اس موسم میں سندھ کی دھرتی اس طرح سجتی سنورتی ہے، جس طرح کسان کی محنت کش بیٹی کو دلہن بنا کر سجایا اور سنوارا جاتا ہے۔ جب اس کے خشک بالوں میں سرسوں کا تیل انڈیلا جاتا ہے۔ جب اس کی سوکھی ہوئی کلائیوں میں سرخ چوڑیاں پہنائی جاتی ہیں۔ جب اس کی روکھی آنکھوں میں کاجل کی لکیر لگائی جاتی ہے۔ جب اس کے کانوں میں چاندی کی بالیاں لٹکائی جاتی ہیں۔ جب اس کے پتلے ناک میں لشکارے مارتا لونگ سجتا ہے۔ جب اس کے سانولے ہاتھوں اور میلے پیروں کو صاف کرکے ان پر مہندی کے پھول پینٹ کیے جاتے ہیں۔ جب اسے شیٹ کی قمیص اور سوسی کی شلوار پہنائی جاتی ہے۔ جب گلابی آنچل کی اوٹ سے اس کی حیران اور گھبرائی ہوئی آنکھیں اپنے من کے مقدر کو تلاش کرتی ہیں۔ جب اس کی سکھیاں اور سہیلیاں اس کی خوشی کے گیت گاتی ہیں۔ جب دلہن کے قریب بیٹھی ہوئی چھوٹی بچیوں کی آنکھوں میں چھوٹے چھوٹے خوابوں کے بڑے بڑے سائے لہرانے لگتے ہیں۔ تب آنگن میں اترنے کی آرزو سے بھرا ہوا چاند کچے مکان کے باہر کا منظر دیکھتا ہے۔
بزرگوں کے ہاتھوں سے لگے ہوئے بڑے درختوں کے درمیان سندھ کے ڈیرے جس کو ’’اوطاق‘‘ کہتے ہیں، وہاں مسکراتی ہوئی محفل کے درمیان ہنستی ہوئی آگ کے نرم گرم شعلے ٹھنڈی ہوا میں رقص کرتے ہیں۔ گھاس پر بچھائی ہوئی خوبصورت رلیوں پر بیٹھے ہوئے بزرگ سفید داڑھیوں کو سہلاتے ہیں۔ ایک سریلا نوجوان سندھی زبان میں وہ حمد گنگناتا ہے، جس کو مولود کہا جاتا ہے۔ ان مولودوں میں نبی اکرمؐ کے شہر ’’مدینے‘‘ کا نام لینا بھی گستاخی سمجھی جاتی ہے۔ اس لیے وہ اس شہر کو ’’بھنبھور‘‘ بلاتے ہیں۔ جس شہر کی چاندنی میں خوشیوں بھری شادی ہوتی ہے۔ اس رات آسمان سے نور کی بارش ہوتی ہے۔ ستارے پلکیں جھپکنا بھول جاتے ہیں۔ ہوا میں شبنم کے نرم موتی نظر نہیں آتے۔ وہ موتی صرف محسوس ہوتے ہیں۔ سندھی زبان کے ان دیہی مولودوں میں محبت کی مقدس رات کے قصے بیان کیے جاتے ہیں۔ وہ رات جس رات فرشتے دھرتی پر اپنے پر پھیلاتے ہیں۔ اس رات دھرتی بہت خوش ہوتی ہے۔ جس رات دھرتی سے محبت کرنے والے اور دھرتی سے اناج اگانے والے کسانوں کے بچے ایک نیا خاندان بناتے ہیں۔
اس رات اوطاق میں حمد باری تعالیٰ کے بعد الغوزے بھی بجتے ہیں۔ ان کی میٹھی دھن میں ایک قصہ گو پرندوں کے اس جوڑے کی کہانی بیان کرتا ہے، جو طوفان کی ایک رات میں بچھڑ جاتے ہیں اور پھر وفا کی راہوں پر بھٹکتے بھٹکتے ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں۔ اس رات اس اوطاق پر بہت دور دور گاؤں کے مہمان آتے ہیں۔ اس رات مہمانوں کی تواضع بکرے سے نہیں، بیل سے کی جاتی ہے۔ وہ منظر بھی ناقابل فراموش ہوتا ہے، جب گاؤں کے چند طاقتور نوجوان بیل کو قابو کرکے اسے دھرتی پر لٹانے کی کوشش کرتے ہیں اور بیل ان کے قابو میں نہیں آتا۔ اس پر محفل میں بیٹھے بزرگ طنزیہ فقرے کستے ہیں۔ بچے زور سے ہنستے ہیں۔ بیل قابو میں نہیں آتا۔ بیل کو قابو کرنے کی کوشش میں جب کسی کا زیر جامہ بھی اتر جاتا ہے اور وہ اپنی لمبی قمیص میں کھڑا شرمسار ہو کر ہنستا ہے۔ اس واقعے کی خبر اندر دینے کے لیے کچھ شریر بچے دوڑتے ہیں۔
اور پھر رات کا وہ پہر بھی آتا ہے جب ایک دولہے کو صرف سفید لباس پہنایا جاتا ہے تو وہ کنول صبح صادق کے ستارے کی طرح نظر آنے لگتا ہے۔ اس کے تیل سے چمکتے بالوں پر نئی رنگین ٹوپی رکھی جاتی ہے۔ اس کے شانوں پر اجرک لہرائے جاتی ہے۔ اس وقت وہ خوبصورت اور پروقار نظر آتا ہے۔ اسے آنکھیں بھر کر دیکھنے والے بزرگوں کو وہ بیتا وقت یاد آجاتا ہے جب وہ دولہے بنے تھے۔ اس محفل میں دولہے کے بعد دیکھنے والوں کی نظریں گاؤں کے اس مولوی پر ہوتی ہیں، جو اس دن دھلی ہوئی پگڑی پہن کر آتا ہے۔ وہ دولہے کا نکاح پڑھواتا ہے۔ پھر دعا کے لیے ہاتھ اٹھتے ہیں۔ وہ ہاتھ نیچے ہی نہیں ہوتے تو مبارکباد کے پرندے اڑنے لگتے ہیں۔ خوشی کی وہ صدائیں کچے مکان میں بیٹھی عورتوں تک بھی پہنچ جاتی ہیں۔ وہ جست کا تھال بجا کر خوشی کا گیت گاتی ہیں۔ گیت کے اس ترنگ پر جھاڑیوں کے قریب بیٹھا خار پشت بھی ناچنے لگتا ہے۔ مبارک اور مسرت سے وہ ماحول معطر ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد دولہا سسرال کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے۔ اس دن دلہن کی بہنوں اور سہیلیوں کو دولہے اور اس کے دوستوں سے بے تکلف ہوکر باتیں کرنے کی کلچرل اجازت حاصل ہوتی ہے۔ ایسے موقعوں پر قربت کے فقرے ’’کاروکاری‘‘ کا باعث نہیں بنتے۔
اس وقت مردوں، عورتوں اور بچوں کے شور میں کسی کو کچھ سنائی نہیں دیتا، مگر دلہن تیزی سے دھڑکتے ہوئے اپنے دل کی صدا سن سکتی ہے۔ وہ اس وقت بہت سہمی اور ڈری ہوئی ہوتی ہے۔ جس وقت سفید شلوار قمیض میں، ملبوس اس کے دولہے کو اس کے سامنے بٹھایا جاتا ہے۔ اس کے بعد دولہے اور دلہن کے سروں کو آہستہ سے ٹکرانے کی رسم ’’لاؤں‘‘ منائی جاتی ہے۔ پھر دولہا اور دلہن ایک پیالے سے دودھ پیتے ہیں۔ باقی دودھ سب میں بانٹا جاتا ہے۔ ان رسومات کے بعد وہ پل بھی آتا ہے، جب دولہے کے ساتھ آنے والی عورتیں بغیر ڈھول اور بغیر کسی ساز کے ان لوک گیتوں کی صدائیں بلند کرتی ہیں، جن لوک گیتوں میں سب کو بتایا جاتا ہے کہ:
’’ہم شہزادی کو لے جائیں گے
ہم آج کی رات تمہارے شہر میں نہیں ٹھہریں گے
اپنی چڑیا کو اجازت دو
وہ نئے گھونسلے میں جائے!!‘‘
پھر کسان کی بیٹی اپنے والد سے چمٹ جاتی ہے۔ بارات میں موجود سب کی آنکھیں بھر آتی ہیں۔ دلہن کی چھوٹی بہن زور زور سے رونے لگتی ہے۔ اس کی ماں اس کو سمجھاتی ہے:
’’ہر بیٹی کو باپ کا گھر چھوڑ کر جانا پڑتا ہے۔‘‘ خالہ اس کو تھوڑی دھمکی اور تھوڑا دلاسہ دیتے ہوئے شرارت سے کہتی ہے: ’’ایک دن تو بھی جائے گی!!‘‘
اس طرح وہ دیہاتی شادی اپنی تکمیل کو پہنچتی ہے، جو آج کل سندھ کے ہر گاؤں میں منعقد ہو رہی ہے۔
موسم سرما سندھ میں شادیوں کا موسم سمجھا جاتا ہے۔ اب تو سولر کے آنے سے لو وولٹیج بلب جلتے نظر آتے ہیں۔ اس لیے اب وہ لالٹینیں غائب ہوتی جا رہی ہیں جن کے کارواں سرد راتوں میں ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں تک جلتے نظر آتے تھے۔ مگر سندھ میں اب بھی دور دراز دیہاتوں میں باراتیں چنگ چی رکشاؤں پر نہیں جاتیں۔ آج بھی ضلع بدین سے آگے ’’اچھڑے تھر‘‘ میں اونٹوں
کے قافلے اپنے گردوں میں پڑی ہوئی ٹلیاں بجا کر چلتے ہیں۔ آج بھی موسم سرما میں درختوں کے بھاری تنے جلتے ہیں۔ کہاں بڑی جڑوں کو کھود کر انہیں جلایا جاتا ہے۔
ہر شے کا اپنا حسن ہوتا ہے۔ ہر حسن کے پردے اٹھنے کا اپنا وقت ہوتا ہے۔ اگر سندھ کا حقیقی حسن دیکھنا ہو تو اس دیہاتی دنیا میں داخل ہونا ہوگا جس کی طرف چھوٹے شہروں سے بہت سے راستے پھوٹتے ہیں۔ سندھ کے وہ قدیم مگر تھوڑے گھروں پر مشتمل گاؤں اس موسم کو میلاپ کا موسم بنا کر گزارتے ہیں۔ اس موسم میں وہ اپنے بچوں کی شادیاں رچاتے ہیں۔ اس لیے ہر کوئی خوشی خوشی شکایت کرتا ہے کہ ’’بھائی شادی کی دعوتوں نے تھکا دیا ہے‘‘ مگر اس تھکاوٹ میں بھی خوشی پنہاں ہوتی ہے۔ اس تھکاوٹ کا تذکرہ فخر سے کیا جاتا ہے۔
یہ وہ موسم ہے، جس موسم میں غریب سندھ کو پیٹ بھر کر کھانا ملتا ہے۔ جب کسی گاؤں میں شادی کی تقریب ہوتی ہے، تب پورے گاؤں میں کوئی چولہا نہیں جلتا۔ سب کو ’’سندھی پلاؤ‘‘ پیٹ بھر کر کھانے کو ملتا ہے۔ سب کو بیل کی بوٹیاں پلاؤ پر سجا کر دی جاتی ہیں۔
سندھ میں وہ تہوار میڈیا میں رپورٹ نہیں ہوتے، جن تہواروں پر کلچر اپنے پیروں میں گھنگھروں باندھ کر ناچتا ہے۔
سندھ کا حقیقی روپ دیکھنے کے لیے موسم سرما میں ’’سندھ کی یاترا‘‘ کرنا ضروری ہے۔ اس موسم میں دھند سے لپٹی ہوئی صبحیں اور دھند میں سمٹی ہوئی سرد شامیں اس حسن کا پتہ دیں گی، جو موسم گرما میں بھاپ بن کر اڑ جاتا ہے۔ موسم گرما میں تو سندھ جلتا ہوا نگر ہو جاتا ہے۔ موسم سرما میں سندھ اپنے اصل رخ سے پردہ ہٹاتا ہے۔
موسم سرما میں دیہی سندھ حد نظر تک سر سبز ہوتا ہے۔ حالانکہ اس موسم میں دریا اور کینالوں میں پانی کی شدید کمی ہوتی ہے، مگر پھر بھی جا بہ جا دھرتی پر بکھری ہوئی ہریالی دھرتی کے دل میں موجود طاقت کا پتہ دیتی ہے۔ وہ پینٹنگز جیسے مناظر سندھ میں صرف موسم سرما میں ہی دیکھے جا سکتے ہیں، جب پانی کی سفید اور سبز جھیلوں پر رنگین پرندے اڑتے ہیں۔ جب مچھیرے اپنی کشتیوں میں جال میں پھنسی ہوئی مچھلیوں کو بغیر گھی اور تیل کے فرائی کرتے ہیں۔ جب بچپن اور جوانی کے درمیانی عمر والے لڑکے پرائے کھیتوں کے گنے توڑ کر لاتے ہیں اور راہ چلتے ہوئے انہیں دانتوں سے چھیل کر کھاتے ہیں۔
سندھ میں موسم سرما کے دوران سورج بہت جلد غروب ہو جاتا ہے۔ اس موسم میں ایسا لگتا ہے جیسے سورج نہ ہو، کوئی انگارہ ہو، جو پانی کے اس تالاب میں بجھ جاتا ہے، جس میں کنول کے پھول کھلتے ہیں۔ کنول کے ان پھولوں والے تالاب میں سندھ کی مشہور سبزی ’’بہہ‘‘ ملتی ہے۔ اس تالاب سے پکڑی جانے والی چھوٹی چھوٹی مچھلی اور اس تالاب سے حاصل ہونے والی بہہ کا سالن چاول کے آٹے سے بنی ہوئی روٹی کے ساتھ کھانے کا جو لطف اس موسم کے دوران اندرون سندھ میں ہے، وہ آپ کو پاگل شخص کے دماغ جیسے شہر میں نہیں مل سکتا۔
موسم گرما تو جدائی کا موسم ہے۔ موسم سرما میلاپ کا موسم ہے۔ سندھ میں یہ موسم اور زیادہ خوبصورت بن جاتا ہے جب اس موسم کے دوران کسی گاؤں پر ہلکی بارش ہوتی ہے۔ وہ بارش کسی محبوب مہمان کے رک جانے کا بہانہ بن جاتی ہے۔ اس موسم میں جھونپڑی میں جلتی ہوئی آگ کا الگ ہی حسن ہوتا ہے۔ اس موسم میں بہت دور سے آتی ہوئی اس لوک گیت کی صدا میں ایک اور ہی کشش ہوتی ہے، جس گیت کے بول ہیں:
’’جلتی آگ پہ پکتی روٹی
کیوں جانے کی تم کو جلدی؟
بارش کی اس رات میں!
بارش کی اس رات میں!!‘‘ ٭
٭٭٭٭٭