دیسی ٹرمپ

’’ مجھے نکالا گیا تو عوام بغاوت کردیں گے، میرا جرم صرف معیشت کی بحالی ہے، مجھے کس جرم کی سزا دی جا رہی ہے، میرے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں، قومی ادار ے مجھے کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں…‘‘ یہ بیانات پڑھ کر آپ سوچ رہے ہوں گے کہ احتساب کے شکنجے میں پھنسے ہوئے کسی پاکستانی حکمران یا سیاستدان کے ہیں، لیکن نہیں جناب! یہ بیانات امریکی صدر ٹرمپ کے ہیں اور ان کے وکیل روڈی گیلنی کا بیان بھی پڑھتے جائیں، جنہوں نے کہا ہے کہ صدارتی انتخابات میں روسی مداخلت کی تحقیقات کرنے والا کمیشن ان کی لاش سے گزر کر ہی ٹرمپ سے تفتیش کر سکتا ہے۔ بالکل ایسے جیسے طلال چوہدری، دانیال عزیز اور اس قسم کے دیگر لیگی رہنما پاناما کیس کے دوران بیانات دیتے تھے یا اب منی لانڈرنگ کیس کی جے آئی ٹی سامنے آنے کے بعد پیپلز پارٹی کے رہنما دے رہے ہیں، جب سے ٹرمپ آئے ہیں، ہم لکھتے رہے ہیں کہ امریکی صدر کی چمڑی تو سفید ہے، لیکن اندر سے وہ ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کی طرح ہیں۔ انہوں نے لگتا ہے پاکستانی سیاست کا بغور مطالعہ کیا ہے، اس لئے ساری عادتیں یہاں سے درآمد کرلی ہیں، ورنہ اس سے پہلے امریکہ میں کیا کوئی تصور کر سکتا تھا کہ کوئی صدر ایف بی آئی کو ایسی دھمکیاں دے، اس پر اپنے خلاف سازش کا الزام لگائے۔ کسی صدر کا وکیل تحقیقاتی ادارے کو لاش پر سے گزرنے کی دھمکی دے۔ تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ (رابرٹ ملر) پر جانبدار اور متعصب ہونے کا الزام لگائے، اسے مخالف سیاسی جماعت (ڈیموکریٹس) کا حامی قرار دے۔ ایف بی آئی کو بلی اور اس کے ساتھ تعاون پر اپنے سابق وکیل مائیکل کوہن کو چوہا قرار دے۔
انجام گلستاں کیا ہوگا، وہ تو وہی ہوگا، جو ہمارے ہاں ایسے رہنمائوں کا ہوتا ہے، کیوں کہ جب حرکتیں ہمارے رہنمائوں والی ہیں، تو انجام کیسے مختلف ہوسکتا ہے، لیکن ٹرمپ کی بدولت کم از کم ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ امریکہ میں بھی ہماری جیسی ہی جمہوریت ہے، جب کہیں سیاسی دُم پر احتساب کا پیر آئے تو سب کچھ الٹنے کی دھمکیاں اور جانبداری کے الزامات لگادو، حساب دینے کے بجائے حساب مانگنے والوں کو متنازعہ بنانے کی کوششیں شروع کردو۔ ہمارے رہنمائوں کی طرح ٹرمپ کو بھی نئے محاذ کھولنے کا شوق ہے، لیکن پہلے شام اور پھر افغانستان سے فوجی انخلا کا اعلان کرکے انہوں نے اپنے سے بڑا پنگا لے لیا ہے۔ فوجی انخلا تو ان دونوں ملکوں سے نہیں ہونا اور اگر ہونا بھی ہوا تو اس کا فیصلہ ٹرمپ نہیں، بلکہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کرے گی۔ ٹرمپ اس سے پہلے بھی اس طرح کے احمقانہ ٹوئٹ کر چکے ہیں اور پھر یوٹرن لے لیتے ہیں، اب بھی یہی امکان ہے، لیکن اب کی بار ایسا لگتا ہے کہ انہیں اس کی قیمت بھی ادا کرنی پڑے گی، کیوں کہ فحش اداکارہ اسٹورمی ڈینیل کو ٹرمپ سے ماضی کے تعلقات چھپانے کے لئے رقم ادائیگی کے معاملے پر ان کے سابق وکیل مائیکل کوہن کو سزا ہونے کے بعد امریکی صدر پر نااہلی کی تلوار لٹک گئی ہے۔ یہ چلتی کب ہے، اس کا انحصار ٹرمپ پر ہے، اب بھی لگتا ہے امریکی اسٹیبلشمنٹ انہیں بندے کا پتر بننے کا موقع دے رہی ہے، لیکن اگر وہ نہ بنے تو پھر اکیلی یہ تلوار نہیں، بلکہ دو دھاری تلوار چلے گی اور روسی مداخلت والا معاملہ بھی تیزی سے آگے بڑھایا جائے گا۔
امریکی میڈیا میں تو یہ خبریں بھی آرہی ہیں کہ ٹرمپ کارروائی سے بچنے کے لئے مستعفی ہو سکتے ہیں، لیکن میڈیا ٹرمپ کا دشمن ہے، اس لئے یہ خبر سے زیادہ میڈیا
ہائوسز کی خواہش ہے۔ ٹرمپ کی باقی عادتیں پاکستانی سیاستدانوں والی ہیں تو یہ بھی یاد رکھیں کہ وہ استعفے کے معاملے میں بھی دیسی ہی نکلیں گے اور اتنی آسانی سے کرسی نہیں چھوڑیں گے، البتہ ان کا گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔ ٹرمپ کے فلاحی ادارے کو بھی بند کر دیا گیا ہے، ویسے فلاحی ادارے کے معاملے میں بھی ٹرمپ ہمارے سیاستدانوں جیسے ہی نکلے ہیں۔ وہ فائونڈیشن بنا کر ریوڑیاں خود اور اپنے ہمنوائوں کو ہی کھلا رہے تھے۔ دوسری طرف فائونڈیشن کے نام پر ٹیکس بچا رہے تھے۔ اسی طرح ان کی چہیتی بیٹی ایوانکا کی نجی ای میلز کا اسکینڈل بھی پھر سرا ٹھا رہا ہے۔ یہ سارے اشارے ہیں کہ ٹرمپ کے پاس سدھرنے کے لئے وقت کم ہوتا جا رہا ہے۔
پاکستان میں حکومت ڈیمز کے لئے فنڈ جمع کر رہی ہے، اب امریکہ میں ڈیموں کی تو ضرورت نہیں ہے، لیکن ٹرمپ نے یہاں بھی پاکستان کی نقل کی صورت نکال لی ہے اور میکسیکو کی سرحد پر دیوار تعمیر کرنے کے لئے فنڈ ریزنگ شروع کردی ہے۔ ٹرمپ جب سے صدر بنے
ہیں، کوئی مہینہ جانے نہیں دیتے، جس میں وہ کسی عہدیدار کو برطرف نہ کریں، لیکن دسمبر میں تو انہوں نے اب تک کا سب سے بڑا تھم گرایا ہے اور وزیر دفاع جیمز میٹس کو نہ صرف فارغ کیا، بلکہ عملی طور پر انہیں ذلیل کرکے نکالا۔ وہ چند ہفتے بعد جانا چاہتے تھے، لیکن ٹرمپ نے ٹوئٹ کرکے انہیں فوری رخصتی کا بگل سنا دیا۔ اب وزیر داخلہ زنک ریان کی چھٹی کا بھی اعلان کر دیا ہے۔ اسی لئے ان کے ساتھی کہتے ہیں کہ ٹرمپ کے دو ہی تو شوق ہیں، ایک بندے نکال کر ان کی جگہ نئے لانا اور دوسرا ٹوئٹ کرنا۔ ٹوئٹ کرنا ٹرمپ کا پسندیدہ مشغلہ تو ہے، لیکن انہیں یہ سہولت فراہم کرنے والا ٹوئٹر بھی ان سے محفوظ نہیں اور میڈیا کے بعد سوشل میڈیا پر بھی ٹرمپ نے خوب چڑھائی کی ہے۔ ٹوئٹر پر تو یہ الزام دھر دیا ہے کہ وہ ان کے فالوورز دانستہ کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے، ان کے اکائونٹ کی سرچنگ مشکل بنا رہا ہے۔ دوسری طرف فیس بک کو بھی نہیں بخشا اور باقی بچ گیا گوگل، اس کی سختی تو اس بات پر آئی ہے کہ لفظ احمق (ایڈیٹ) سرچ کرنے پر ٹرمپ کی تصویر کیوں سامنے آجاتی ہے۔ ٹرمپ کے حامی ارکان نے تو اس پر گوگل سربراہ کی طلبی بھی کی ہے، اس پر صدر کو بدنام کرنے کا الزام بھی لگایا ہے، جس پر وہ صفائی دیتے رہ گئے کہ احمق لکھنے پر ٹرمپ کی تصویر آنے کے معاملے میں ان کی کمپنی کا کوئی کردار نہیں، بلکہ یہ خود کار طریقے سے ہوتا ہے۔ صارف جس تصویر کو جس نام سے زیادہ لکھتے یا سرچ کرتے ہیں، سرچ انجن اس کے مطابق اس کی شناخت بناد یتا ہے۔ گویا انہوں نے بتا دیا کہ دنیا میں زیادہ تر لوگ ٹرمپ کو احمق ہی سمجھتے ہیں، حالاں کہ ٹرمپ کی ایک اور شناخت یوٹرن بھی ہے، خاص طور پر جو عالمی رہنما انہیں ان کی زبان میں جواب دے، ٹرمپ اس کے آگے شریف بچے بن جاتے ہیں اور جو دب جائے، اس کا مذاق اڑانے کا موقع جانے نہیں دیتے۔ بھارتی وزیر اعظم مودی جیسے چاپلوس کا مذا ق انہوں نے ایک بار پھر اڑایا ہے، یہ کہہ کر کہ مودی ان سے جب ملتے ہیں، افغانستان میں ایک لائبریری کی تعمیر کی بات فخر سے بتاتے ہیں، حالاں کہ بھارت نے اس پر اتنے پیسے بھی نہیں لگائے ہوں گے، جتنے ہم افغانستان میں تین چار گھنٹوں میں خرچ کر دیتے ہیں۔ دوسری طرف ترک وزیر اعظم رجب طیب اردگان امریکی صدر کو ان کی زبان میں جواب دیتے ہیں، تو ان کے آگے ٹرمپ اب سدھر گئے ہیں، بلکہ اب تو ہمارے وزیر اعظم عمران خان کے معاملے پر بھی ٹرمپ نے یوٹرن لیا ہے، کیوں کہ عمران نے بھی ٹرمپ کو ان کی زبان اور ان کے میڈیم (ٹوئٹر) پر جواب دیا تھا، ایسے جواب ہی ٹرمپ کو سمجھ آتے ہیں۔ ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment