکم دیا کہ وہ بیوی سمیت نپولین کے ہمراہ جلا وطن ہو جائے۔ بادشاہ نے اسے خفیہ ہدایات بھی دیں۔ ان ہدایات کی روشنی میں متھولون نے سینٹ ہیلینا پہنچنے کے بعد نپولین کو آہستہ اثر کرنے والا زہر سنکھیا دینا شروع کیا۔ زہر خورانی کے نتیجے میں نپولین 5 مئی 1821ء کو سینٹ ہیلینا کے لانگ وڈ ہائوس میں وفات پا گیا۔ نپولین کو اسی جزیرے میں دفنا دیا گیا۔ لیکن چارلس کو اس کا بھگتان جلد بھگتنا پڑا۔ 1830ء میں اسے معزول کرکے اسی جزیرے سینٹ ہیلینا جلا وطن کر دیا گیا۔ فرانسیسی عوام میں نپولین کی محبت اور فرانس کی عزت ایک ہی شے سمجھی جاتی تھی۔ اس لئے 1840ء میں بادشاہ لوئی نے سینٹ ہیلینا سے نپولین کی لاش پورے عزت و احترام کے ساتھ پیرس منگوائی اور دریائے سین کے کنارے عظمت کے ساتھ دفن کر دی۔ فرانسیسی زندہ قوم تھی۔ اس نے اپنے ہیرو کو غیر ملک کی ملکیت جزیرے پر بے یار و مددگار دفن نہیں رہنے دیا۔ بلکہ پچیس برس بعد ہی اپنی مٹی میں آسودہ خاک کر دیا۔ اب آئیں برصغیر کی طرف۔ دوسری جنگ عظیم کے عروج کے دن تھے۔ انگریز حکومت نے برصغیر سے جبری بھرتی کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ بھرتی ہونے والوں میں تمام مذاہب کے لوگ تھے۔ جنہیں چند ہفتے کی تربیت دے کر میدان جنگ بھیج دیا جاتا تھا۔ ان جوانوں میں سے بعض ایسے تھے جو غلامی کے طوق سے سخت نفرت کرتے تھے۔ وہ کسی غیر مذہب سے تعلق رکھنے والے بیرونی آقا کی جنگ لڑنے پر تیار نہ تھے۔ اس لئے میدان جنگ جاتے تو لڑے بغیر ہتھیار ڈال دیتے۔ جاپانی انہیں قید کرلیتے اور فوجی کیمپوں میں منتقل کر دیتے۔ جب گرفتار ہونے والوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی تو جاپانیوں کو خیال آیا کہ کیوں نہ ان قیدیوں پر مشتمل ایک فوج بنائی جائے۔ جو انگریز سے لڑائی میں مدد کرے۔ یہ تجویز قیدیوں کے افسروں کے آگے رکھی گئی تو انہوں نے صلاح مشورے کے بعد ایک جوابی تجویز جاپانیوں کو پیش کر دی۔ جو یہ تھی کہ ہندوستان کو انگریز کی غلامی سے نجات دلانے کے لئے آزاد ہند عبوری حکومت قائم کی جائے۔ جس کے پرچم تلے آزاد ہند فوج بنائی جائے۔ اس فوج کا مقصد انگریزوں سے لڑ کر ہندوستان کو آزاد کرانا ہو۔ اس آزادی کے حصول میں اگر جاپان مدد کے لئے تیار ہے تو یہ فوج بنائی جا سکتی ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ جاپان اس فوج کو اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق استعمال نہیں کرے گا۔ یہ آزاد ہند حکومت کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ افواج کو کہاں۔ کب۔ کیسے اور کیوں تعینات کرے؟ جاپانی نہ صرف ان معاملات میں دخل نہیں دیں گے۔ بلکہ وہ آزاد ہند حکومت کو بھی آزادانہ کام کرنے دیں گے۔ جنگ کے دبائو سے گھبرائے ہوئے جاپانیوں نے یہ شرائط منظور کرلیں۔ چنانچہ 2 اکتوبر 1943ء کو سنگاپور کے شہر شومان میں آزاد ہند عبوری حکومت قائم ہوگئی۔ جاپانیوں کی قید میں رہنے والے فوجی افسروں کا خیال تھا کہ اس طرح وہ برصغیر کو انگریز کے چنگل سے نکال لیں گے۔ وہ جانتے تھے کہ پہلی جنگ عظیم میں بعض رہنمائوں نے اپنے ملک کو غلامی سے نجات دلانے کے لئے دوسرے ملکوں میں جاکر فوج تیار کی تھی۔ اس سلسلے میں فرانس کے جنرل ڈیگال کا نام سب سے نمایاں تھا۔ فرانس کی شکست کے بعد جنرل ڈیگال انگلستان چلے گئے اور ایک بڑی فوج تیار کی۔ جس نے اتحادیوں کی مدد سے اپنے وطن کو جرمنی کی غلامی سے نجات دلائی۔ فرانس کی طرح یونان۔ پولینڈ۔ چیکو سلواکیہ اور یوگو سلاویہ نے بھی اپنی آزادی کے لئے باہر سے قومی فوجیں تیار کیں۔ یہ تصور ان دنوں مقبول تھا اور اسے آزادی حاصل کرنے کا سب سے کامیاب گر تسلیم کیا جاتا تھا۔ آزاد ہند فوج کے پہلے رہنما سبھاش چندر بوس تھے۔ بنگال سے تعلق رکھنے والے شعلہ صفت انقلابی رہنما۔ جو نیتا جی کے نام سے پکارے جاتے تھے۔ وہ آزاد ہند حکومت کے سربراہ بھی تھے۔ سبھاش چندر بوس کی سربراہی میں آزاد ہند فوج نے بڑی شاندار کامیابیاں حاصل کیں۔ جن سے انگریز تو ایک طرف خود جاپانی گھبرا گئے۔ چنانچہ انہوں نے اس فوج کو کمزور کرنے کی سازشیں شروع کر دیں۔ آزاد ہند فوج کا مستقبل کیا ہوا؟ یہ ایک علیحدہ بحث ہے۔ تاریخ کا انمٹ باب۔ لیکن آزاد ہند حکومت کے قیام سے چند دن پہلے 26 ستمبر 1943ء کو بوس نے برما کے دارالحکومت رنگون میں آخری مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کے مقبرے کے عین سامنے ایک جلسہ عام سے خطاب کیا۔ نیتا جی تقریر کر رہے تھے اور زار و قطار رو رہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے۔ ’’اے ہندوستان کے شہنشاہ۔ میرا نام سبھاش چندر بوس ہے۔ ایک زمانہ تھا تُو ہمارا شہنشاہ تھا۔ لیکن آج ہم تجھے بے کسی و لاچارگی کی حالت میں آرام کرتے دیکھ رہے ہیں۔ میں تجھ سے وعدہ کرتا ہوں کہ تیری تلوار لندن تک چلائوں گا۔ کیونکہ ہم میں ایمان کی خوشبو اب تک باقی ہے۔ اور تو نے ہی کہا تھا کہ۔ غازیوں میں بو رہے گی جب تلک ایمان کی۔ تب تلک لندن پہ چلے گی تیغ ہندوستان کی۔ اے شہنشاہ ہند۔ میں وہ پہلا شخص ہوں گا۔ جو تجھے ہندوستان واپس لے جائے گا۔ میں تجھ سے وعدہ کرتا ہوں‘‘۔ نیتا جی کے نائب اور آزاد ہند فوج کے سب سے جری کمانڈر کیپٹن شاہ نواز کا کہنا تھا کہ بوس نے اس کام کے لئے دو لاکھ روپے جمع بھی کرلئے تھے۔ لیکن حالات اس تیزی سے بدلے کہ وہ وعدہ پورا نہ کر سکے۔ بہادر شاہ ظفر کا انتقال 7 نومبر 1862ء کو برما کے دارالحکومت رنگون میں ہوا تھا۔ ان کا مقبرہ زمانے کی گردش میں گم ہو گیا تھا۔ لیکن پھر 16 فروری 1991ء کو اتفاق سے دوبارہ دریافت ہوگیا۔ جسے وہاں کے مخیر مسلمانوں نے پھر سے تعمیر کرایا۔ آج بہادر شاہ کو گزرے 257 برس ہو چکے ہیں۔ لیکن وہ آج بھی غریب الدیار ہیں۔ نہ کسی کی آنکھ کا نور ہیں۔ نہ کسی کے دل کا قرار ہیں۔ حالانکہ متحدہ ہندوستان کے شہنشاہ سب سے زیادہ اس بات کے مستحق ہیں کہ انہیں پورے عزت و احترام سے واپس لایا جائے۔ اور لاہور کے شاہی قلعہ میں عظمت کے ساتھ دفن کیا جائے۔ ہم زندہ مجرموں کو تو واپس لا نہیں سکے۔ مرحوم بزرگوں کو ہی لے آئیں۔ کیا پتہ ان کی روح آسودہ ہو جائے تو ہمارے زوال کے دن بھی گزر جائیں۔ بہادر شاہ ظفر برصغیر میں مسلمانوں کی عظمت کے آخری نشان تھے۔ ان کے جسد کو پاکستان میں ہونا چاہئے۔ ہندوستان میں نہیں۔ آخر کو تحریک پاکستان کی ماں 1857ء کی جنگ آزادی ہی تھی۔ جس نے بہادر شاہ سے خاندان چھین لیا۔ اور شہنشاہی سے معزول کر کے رنگون جلا وطن کر دیا۔ بہادر شاہ کی اولادیں ہندوستان میں آج بھی دربدر ہیں۔ ہم زندوں کے لئے کچھ نہیں کر سکے۔ کم از کم مردہ ہی واپس لے آئیں۔ اپنی خاک میں دفن ہونے کی آرزو کسے نہیں ہوتی۔ عام آدمی ہو یا شہنشاہ۔ سب کی آخری خواہش یہی ہوتی ہے۔ کیا ہم آخری شہنشاہ کی آخری خواہش بھی پوری نہیں کر سکتے۔ ہندوستان کے آخری شہنشاہ کو پاکستان لانا ہندوستان کے منہ پر طمانچہ ہوگا۔ اور ہمارے عوام کو عظمت رفتہ کے حصول کے لئے نئی توانائی ملے گی۔ ہندوستان پر حکومت کا خواب ایک بار پھر زندہ ہو جائے گا۔ ٭
٭٭٭٭٭