تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے طبی عملے میں اضافے سے متعلق منصوبے ’’ہیومن ریسورس برائے ہیلتھ ویژن 2030ء‘‘ کا اعلان کر دیا ہے۔ محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ ’’ہر شہری کیلئے صحت کی سہولت‘‘ نامی پروگرام کے تحت طبی عملے کی دس لاکھ نئی آسامیاں پیدا کی جائیں گی۔ اس منصوبے کا اعلان وزیر مملکت برائے صحت سائرہ افضل تارڑ نے کیا۔ منصوبے میں بتایا گیا ہے کہ وفاق اور صوبوں نے صحت کے شعبے میں ہنرمند افراد کی کمی پوری کرنے کیلئے فزیشنز، نرسز اور مڈوائف کی تعداد بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ڈاکٹروں کی تعداد دو لاکھ پانچ ہزار ایک سو باون سے بڑھا کر تین لاکھ چودہ ہزار ایک سو ستّر کی جائے گی۔ نرسز اور مڈوائف کی تعداد ایک لاکھ چار ہزار چھیالیس سے بڑھا کر نو لاکھ بیالیس ہزار چھ سو چھپن کی جائے گی۔ وطن عزیز میں دیگر شعبوں کی طرح محکمہ صحت کا بھی برا حال ہے۔ عوام کو مفت صحت کی سہولیات فراہم کرنا حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ صحت کے شعبے میں بہتری کے بلند بانگ دعوے تو ہر دور حکومت میں کئے جاتے رہے۔ مگر عملاً اس اہم ترین شعبے کو ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا رہا۔ نتیجتاً قدرتی و انسانی وسائل سے مالامال ملک پاکستان صحت سے متعلق بعض چیزوں میں پسماندہ افریقی ممالک سے بھی پیچھے چلا گیا۔ بچوںسے متعلق عالمی ادارے یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق نوزائیدہ بچوں کی شرحِ اموات کے حوالے سے وطن عزیز افغانستان اور افریقی ممالک کو پیچھے چھوڑتے ہوئے پہلے نمبر پر آگیا ہے۔ نیشنل نیوٹریشن سروے کے مطابق پاکستان کے پینتالیس فیصد بچوں کی افزائش ٹھیک نہیں ہے، جس کی وجہ غذائیت کی شدید کمی ہے، جو کہ مستقل جسمانی اور ذہنی مسائل کا سبب بنتی ہے۔ جبکہ صحرائے تھر میں غذائی قلت کا شکار نومولود تو دنیا میں آتے ہی سفر آخرت پر روانہ ہوجاتے ہیں۔ پیدائشی طور پر طبی مسائل کا شکار ان بچوں کی اتنی بڑی تعداد صحت کے فرسودہ نظام پر ایک بہت بڑا بوجھ ہے، جو پہلے ہی مریضوں کی بڑی تعداد کو مناسب سہولیات اور ادویات فراہم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اس وقت ملک میں بچوں کو خسرے سے بچائو کے ٹیکے لگانے کی شرح صرف پچاس فیصد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی پاکستان میں بچوں میں خسرے کی بیماری ایک وبائی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ اس حوالے سے تو پاکستان جنگ زدہ ملک شام سے بھی پیچھے ہے۔ دو ہزار سترہ میں پاکستان میں خسرے کے چھ ہزار سے زائد کیسز سامنے آئے تھے۔ جبکہ افغانستان میں ایسے کیسز کی تعداد پندرہ سو اور شام میں صرف پانچ سو تھی۔ زچگی کے دوران ہلاک ہونے والی خواتین کی تعداد کے حوالے سے بھی پاکستان بہت آگے ہے۔ اسپتالوں میں بیڈز کی کمی اور کوریڈورز میں مریضوں کی ہلاکت کی خبریں آئے روز سامنے آتی رہتی ہیں۔ اسی طرح جعلی ادویات کی بھرمار اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے مسائل پاکستان میں ہر خاص و عام کو معلوم ہیں۔ سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹروں کی کمی، عملے کی بے حسی، صفائی ستھرائی کی ابتر صورتحال، ادویات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے سمیت کئی ایسے مسائل ہیں، جنہوں نے غریبوں سے علاج کا حق ہی چھین لیا ہے۔ وہ پرائیویٹ اسپتالوں میں علاج کرانے کی سکت نہیں رکھتے۔ سرکاری اسپتال سہولیات سے محروم ہیں۔ اس لئے غریب عوام پیر رگڑ کر موت کا انتظار کرنے پر مجبور ہیں۔ بنیادی مسائل کو حل کرنے کیلئے کسی ’’ویژن 2030ء‘‘ کی ضرورت نہیں۔ حکام بالا صرف توجہ دیں تو بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ صحت سب سے بنیادی چیز ہے۔ جان ہے تو جہان ہے۔ صحت کا شعبہ صوبوں کے پاس ہے۔ تحریک انصاف نے صوبہ خیبرپختون میں اپنے گزشتہ دور حکومت میں اس شعبے میں کتنی بہتری لائی؟ اس کا جواب کسی اور نے نہیں، ملک کے سب سے بڑے منصف نے گزشتہ دنوں وہاں کے سرکاری اسپتالوں کا دورہ کر کے دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہاں انسانوں کو جانوروں کی طرح رکھا جاتا ہے۔ منصوبے پیش کرکے دعوے کرنا کہ ہم یہ کریں گے، وہ کریں گے… بہت آسان ہے۔ عوام کو اس دعوے پر اعتبار تب ہوتا جب صوبہ خیبر پختون کے اندر پانچ سال کے دوران کچھ مثالی اقدامات کرکے دکھاتے۔ ڈاکٹروں کی کمی کو دور کرنا بھی ضروری ہے۔ ملک میں ڈاکٹروں کی قلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر اوسطاً ایک مریض کو بمشکل ایک منٹ سینتالیس سیکنڈ دے پاتے ہیں۔ عالمی ادارئہ صحت کے مطابق 20 کروڑ آبادی کے ملک پاکستان کی دس سے سولہ فیصد آبادی ذہنی امراض میں مبتلا ہے۔ لیکن ملک میں صرف چار سو سائیکاٹرسٹ اور پانچ اسپتال خدمات فراہم کرتے ہیں۔ اس وقت ملک میں رجسٹرڈ ڈاکٹروں کی تعداد دو لاکھ پانچ ہزار ایک سو باون ہے، جسے بڑھا کر تین لاکھ چودہ ہزار ایک سو ستر کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ پاکستان کے بیشتر ڈاکٹر بیرون ملک جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ صرف امریکا میں کام کرنے والے غیر ملکی ڈاکٹروں کی تیسری بڑی تعداد پاکستان سے تعلق رکھتی ہے۔ ڈاکٹروں کی کمی کو پورا کرنے کیلئے اس رجحان کو ختم کرنا ہوگا۔ بیرون ملک جانا کا سبب صرف مالی مفاد نہیں ہے۔ بلکہ ڈاکٹروں کے قتل اور اغوا کی بڑھتی وارداتیں بھی اس کا سبب ہیں۔ بلوچستان میں ڈاکٹر تنظیموں کے مطابق اب تک تینتیس ڈاکٹر اغوا، اٹھارہ ٹارگٹ کلنگ میں ہلاک، تین لاپتہ ہوئے ہیں اور لگ بھگ نوّے ڈاکٹر اور ان کے خاندان بد امنی کی وجہ سے صوبہ چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ ڈاکٹروں کو مکمل سیکورٹی دے۔ ڈاکٹر کسی بھی معاشرے کا اہم اثاثہ ہوتا ہے۔ مگر افسوس کہ بعض اغوا کی وارداتوں میں سیاستدانوں اور وزرا پر بھی الزامات لگتے رہے ہیں۔ لیکن آج تک نہ اس کی کوئی تحقیقات ہوئی اور نہ کسی کو قانون کی گرفت میں لایا گیا۔ ایسے میں ڈاکٹر اپنے ہم وطنوں کی خدمت کے بجائے بیرون ملک چلے جائیں تو اس کا نقصان ملک و قوم کو ہوتا ہے۔شعبہ صحت میں بہتری لانے کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ حکمرانوں اور اعلیٰ سرکاری افسران کو ملک بالخصوص سرکاری اسپتالوں میں علاج معالجے کا پابند بنایا جائے۔ اس سے نصف سے زائد مسائل از خود حل ہو جائیں گے۔ لیکن وفاقی حکومت کے ’’ہیلتھ ویژن 2030ء‘‘ میں اس کا کوئی ذکر نہیں۔ جب تک اشرافیہ کو سر درد کیلئے بیرون ملک یا مہنگے پرائیویٹ اسپتالوں میں علاج کی سہولت حاصل رہے گی، کبھی بھی ہیلتھ کا نظام بہتر نہیں ہو سکتا۔ ٭
٭٭٭٭٭