سیلانی کے سیل نمبر پر جب چوتھی بار ایک ہی نمبر سے کال آئی تو سیلانی کال وصول کرنے پر مجبور ہو ہی گیا۔ اس نے آس پاس بیٹھے نوجوانوں سے معذرت مانگی اور سیل فون کان سے لگا لیا:
’’السلام علیکم‘‘
’’سیلانی بھائی! وعلیکم اسلام، مجھے آپ سے بڑی ضروری بات کرنی ہے، مجھے پانچ منٹ چاہئے۔‘‘
’’آپ پانچ کیا پچاس منٹ لے لینا، بس مجھے پانچ منٹ دے دو۔‘‘
’’اوکے، میں پانچ منٹ بعد کال کرتا ہوں۔‘‘
’’بالکل ٹھیک۔‘‘ سیلانی نے لائن کاٹی اور اسلام آباد کی ٹھٹھرتی ہوئی شام میں فکری انگیٹھی سلگائے بیٹھے نوجوان کی جانب متوجہ ہو گیا۔ نوجوان کہنے لگا: ’’Look Guys ! میرا کہنا صرف یہ ہے کہ پاکستان کو انسانستان بنانا ہے، یہ پتھر اور گھوڑوں کا دور نہیں ہے، یہ نیوز کا دور ہے، روشنی کی سی رفتار سے اطلاعات یہاں سے وہاں سفر کرتی ہیں اور اپنے اثرات مرتب کرتی ہیں، اس دور میں ہم انسانوں کو ان کے بنیادی حقوق دیئے بنا رہ ہی نہیں سکتے، ہم کیسے اپنے آس پاس کے ماحول کو چھپا کر جی سکتے ہیں؟ دیکھیں انڈیا ہمارے ساتھ ہی آزاد ہوا تھا، لیکن وہ کہاں اور ہم کہاں؟ صرف اور صرف سیکولرزم کی وجہ سے آج بھارت کی دنیا میں عزت ہے، وہاں ہم سے زیادہ مذاہب اور قومیں ہیں، لیکن…‘‘
’’ایکسکیوز می‘‘ سیلانی نے باریش سیکولر مبلغ کی بات کاٹ ڈالی۔
’’جناب عالی! بھارت کا سیکولرازم وہاں سے شروع ہوتا ہے، جہاں سے براہمن چاہتا ہے اور وہاں ختم ہوتا ہے، جہاں سے دیگر قومیتوں کی چاہ شروع ہوتی ہے، ابھی ہفتہ بھر پہلے کی خبر ہے، وہاں مسلمانوں کو میدانوں میں نماز جمعہ کی ادائیگی سے روک دیا گیا ہے، ابھی حال ہی میں Noida پولیس نے باقاعدہ حکمنامہ جاری کیا ہے۔‘‘
’’تو اس میں غلط کیا ہے؟ عبادت، عبادت گاہوں میں ہونی چاہئے۔‘‘
’’اور یہ اصول سب کے لئے ہونا چاہئے، لیکن آپ ہندو وشوا پریشد کو پارکوں، کھیلوں کے میدانوں میں اجتماع کرنے کی اجازت دیتے ہیں، مسئلہ صرف مسلمانوں کی نماز سے ہوتا ہے، یہ میں نہیں بھارتی سپریم کورٹ کے سابق جج مارکنڈے کاٹجو کا کہنا ہے اور دوسری بات گاندھی جی کہا کرتے تھے ناں، مسلمان میری ایک اور ہندو میری دوسری آنکھ ہیں، کانگریس سیکولرازم کی داعی تھی، لیکن مسلمانوں نے گاندھی جی، کانگریس اور سیکولرازم کو مسترد کیا، ان کی رائے کا احترام ہونا چاہئے؟‘‘
بحث جاری تھی کہ دوبارہ اسی نمبر سے کال آگئی۔ سیلانی معذرت چاہ کر اٹھ آیا۔ ویسے بھی اس کا کام پورا ہو چکا تھا۔ اس نے بزعم خود چی گویرا بننے والے کی چھاتیوں پر سوالیہ نشان ڈال دیا تھا۔
اسلام آباد بظاہر خاموش شہر ہے، لیکن اس کی خاموشیوں میں بڑا شور چھپا ہوا ہے۔ معروف نیوز اینکر منیب احمد قریشی نے ایک بار سیلانی سے ملاقات میں اسلام آباد کو فتنوں اور سازشوں کی زمین قرار دیا تھا اور اب سیلانی کو لگ رہا ہے کہ ایسا کچھ غلط بھی نہیں ہے۔ اسلام آباد میں اسلام کے خلاف بولنا کسی مراثی کو گالی دینے سے بھی زیادہ آسان ہے۔ وہ اس سرد مزاج شہر کی سرد رات میں جناح سپر مارکیٹ میں ایک دوست کے ساتھ تندوری چائے پی رہا تھا۔ اس کے بازو میں سجی محفل میں ایک باریش نوجوان بالوں کا جوڑا بنائے انگلیوں کے بیچ میں سگریٹ جمائے فکری قلابازیاں لگا رہا تھا۔ سیلانی سے جب تک برداشت ہوتا رہا، اس نے کیا اور جب برداشت نے ہاتھ جوڑ لئے تو وہ معذرت کرکے ان کے حلقے میں بیٹھنے کی اجازات لے کر آبیٹھا اور پھر جب سیلانی نے ریکارڈ درست کرنا شروع کیا تو وہاں بیٹھے چی گویرا کی خوش دلی کی جگہ تنک مزاجی نے لے لی۔ سیلانی نے تو ابھی اس محفل کا رنگ مزید دو بالا کرنا تھا اگر کراچی سے بلوچ نوجوان کی کال نہ آجاتی۔
’’جی میرے بھائی!‘‘ سیلانی نے ایک طرف ہو کر نرمی سے کہا۔
’’سیلانی بھائی! آپ کو پتہ ہے سعید آباد پولیس ٹریننگ سینٹر میں کیا ہوا ہے؟‘‘
’’نہیں یار، مجھے علم نہیں۔‘‘
’’سیلانی بھائی! ادھر بلوچستان پولیس نے اپنے رنگروٹ ادھر ٹریننگ کے لئے بھیجے ہیں، ان میں میرے کزن بھی ہیں۔ کل ان کے ساتھ بڑی زیادتی ہوئی، انہیں بری طرح مارا گیا، گالیاں دی گئیں، معاملہ بڑا حساس ہے، ان میں بی ایل والے بھی ہیں، جو ہتھیار پھینک کر آئے ہیں، آپ ان کے ساتھ ایسا کرو گے تو وہ کیا سوچیں گے۔‘‘
’’مگر ایسا ہوا کیوں؟‘‘
’’سیلانی بھائی! میں آپ کو اپنے کزن کا نمبر دیتا ہوں، اسے میرا نام لے کر بات کرنا، وہ سب بتا دے گا، آپ پھر اس مسئلے پر لازمی لکھنا، یہ بہت حساس معاملہ ہے۔‘‘ اس نوجوان نے اپنا نام بتایا اور سیلانی کو ایک نمبر ایس ایم ایس کر دیا۔ سیلانی نے گھڑی میں وقت دیکھا، آٹھ بج رہے تھے۔ اس وقت اسلام آباد میں اچھی خاصی رات ہو چکی ہوتی ہے، لیکن کراچی میں یہ وقت تو سمجھیں کہ دن ہی میں شمار ہوتا ہے۔ سیلانی نے وہ نمبر ڈائل کیا اور ہیلو کی آواز پر اس کے کزن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ’’مجھے آپ کے کزن نے بتایا کہ آپ کسی مشکل میں ہو۔‘‘
’’سر! ہم بلوچستان پولیس میں بھرتی ہوا اور ہم کو ادھر سعید آباد پولیس ٹریننگ سینٹر کراچی میں ٹریننگ کے لئے بھیج دیا، ہم کوئی ساڑھے تین سو لڑکا ہے، ان میں پنجگور، لسبیلہ، تربت، کوئٹہ کا لڑکا ہے، ہم ادھر ٹریننگ کے لئے آگیا، ہم کو ان لوگوں نے وصول کیا، بیرک میں رہنے کو جگہ دیا، سب ٹھیک تھا، کل رات کو ہم سے کہا کہ صاحب بیرک کا معائنہ کرے گا، سب صاف ستھرا رکھ کر باہر آجاؤ، ہم نے صاف ماف کیا، پھر دیکھا کہ ڈرل انسٹرکٹر ہیڈکانسٹیبل شیر جنگ اور راشد ایک پرائیویٹ شخص کے ساتھ آیا اور ہم کو لین میںکھڑا کر کے غصہ کرنے لگا، غصہ کیا تھا، گالی دے رہا تھا کہ یہ بلوچستان نہیں کراچی ہے، ہم ایسا کر دے گا اور ویسا کر دے گا، پھر اس نے ہم کو میدان میں ڈڈو چال چلایا، ہمارا تو ٹانگوں سے جان نکل گیا۔ ہم کو اب تک سمجھ نہیں آیا کہ ایسا کیا غلط ہوا۔‘‘
جیل اور ٹریننگ سینٹر میں نئے آنے والوں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے، انہیں اتنا دبا دیا جاتا ہے کہ جو بھی کہا جائے، وہ چپ چاپ مان لیتے ہیں، پیسے مانگیں پیسے دیتے ہیں، خدمت کا بولو خدمت کرتے ہیں۔‘‘ سیلانی نے کہا۔
’’صاحب! پھر اس نے ہم کو لوہے کا پائپ ہوتا ہے ناں، اس سے مارنا شروع کر دیا اور مار مار کر ایک کمرے میں بند کر دیا۔ ادھر اتنا حبس تھا کہ ہمارا دم نکلنے لگا، کتنا لڑکا تو بے ہوش ہوگیا، یہ دیکھ کر دروازہ بجایا، شور مچایا کہ صاحب لڑکا مر جائے گا، دروازہ کھولو۔‘‘
’’کمرے میں کتنا لڑکا تھا؟‘‘
’’بخدا نہیں پتہ، لیکن بڑا سال ہال جیسا کمرا تھا، وہ بالکل فل بھر گیا، ہم سے سانس نہیں لیا جا رہا تھا، خیر شور مچانے پر انہوں نے ہمیں نکالا تو ہماری جان میں جان آیا۔‘‘
سیلانی بلوچ رنگروٹ کی کہانی لے کر وہیں سے سعید آباد ٹریننگ سینٹر میں تعینات ایک دوست افسر کو فون کیا اور رسمی گفتگو کے بعد پوچھنے لگا: ’’یہ بلوچ لڑکوں کے ساتھ کیا ہوا ہے؟‘‘
’’ہمم یعنی خبر مل گئی؟‘‘
’’خبر کب چھپتی ہے جی، یہ بتائیں کہانی کیا ہے؟‘‘
’’بھائی! سمجھ نہیں آیا، یہ تو ہمیں بھی صبح پتہ چلا، جب رنگروٹوں کو لنگڑاتے ہوئے دیکھا، پوچھا تو بتایا کہ رات ان کے ساتھ یہ سب ہوا ہے، ان دونوں نے بڑی زیادتی کی، لڑکوں نے بتایا کہ انہیں گالیاں دی گئیں، نامناسب نسلی جملے کہے گئے۔‘‘
’’وجہ کیا تھی؟‘‘
’’یہ تو انکوائری ہو تو پتہ چلے اور انکوائری کیسے ہو؟ صاحب تک بات پہنچے تو وہ ایکشن لیں، اب بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟‘‘
’’ہم باندھ دیتے ہیں، یہ کون سا مشکل کام ہے؟‘‘ سیلانی نے یہ کہہ کر خدا حافظ کہا اور پولیس ٹریننگ سینٹر کے پرنسپل عرفان بلوچ کا نمبر ڈائل کرنے لگا۔ معاملہ خاصا حساس نوعیت کا تھا۔ ان رنگروٹوں میں ہتھیار ڈالنے والے بلوچ نوجوان چٹے ان پڑھ ہیں، لیکن حکومت نے انہیں ہتھیار ڈالنے کے بعد باعزت زندگی گزارنے کا موقع دیا، ان کے ساتھ اس طرح کا سلوک بہت سارے مسائل کو جنم دے سکتا ہے۔ سیلانی عرفان بلوچ صاحب کو کال کرنے لگا۔ ان کا سیل نمبر بند جا رہا تھا۔ سیلانی نے کئی مرتبہ ان کا نمبر ڈائل کیا، لیکن فون بند ہی ملا، جس کے بعد سیلانی ٹھنڈی سانس بھر کر دوبارہ تندوری چائے خانے کے موہڑے پر دوست کے ساتھ بیٹھ گیا اور ٹھنڈی ہو جانے والی چائے کی چسکی لے کر اٹھ کھڑا ہوا۔ ٹھنڈی چائے سے بدمزہ شے شاید ہی کوئی ہوتی ہو۔ سیلانی نے ویٹر کو ادائیگی کی، اس کے دوست نے اسے گھر اتارا اور ہاتھ ہلاتا ہوا چلا گیا۔ سیلانی گھر میں داخل ہوا، جہاں بچہ پارٹی کے ہنگاموں نے سب کچھ ذہن سے ایسا محو کیا کہ سیلانی بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنا بھول کر تھکن اور لحاف اوڑھ کر سو گیا اور پھر صبح جو ہوئی تو امت اخبار یہ کام کر چکا تھا۔ روزنامہ امت کے رپورٹر عمران خان کی اسی اشو پر ایکسکلوزو اسٹوری سامنے تھی، جس میں دو متعلقہ اہلکاروں کی معطلی کی خبر بھی شامل تھی… گھنٹی بج گئی تھی۔ دونوں اہلکار معطل ہوگئے تھے، لیکن صرف معطلی ناکافی تھی، ایسے نسل پرست انسٹرکٹر کو کم از کم کسی تربیت گاہ میں نہیں ہونا چاہئے۔ سیلانی یہ سوچتا ہوا ہاتھ میں پکڑا اخبار دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔
٭