سیاسی سمجھ بوجھ اور دور اندیشی سے یکسر محروم امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے روس کے ساتھ کئے جانے والے تاریخی معاہدے (INF) Intermediat Range Nuclear Forees سے علیحدہ ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ یقینا ٹرمپ کا یہ فیصلہ دنیا بھر میں ایٹمی ہتھیاروں پر کنٹرول رکھنے والے عناصر کے لیے شدید تشویش کا باعث بنا ہے، لیکن ٹرمپ کے لیے یہ ان کی وسیع حکمت عملی کا حصہ ہے، جس پر وہ عمل درآمد کرنے کا تہیہ کر چکے ہیں۔ ٹرمپ کا یہ اعلان روس کے لیے بھی سخت تشویش کا سبب بنا ہے، جس نے ٹرمپ کے اس فیصلے کی مذمت کی ہے۔ کیونکہ ٹرمپ کے اس فیصلے کے بعد نہ صرف ایٹمی ہتھیاروں کی ایک نئی دوڑ شروع ہو جائے گی، بلکہ نئے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاریوں اور ان کے پھیلائو کی راہ بھی ہموار ہو جائے گی۔ واضح رہے کہ INF معاہدے کا اطلاق زمین پر نصب ان ایٹمی میزائلوں پر ہوتا ہے، جن کی رینج 300 کلومیٹر سے 3400 کلو میٹر کے درمیان ہوتی ہے۔
ٹرمپ کے اس غیر متوقع اعلان کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے اور اس فیصلے کا اثرات دیگر معاہدوں پر بھی ظاہر ہوں گے، جبکہ آئندہ اس قسم کے مزید معاہدوں کے لیے بات چیت بھی یقینا متاثر ہوگی، کیونکہ ٹرمپ کا یہ فیصلہ امریکہ کی کریڈبیٹلی کو بھی متاثر کرے گا اور امریکہ پر اعتبار کرنا مشکل ہو جائے گا۔ دسمبر 1987ء میں امریکی صدر رونالڈ ریگن اور سوویت یونین کے سربراہ میخائل گورباچوف نے اس تاریخی معاہدے پر دستخط کئے تھے، لیکن گزشتہ برس کے اواخر میں ڈونالڈ ٹرمپ نے اس تاریخی معاہدے سے نکلنے کا اعلان کیا اور اس کی وجہ روس کی اس معاہدے کی خلاف ورزی بتائی، لیکن ٹرمپ اپنے اس الزام کو کبھی ثابت نہیں کر پائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ روس نے اس معاہدے کی شرائط کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی۔ ٹرمپ نے صرف بہانہ تراشا ہے اور اس کا مقصد دراصل امریکہ کے لیے نئے اور ہلاکت خیز ایٹمی ہتھیاروں کی تیاریاں شروع کرنا ہے۔
واضح رہے کہ امریکہ کے سابق صدر بارک اوباما نے اپنی صدارت کے آخری دنوں میں 1.2 کھرب ڈالرز کی خطیر رقم سے اپنے موجودہ ہتھیاروں کو اپ گریڈ اور Modernized کرنے کا ایک پروگرام طے کیا تھا، جس پر ٹرمپ عمل درآمد کا ارادہ رکھتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے روس پر بے بنیاد الزام لگا کر اس معاہدے سے جان چھڑائی ہے، تاکہ اپنے پروگرام پر عمل درآمد کر سکیں، لیکن امریکہ کا یہ فیصلہ انتہائی تباہ کن نتائج کا حامل ہو گا، جس سے دنیا میں ایٹمی جنگ کے خطرات میں اضافہ ہو جائے گا۔ ٹرمپ نے اسی طرح کا طرز عمل ایران کے ساتھ بھی اختیار کیا تھا، جب مئی 2018ء میں ایران کے ساتھ کئے جانے والے ایٹمی معاہدے سے نکلنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کو اس بات کا اچھی طرح سے ادراک ہے کہ ایران اس معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کررہا اور نہ ہی ایٹمی ہتھیار تیار کررہا ہے۔ اس عالمی معاہدے سے نکلنے کا مقصد ایران پر عائد پابندیوں کو ایک بار پھر سے بحال کرنا ہے، تاکہ ایران میں حکومت کو تبدیل کیا جا سکے۔
ایٹمی ہتھیاروں پر نظر رکھنے والے عالمی ماہرین اب ان خدشات کا اظہار کررہے ہیں کہ امریکہ 1996ء میں کئے جانے والے عالمی معاہدے Comprehensive Test Ban Treety (CTBT) سے بھی نکل سکتا ہے، جس کی موجودگی میں امریکہ ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات نہیں کر سکتا۔ واضح رہے کہ CTBT کے تحت نہ صرف ایٹمی ہتھیاروں کی آزمائش پر پابندی عائد ہے، بلکہ چھوٹی قوت کے (low yield) ہتھیاروں کی تیاریوں اور ڈیولپمنٹ پر بھی پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ اس معاہدے کا مقصد چھوٹے ایٹمی ہتھیاروں اور وارہیڈز کی تیاریوں کو روکنا ہے، تاکہ انہیں شارٹ رینج بیلسٹک میزائلوں پر نصب کرنے کی حوصلہ شکنی کی جاسکے۔ امریکہ کا INF سے نکلنا دنیا کے لیے انتہائی خطرناک ہوگا، کیونکہ اس اقدام کے بعد ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلائو کو روکنے کی کوششوں کو سخت نقصان ہوگا اور 2011ء میں کئے جانے والے معاہدے New Stretegic Arms Reduetion Treaty یا نئے START معاہدے کو بھی نقصان ہوگا، جس کی میعاد 2021ء میں ختم ہو رہی ہے۔ امریکہ کے اس معاہدے سے نکلنے کے بعد اب ایسا کوئی معاہدہ موجود نہیں ہوگا جو دنیا کے ان دوسرے نیوکلیئر ممالک کے پاس موجود ہزاروں ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد اور ان کی ہلاکت خیزی میں اضافے پر کوئی روک لگا سکے۔ حقیقت میں ضرورت اس بات کی تھی کہ 2021ء میں اس معاہدے کے اختتام پذیر ہونے سے قبل ایک نئے اور جامع معاہدے پر بات چیت کی جاتی، تاکہ دنیا کو ایٹمی جنگ کے خطرات سے محفوظ رکھا جاتا۔
1970ء میں سوویت یونین نے نئے انٹرمیڈیٹ رینج میزائلوں کی تنصیب کا کام شروع کیا تھا، جس کے باعث یورپ، ایشیا، مشرقی افریقہ اور امریکی ریاست الاسکا کو خطرات کا سامنا ہوا۔ اس کے جوابی اقدام کے طور پر امریکہ نے بھی جرمنی میں اپنے درمیانی درجے کے سرشنگ2- قسم کے میزائل نصب کر دیئے، جبکہ ان میزائلوں کو چند نیٹو ممالک میں بھی نصب کیا گیا۔ امریکہ کے سرشنگ2- اور سوویت یونین کے SS-20 انٹرمیڈیٹ رینج میزائلوں نے عدم استحکام کی صورت حال کو جنم دیا اور دونوں سپر طاقتوں کے درمیان ایٹمی جنگ کے امکانات بڑھ گئے۔ ان میزائلوں کی سب سے خطرناک بات یہ تھی کہ یہ اپنے اہداف کو محض چھ تا گیارہ منٹ میں نشانہ بنانے کی صلاحیتوں کے حامل تھے۔ چنانچہ کسی بھی طاقت کے پاس ری ایکشن کا وقت بہت کم تھا اور یہ انتہائی شدید قسم کا خطرہ تھا، جس نے امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان ایٹمی جنگ کے خطرات کو کئی گنا بڑھا دیا تھا۔
خوش قسمتی سے اس سنگین خطرے کا ادراک کرتے ہوئے امریکہ اور سوویت یونین کے لیڈروں نے INF Treaty پر اتفاق کیا تاکہ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے امکانات کو کم سے کم کیا جا سکے۔ اس معاہدے کے تحت ہر قسم کے زمین پر نصب کئے جانے والے میزائلوں کو ہدف بنایا گیا اور ان تمام میزائلوں اور ان کے لانچروں کو اس معاہدے میں شامل کیا گیا، جن کا شمار انٹرمیڈیٹ رینج کے حامل میزائلوں میں کیا جاتا تھا۔ 1987ء میں اس معاہدے پر دستخط کئے گئے، جبکہ 1988ء سے یہ معاہدہ نافذ العمل ہوگیا اور اس کے بعد اس معاہدے کے تحت دونوں اطراف کے 2692 عدد میزائلوں verify کر کے یا تو انہیں تلف کیا گیا یا پھر انہیں ہٹا دیا گیا۔ 2011ء میں اس معاہدے کو ایک نیا روپ دے کر START کا نام دیا گیا اور اسے مزید دس برس کے لیے نافذ العمل کر دیا گیا اور یہ 2021ء میں اختتام پذیر ہوگا، لیکن ٹرمپ نے اب اس معاہدے میں مزید شامل نہ رہنے کا اعلان کیا ہے، جس کے تحت امریکہ 2021ء کے بعد اس معاہدے سے نکل جائے گا۔
زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس معاہدے کے اختتام پذیر ہونے سے قبل ایک نئے معاہدے پر امریکہ اور روس کے درمیان مذاکرات وقت کی ضرورت تھی، مگر امریکی سینیٹر ٹام کاٹن اور رکن کانگریس لزچینی نے ایک بل کا مسودہ منظوری کے لیے پیش کیا ہے، جس میں START معاہدے سے امریکہ کے نکلنے کی بات کی گئی ہے۔ بل میں کہا گیا ہے کہ روس کی جارحیت کو روکنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ امریکہ START میں مزید شمولیت اختیار نہ کرے اور اس معاہدے سے نکل جائے۔ واضح رہے کہ NEW START کے تحت امریکہ اور روس کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ 1550 عدد سے زیادہ اسٹرٹیجک ایٹمی وار ہیڈز یا ایٹمی ہتھیار اور 700 سے زیادہ اسٹرٹیجک ڈیلوری وہیکلز سے زیادہ زیراستعمال نہ رکھیں۔ اس معاہدے کی مدت فروری 2021ء میں ختم ہوگی، لیکن اس میں پانچ برس کی توسیع کی گنجائش بھی موجود ہے، لیکن امریکہ نے اب اس معاہدے سے نکلنے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے۔
ٹرمپ نے اس معاہدے سے نکلنے کے لیے روس پر جو الزامات عائد کئے ہیں، وہ بے بنیاد ہیں اور ان کی تصدیق کے لیے ٹرمپ نے کوئی شہادت یا ثبوت بھی پیش نہیں کیا۔ اصل میں ٹرمپ نے اپریل 2018ء میں روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی اس تقریر کو بہانہ بنایا ہے، جس میں انہوں نے روس کے نئے اسٹرٹیجک ایٹمی ہتھیاروں کا ذکر کیا تھا اور کہا تھا کہ امریکہ کا میزائل ڈیفنس ان روسی ہتھیاروں کو روکنے کی قطعاً صلاحیت نہیں رکھتا۔ حقیقت یہ ہے کہ روس نے اس معاہدے کی قطعاً کوئی خلاف ورزی نہیں کی۔ مثال کے طور پر روسی صدر نے جس Sarmat ICBM کا تذکرہ کیا ہے، یہ تو پرانے روسی Voevoda-KBM کی جگہ روسی فوج کے حوالے کیا جائے گا، جس کو پہلے ہی START میں شامل کیا جا چکا ہے اور Sarmat کوئی نیا میزائل نہیں ہے۔ اسی طرح روسی Kh-101 فضا سے زمین پر مار کرنے والا میزائل بھی اس معاہدے کی خلاف ورزی نہیں ہے، کیونکہ نہ تو یہ کوئی اسٹرٹیجک میزائل ہے اور نہ ہی اس کا شمار کسی ڈیلیور وہیکل میں کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح روس کی Avengard گلائیڈ وہیکل بھی اس معاہدے کی قطعاً کوئی خلاف ورزی نہیں ہے، کیونکہ ان کو Sarmat یا کسی دوسرے میزائل پر نصب کر کے استعمال کیا جائے گا یا پھر اس کو کسی کیریئر پر نصب کر کے استعمال کیا جائے گا اور نہ ہی اس کا شمار ہیوی میزائل میں ہوتا ہے۔ بنیادی طور پر Aveagard نہ تو کوئی بیلسٹک میزائل ہے اور نہ ہی بمبار۔ چنانچہ اس کا استعمال کسی بھی طرح سے معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کہا جا سکتا۔
حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ جس انداز میں بلاسوچے سمجھے اہم نوعیت کے فیصلے کررہے ہیں، ان سے دنیا بھر میں امریکی ساکھ اور اس کی شہرت کو تو نقصان پہنچ ہی رہا ہے، لیکن ان ناعاقبت اندیشانہ فیصلوں کے باعث عالمی امن و استحکام بھی بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ سرد جنگ کے دنوں میں اس معاہدے نے امریکہ اور سوویت یونین کو ایک دوسرے کے خلاف ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال سے نہ صرف باز رکھا، بلکہ دونوں سپر پاورز کے درمیان ایک توازن بھی قائم رکھا۔ ٹرمپ کے موجودہ فیصلے کے بعد نہ صرف دنیا بھر میں امن و استحکام بری طرح متاثر ہوگا، بلکہ امریکہ اور روس کے درمیان ایٹمی ہتھیاروں کی نہ ختم ہونے والی دوڑ شروع ہو جائے گی، بلکہ ایٹمی تصادم کے خطرات بھی بڑھ جائیں گے۔