مزید پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ

قومی زندگی کے ہر شعبے میں ناکام اور عوام کو سہولتیں پہنچانے کے بجائے روز افزوں مہنگائی کے ذریعے زیر بار کرنے والی وزیراعظم عمران کی حکومت اب اقرباپروری اور دوست نوازی کے الزامات کی زد میں بھی آتی جارہی ہے۔ وفاقی حکومت نے مہمند ڈیم کی تعمیر کے لئے تین کھرب دس ارب روپے کا ٹھیکا وزیراعظم کے مشیر تجارت عبدالرزاق دائود کی خاندانی کمپنی ڈیسکون اور ایک چینی کمپنی گیز ہوبا کو دینے کا حتمی فیصلہ کرکے تیرہ جنوری کو اس منصوبے کا سنگ بنیاد رکھنے کا اعلان بھی کردیا ہے۔ چیئرمین واپڈا کا دعویٰ ہے کہ نیسپاک، ایف ڈبلیو اور دو غیر ملکی کمپنیوں کی موجودگی میں ڈیسکون کو میرٹ پر ٹھیکا دیا گیا ہے۔ جس وقت مہمند ڈیم کے لئے بولی دی گئی اس وقت تحریک انصاف حکومت میں نہیں تھی۔ وزیراعظم کے مشیر تجارت عبدالرزاق دائود کا اس کمپنی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ اس سے مستعفی ہوچکے ہیں۔ چیئرمین واپڈا کے مطابق مہمند ڈیم منصوبے کے ٹھیکے میں ڈیسکون کا حصہ صرف تیس فیصد ہے جبکہ چینی فرم گیزہوبا کا حصہ ستر فیصد ہے۔ اس منصوبے سے چھ ہزار مقامی افراد کو روزگار اور پشاور کو پینے کا پانی ملے گا۔ سترہ سے اٹھارہ ہزار ایکڑ اراضی سیراب ہونے کے علاوہ آٹھ سو میگاواٹ بجلی بھی حاصل ہوگی۔ چیئرمین واپڈا نے یہ وضاحت بھی کی کہ مشیر تجارت عبدالرزاق دائود کی کمپنی کو مہمند ڈیم کا ٹھیکا ملنا مفادات کا ٹکرائو نہیں۔ ایک طرف یہ کہا کہ عبدالرزاق دائود کا ڈیسکون سے کوئی تعلق نہیں ہے ، وہ اس کمپنی سے مستعفی ہوچکے ہیں اور دوسری طرف یہ کہا کہ ان کی کمپنی کو مہمند کا ٹھیکا ملنا مفادات کا ٹکرائو نہیں، چیئرمین واپڈا کا واضح تضاد ظاہر کرتا ہے ۔ پھر یہ کہ انہیں یہ کہنے کی کیا ضرورت پیش آئی کہ میں کسی کا ترجمان نہیں۔ حزب اختلاف کی جماعتوں نے ٹھیکا منسوخ کرنے اور عبدالرزاق دائود کو حکومتی امور سے الگ کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔ سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر اور پیپلز پارٹی کی رہنما سینیٹر شیری رحمان کا کہنا ہے کہ مہمند ڈیم کا ٹھیکا وزیراعظم عمران خان کے مشیر اور ان کے بیٹے کی کمپنی کو دیا گیا ہے۔ یہ پانی کے کسی نلکے کا نہیں ، تین کھرب دس ارب روپے کی لاگت سے ڈیم بنانے کا معاملہ ہے۔ تحریک انصاف کے ندیم افضل چن نے ایک طرف کہا کہ یہ معاملہ شفافیت کا حامل ہے جبکہ دوسری جانب یہ مطالبہ بھی کیا کہ مشیر تجارت عبدالرزاق دائود کو اس کی وضاحت کرنی چاہئے۔ اگر معاملہ شفاف ہے تو وزیراعظم کے مشیر یا کسی وزیر سے وضاحت کا مطالبہ کیا معنی رکھتا ہے ۔ ٹھیکا نیا ہو یا پرانا ، شفاف ہو یا یکطرفہ طور پر کسی کو نوازا گیا ہو ۔ عبدالرزاق دائود نے وزیراعظم کا مشیر بننے کے بعد ڈیسکون کی چیئرمین شپ سے استعفیٰ دیا تھا، لیکن اب بھی ان کا بیٹا کمپنی کا چیئرمین ہے۔
یہ کہنا کہ ٹھیکے میں ڈیسکون کا حصہ تیس فیصد جبکہ چینی کمپنی کا ستر فیصد ہے ، کوئی معنی نہیں رکھتا۔ پاکستان میں حکمرانی سے وابستہ خاندان اور افراد کسی کمپنی کے مالک یا حصہ دار نہ ہونے کے باوجود اپنے اثرورسوخ کی بنیاد پر کمیشن اور بھتے وصول کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ لوگ قانون سے کھیلنے کے عادی ہوتے ہیں۔ وہ کروڑوں روپے فیس ادا کرکے بڑے بڑے وکیلوں کی خدمات بھی حاصل کرنے پر قادر ہوتے ہیں جو احتساب عدالت کے چھوٹے موٹے ججوں کو خاطر میں نہ لاکر ان پر اپنی ڈگریوں اور تجربے کا رعب ڈال کر اور لا یعنی قانونی موشگافیوں کے ذریعے بڑے بڑے مجرموں کو چھڑا لینے یا انہیں رعایتیں دلانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اس کا واضح ثبوت شریف خاندان کے کئی افراد اور مسلم لیگ کے کئی رہنما ہیں جو اب تک بچے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری ، ان کی بہن فریال تالپور، بلاول بھٹو زرداری اور قومی دولت کی لوٹ مار میں شریک کئی رہنما اور بیوروکریٹس اب تک جیل سے باہر آزادی سے سیاسی سرگرمیوں میں مصروف ہوکر خود کو بے گناہ ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں جبکہ ان کی لوٹ کھسوٹ کے تمام ثبوت و شواہد موجود ہیں اور ان کی کرپشن کے افسانے ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ شریف خاندان کا یہ دلچسپ پہلو بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ ایک طرف میاں نواز شریف اپنی جائیداد و املاک اور اثاثوں کے بارے میں یہ موقف اختیار کرتے ہیں کہ اگر باپ بیٹوں اور بیٹی نے ایک دوسرے کو تحائف دے کر یا منتقل کرکے کوئی دولت اپنے نام کرائی تو کیا جرم کیا ؟ دوسری جانب یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حسین نواز اور حسن نواز کے مال و دولت اور جائیداد سے میرا کیا تعلق ؟ ان کے لئے میں جوابدہ نہیں۔ اس سے بھی زیادہ حیرت ناک معاملہ یہ ہے کہ میاں نواز شریف کے دونوں بیٹوں حسین اور حسن نواز نے اپنے باپ ہی نہیں، اپنے ملک سے بھی لاتعلقی کا اظہار کردیا ہے۔ پاکستان سے محبت اور اس کی خدمت کا دعویٰ کرنے والے شریف خاندان کی زندگی کا یہ پہلو اہل وطن کے لئے نہایت حیرت و افسوس کا باعث ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت اور رہنما بھی اپنے پیش رو حکمران خاندانوں کی روش پر چل پڑے ہیں جس کی خاطر انہیں متضاد بیانات، جھوٹ اور فریب کا سہارا لینا پڑرہا ہے۔ ایک طرف یہ کہا جاتا ہے کہ وزیراعظم کے مشیر تجارت عبدالرزاق دائود کا مہمند ٹھیکے سے کوئی تعلق نہیں تو دوسری جانب حقیقت یہ ہے کہ ان کے صاحبزادے کمپنی کے چیئرمین ہیں۔ اسی طرح جہاں یہ دعویٰ کیا گیا کہ ٹھیکا شفاف طریقے سے بولی کے ذریعے دیا گیا، وہیں آبی وسائل کے وفاقی وزیر فیصل وائوڈا اسے سنگل بڈ (واحد بولی) قرار دیتے ہیں۔ یہ وہی وزیر ہیں جنہوں نے قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کے سامنے پیش ہونے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں کسی کے باپ کا نوکر نہیں کہ ہر ایک کو جواب دیتا پھروں۔ ایک پریس کانفرنس میں ان سے سوال کیا گیا کہ این ایل جی ٹھیکوں کی سنگل بڈنگ پر تحریک انصاف تنقید کیا کرتی تھی، اب مہمند ڈیم ٹھیکے پر آپ کیا کہیں گے تو موصوف آگ بگولا ہوگئے اور کہا کہ آپ بزرگ ہیں ورنہ میں آپ کا مائیک ہی اٹھا کر سائیڈ پر رکھ دیتا (شکر ہے کہ ’’پھینک دیتا‘‘ نہیں کہا) یہ ہے نئے پاکستان کا دعویٰ لے کر برسر اقتدار آنے والی تحریک انصاف کا انداز حکمرانی اور طریق کار۔ اس سے آگے کیا کچھ دیکھنے کو ملتا ہے۔ مزید پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ۔ ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment