صلاحیت و انصاف پر مبنی تعیناتی

مسعود ابدالی
جناب معین رضا خان کو پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ (PPL) کا سربراہ (CEO&MD) مقررکیا گیا ہے۔ کمپنی اعلامئے کے مطابق معین رضا کیلئے یہ اضافی ذمہ داری ہوگی۔ PPL پاکستان آئل فیلڈز لمیٹڈ (POL) کے بعد تیل و گیس کی تلاش وترقی میں مصروف سب سے پرانا ادارہ ہے۔ 1950ء میں اس کی تشکیل ہوئی، جب اس کے 70 فیصد حصص برطانوی کمپنی برما آئل کمپنی (BOC) کے پاس تھے۔ غالباً 1997ء میں حکومتِ پاکستان نے BOC کے حصص 50 لاکھ ڈالر کے عوض خرید لئے اور PPL ایک سرکاری ادارہ بن گیا۔ 2004ء میں سرکار نے PPL کے کچھ حصص محدود پیشکش یا IPO کے ذریعے فروخت کردیئے۔ 2009ء میں محنت کشوں کو اداروں کی ملکیت دینے اسکیم شروع ہوئی جسے Benazir Employees Stock Option Scheme (BESOS) کا نام دیا گیا۔ BESOS کے تحت 12 فیصد حصص ملازمین نے خرید لئے۔ اس وقت PPL کے 68 فیصد حصص حکومت پاکستان کے پاس ہیں۔
تیل و گیس کی تلاش میں پی پی ایل ایک انتہائی موقر نام ہے، جس کی تاریخ کامیابیوں سے مزین ہے۔ 1952ء میں سوئی کے مقام پر گیس کے عظیم الشان ذخیرے کی دریافت پی پی ایل کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ اس دولت سے سارا پاکستان مستفید ہورہا ہے۔ سوئی کے علاوہ کندھکوٹ میں گیس کے ایک اور بڑا ذخیرے اور پنجاب میں آہدی کے مقام پر تیل کی دریافت نے تیل کی صنعت میں پی پی ایل کو قائدانہ مقام عطا کیا۔ چند مستثنیات کے علاوہ تیل و گیس کے ہر ذخیرے میں پی پی ایل کی حصہ داری ہے۔
پی پی ایل سمندر میں بھی قسمت آزمائی کررہی ہے۔ اب تک کوئی بڑی کامیابی نہیں ہوئی، لیکن جانفشانہ محنت و مشقت اور گرانقدر سرمایہ کاری کے نتیجے میں کمپنی نے بہت قیمتی معلومات جمع کی ہیں، جس کی بنیاد پر بحر عرب میں تیل و گیس کی تلاش کا کام درست سمت میں تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ پی پی ایل کے تفصیلی تعارف کا مقصد احباب کو اس ادارے کی اہمیت کا احساس دلانا تھا۔
اس قدر کلیدی اہمیت کے ادارے کے سربراہ کا تقرر بہت اہم ہے۔ پی پی ایل کی کامیابی کی بڑی وجہ اس ادارے کے افراد، عمدہ تنظیم اور تربیت کا شاندار نظام ہے۔ صنعت سے وابستگی کے دوران ہمیں پی پی ایل کے سابق سربراہان یعنی منصف رضا، خالد رحمان، عاصم مرتضیٰ خان اور سید وامق بخاری کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور ہم نے سب کو صلاحیت، دیانت، قیادت، اخلاص اور کام سے لگن کے معاملے ایک سے بڑھ کر ایک پایا۔
اب اس عظیم الشان ادارے کی قیادت معین رضا خان کو سونپی جا رہی ہے۔ معین رضا نے جامعہ کراچی سے ارضیات میں امتیازی نمبروں سے ایم ایس سی کیا اور پی پی ایل کی اسکالر شپ پر امریکہ گئے، جہاں انہوں نے جامعہ ٹلسہ (University of Tulsa, OK ) سے ایم ایس کیا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد معین نے واپس آکر ایک ماہر کی حیثیت سے پی پی ایل میں اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ اس دوران ان کے چشم کشا مقالے دنیا بھر کے ٹیکنیکل جریدوں میں شائع ہوئے۔ معین نے کچھ عرصہ Lasmo میں کام کیا، جسے بعد میں اطالوی کمپنی Eni نے خرید لیا۔ اس کے علاوہ وہ چند برس برٹش پیٹرولیم (BP) سے بھی وابستہ رہے، لیکن پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا، یعنی پی پی ایل واپس آگئے۔ BP میں کام کے دوران معین کو بنگلہ دیش، مشرق وسطیٰ، آئرلینڈ اور کئی دوسرے ممالک میں کام کا موقع ملا، جس نے ان کے تجربے کو تنوع اور صلاحیتوں کو مزید جلا بخشی۔
معین رضا 2012ء سے پی پی ایل کے ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر ہیں۔ ملک بھر میں پھیلے کمپنی کے آپریشن کی نگرانی ان کی ذمہ داری ہے۔ اس دوران کمپنی نے تیل و گیس کے چند انتہائی اہم ذخائر دریافت کئے ہیں۔ معین کا سب سے بڑا کارنامہ کمپنی کے آپریشن کو صحت افزا اور حادثات سے محفوظ رکھنا ہے۔ جب سے انہوں نے یہ ذمہ داری سنبھالی ہے، ہم نے پی پی ایل کے زیر انتظام کسی رگ، تنصیبات یا پلانٹ پر حادثے کی خبر نہیں سنی۔ میرے خیال میں محنت کشوں کی جان، صحت اور ماحول کی حفاظت کمپنی کے منافع سے زیادہ اہم ہے اوراس اعتبار سے معین نے انتہائی ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے۔
خدا کرے معین کی قیادت میں یہ قومی ادارہ مزید ترقی کرے اور ان کی قیادت میں پاکستان تیل و گیس میں خود کفالت کا ہدف حاصل کرلے۔ پی پی ایل ایک سرکاری کمپنی ہے اور اس کے سربراہ کا تقرر وزیر اعظم کی آشیرواد کے بغیر ممکن نہیں۔ چنانچہ میرٹ کے احترام پر حکومت کو داد دینی چاہئے۔
ایک شفیق استاد کی موت:
مشہور زمانہ ایچیسن کالج کے سربراہ جیفری ڈگلس لینگ لینڈ مختصر علالت کے بعد لاہور میں انتقال کر گئے۔ 1917ء میں جنم لینے والے جیفری صرف ایک سال کے تھے کہ ان کے والد نزلے کی ایک وبا کا شکار ہوگئے اور 10 سال کی عمر میں وہ والدہ کے سائے بھی محروم ہوگئے۔ والدہ کی جدائی کے بعد دادا نے جیفری کی کفالت کی، تاہم قدرت نے جیفری کی آزمائش جاری رکھی اور ایک سال بعد دادا بھی فوت ہوگئے۔ اپنے بڑے بھائی اور رشتے داروں کے زیر نگرانی جیف لیگ لینڈ کی پرورش ہوئی۔ A لیول کرتے ہی جیف ایک پرائمری اسکول میں انگریزی اور ریاضی کے استاد مقرر ہوئے۔ 1939ء میں دوسری جنگ عظیم کا آغاز ہوتے ہی جیف برطانوی فوج کے چھاپہ مار دستے میں بھرتی ہوگئے۔1944ء میں وہ سارجنٹ میجر کی حیثیت سے مقبوضہ ہندوستان آئے اور بنگلور چھائونی میں استاد (انسٹرکٹر) تعینات ہوئے۔ جلد ہی انہیں کمیشن عطا کرکے ڈیرہ دون اکیڈمی میں تعلیم و تربیت کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔
تقسیم پاکستان کے دوران جیف کو بطور میجر ترقی دے کر عبوری انتظام کے تحت راولپنڈی چھائونی بھیج دیا گیا۔ برطانوی حکومت سے عبوری تربیت کا معاہدہ ختم ہونے پر میجر صاحب نے پاکستان میں رہنے کی خواہش ظاہر کی اور اس وقت کے صدر ایوب خان نے جیف لینگ لینڈ کو ایچیسن کالج میں ریاضی اور انگریزی کا استاد مقرر کردیا۔ اس دوران میجر صاحب نے کئی کیڈٹ کالجوں میں بھی درس و تدریس کے فرایض انجام دیئے۔ میجر صاحب نے 60 برس سے زیادہ عرصہ بطور استاد کام کیا۔
میجر جیفری لینگ لینڈ مختصر علالت کے بعد لاہور میں انتقال کر گئے۔ اس وقت ان کی عمر 101 برس تھی۔ میجر صاحب کے اہم شاگردوں میں وزیر اعظم عمران خان بھی شامل ہیں۔
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ:
کل امریکہ کی نئی کانگریس (پارلیمنٹ) نے حلف اٹھالیا۔ حالیہ کانگریس اس اعتبار سے انتہائی متنوع ہے کہ اس بار:
٭… ایوان زیریں کی 435 میں سے 102 خواتین ہیں
٭… سینیٹ کی 100 میں سے 23 نشستوں پر خواتین براجمان ہیں
٭… امریکہ کی تاریخ میں پہلی بار دو مسلم خواتین ایوانِ زیریں (قومی اسمبلی) کی رکن منتخب ہوئیں
٭… پہلی بار ایک فلسطینی نژاد خاتون رشیدہ طلیب نے کانگریس کی رکنیت کا حلف اٹھایا۔ رشیدہ فلسطین کے روایتی لباس میں حلف اٹھانے آئیں۔ ان کی بہت سی ساتھیوں نے ان سے یکجہتی کیلئے فلسطینی لباس پہن رکھا تھا۔
٭… پہلی بار ایک صومالی پناہ گزین نے کانگریس کا حلف اٹھایا
٭… دو قدیم ریڈ انڈین خواتین اب کانگریس کا حصہ ہیں۔
٭… ریاست Massachusetts اور Connecticut سے پہلی بار سیاہ فام خواتین کانگریس کی رکن منتخب ہوئی ہیں
٭… امریکی تاریخ میں پہلی بار کانگریس کا Dress Code تبدیل ہوا۔ اس تبدیلی کا محرک نو منتخب مسلم رکن الحان عمر ہیں، جو اسکارف اوڑھ کر حلف اٹھانے آئیں۔
٭… نیویارک سے ایک 29 سالہ ہسپانوی نژاد ساقی و پیرمغان (Tender Bar) محترم الیکزنڈرہ کورٹیز ایوان زیریں کی رکن منتخب ہوئیں، انہوں نے سب سے کم عمر رکن کانگریس ہونے کا اعزاز اپنے نام کر لیا۔
مسلم ارکان کا قرآن کریم پر حلف:
مسلم ارکان نے اپنا حلف قرآن کریم پر اٹھایا۔ رشیدہ طلیب نے قرآن کے 1734ء میں شائع کیے گئے ترجمے پر حلف لیا۔ قرآن کا سب سے پہلا انگریزی زبان میں ترجمہ 1734 میں لندن سے شائع ہوا تھا۔ اِس ترجمہ شدہ قرآن کا نسخہ امریکا کے بانی صدر تھامس جیفرسن کے کتابوں کے مجموعے سے تعلق رکھتا ہے۔ رشیدہ طلیب امریکی ریاست مشیگن کے شہر ڈیٹرائٹ سے منتخب ہوئی ہیں۔ صومالی نژاد الحان عمر نے حلف اس قرآن کے نسخے پر لیا، جو ان کے دادا کے زیر مطالعہ رہا تھا۔ اس خاتون کی پرورش اور شخصیت کی تراش میں ان کے دادا کا کردار نہایت اہم رہا تھا۔
رشیدہ طلیب نے اپنے آبائی شہر کے ایک جریدے میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں واضح کیا کہ امریکا میں مسلمان بہت برسوں سے ہیں اور ماضی کے بے شمار امریکی شہری موجودہ کانگریس کے اراکین سے زیادہ مذہبِ اسلام کے بارے میں سوجھ بوجھ رکھتے تھے۔ ڈیٹرائٹ فری پریس میں چھپنے والے اس مضمون میں رشیدہ طلیب نے بتایا کہ جدید امریکی تاریخ میں ایسے اشارے دئیے گئے ہیں کہ اسلام امریکی شہریوں کے لیے نیا ہے اور یہ تاثر درست نہیں ہے۔ الحان عمر نے حلف برداری کے بعد ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ یہ امریکا کی تاریخ کا ایک نیا دن ہے۔ کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والی خاتون سیاستدان نینسی پلوسی ایوانِ نمائندگان کی ایک مرتبہ پھر اسپیکر بن گئی ہیں۔ دوسری جانب سینیٹ میں ریپبلکن پارٹی کی برتری برقرار ہے۔ وسط مدتی الیکشن میں ریپبلکن پارٹی کو مزید دو نشستیں حاصل ہوئی تھیں۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment