جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے چوبیس گھنٹوں کے دوران پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سے دو مرتبہ ملاقات کی ہے۔ انہوں نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کو کچھ چھوٹے موٹے اختلافات ختم کر کے قریب آنے کی ضرورت پر زور دیا۔ ان کا خیال ہے کہ موجودہ صورت حال میں اپوزیشن جماعتوں کو تمام گلے شکوے دور کرکے متفقہ طور پر حکمت عملی بنانی چاہیے۔ انہوں نے حزب اختلاف کی جماعتوں کے خلاف کارروائیوں پر اظہار تشویش کیا۔ دوسری جانب آصف علی زرداری کے ترجمان کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمن سے ملاقات میں نواز شریف کا کوئی ذکر نہیں آیا۔ باخبر ذرائع اور سیاسی مبصرین کے مطابق مولانا فضل الرحمن کی سرتوڑ کوشش ہے کہ آصف علی زرداری اور نواز شریف کو ایک دوسرے سے ملاقات پر راضی کیا جائے۔ وہ بزعم خود ان دونوں کے درمیان پل کا کردار ادا کررہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کا کردار پاکستان کی سیاست میں ہمیشہ مشکوک رہا ہے۔ وہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور مسلم لیگ کے قائد میاں نواز شریف سے یکساں دوستی کے دعوے کرتے ہیں۔ دونوں کی حکومتوں کے دور میں انہوں نے بھرپور سیاسی و مالی فوائد سمیٹے اور کشمیر کمیٹی کے چیئرمین رہے۔ مولانا کی دونوں ہاتھوں میں لڈو رکھنے کی خواہش اور کوششیں 2018ء کے انتخابات سے قبل تک کامیاب رہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ دونوں کی سیاست موروثی اور خاندانی ہونے کے باعث وہ خود بھی ایک دوسرے کی ضرورت رہیں۔ انہوں نے حکومت اور اپوزیشن میں رہتے ہوئے ہر صورت باہمی مفادات کا خیال رکھا۔ تمام تر ظاہری اختلافات، زبانی تنقید اور الزام تراشی کے باوجود انہوں نے آپس میں کسی کو مالی نقصان نہیں پہنچنے دیا۔ مولانا فضل الرحمن ان کے درمیان پل کا کردار ادا کرتے ہوئے اپنے آپ کو کسی قسم کی اختلافی یا انتقامی کارروائی سے محفوظ رکھ کر مال و مناصب حاصل کرتے رہے تو ملک کے مروجہ سیاسی نظام میں ان کی سیاست کو کامیاب قرار دیا گیا۔ 2018ء کے عام انتخابات میں اپنی شکست کے بعد انہیں اتنا بڑا سیاسی دھچکا پہنچا کہ اپنی جماعت کے کامیاب امیدواروں کو بھی یہ کہہ کر اسمبلیوں میں بیٹھنے سے منع کر دیا کہ الیکشن میں زبردست دھاندلی ہوئی ہے اور ہم اس کے نتائج کو تسلیم نہیں کرتے۔ لیکن بعد میں نفع نقصان کا حساب کیا اور سیانوں نے سمجھایا تو انہیں طوعاً کرہاً اسمبلیوں کو تسلیم کرنا پڑا۔ اب بھی ان کا یہی خیال ہے کہ عمران خان کی حکومت منتخب نہیں، بلکہ جعلی مینڈیٹ رکھتی ہے اور اپوزیشن کے عدم اتفاق سے سب متاثر ہو رہے ہیں۔ مولانا موصوف نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ زرداری صاحب تیار ہوتے ہیں تو مسلم لیگ تیار نہیں ہوتی اور وہ آمادہ ہوتی ہے تو زرداری صاحب پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ انہیں یہ بھی شکایت ہے کہ اپوزیشن کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔ حالانکہ ملکی سیاست کی موجودہ اور معروضی صورت حال یہ ہے کہ اپوزیشن کو دیوار سے لگانے والا کوئی نہیں۔ دونوں بڑی پارٹیوں کے رہنمائوں کی خاندانی لوٹ مار ہی انہیں لے ڈوبی ہے تو کسی اور کا کیا مذکور؟ کہا جاسکتا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے نصیب اچھے تھے کہ انہیں نہایت بد عنوان سیاستدانوں کی کمزور اپوزیشن ملی، جبکہ اپوزیشن کی قسمت بھی اس معنی میں اچھی قرار دی جا سکتی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت چار ماہ کے دوران ہی ٹھس ہوتی نظر آرہی ہے۔ ملکی معیشت کا برا حال ہے۔ حکومت کی سمت واضح تو کیا ہوتی، اس کی سرے سے کوئی سمت ہی نہیں ہے۔ جو حکومت یو ٹرن کو اپنی پالیسی کا بنیادی جز اور کامیابی کا گر قرار دے، ملک و قوم کے حق میں اس سے راہِ راست پر چلنے کی توقعات وابستہ نہیں کی جاسکتیں۔ حکومت اقتصادی صورتحال کو ایک طرف خود ہی بگاڑ رہی ہے تو دوسری جانب اسے سدھارنے کی کوشش میں بقول مولانا فضل الرحمن بھیک مانگ مانگ کر حکمرانوں کے منہ ٹیڑھے ہوگئے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کی پوزیشن اچھی اور بُری ہونے سے قطع نظر، اہل وطن کی اصل تشویش یہ ہے کہ آگے کیا ہوگا؟ سیاسی ستارہ شناسوں کے مطابق عمران خان کی حکومت پانچ سال پورے کرتی نظر نہیں آتی۔ لیکن اپوزیشن میں بھی کوئی دم خم دکھائی نہیں دیتا۔ اس کی اکثر پارٹیاں اپنے سابقہ اعمال کے لحاظ سے موجودہ سیاست میں صفر کی حیثیت اختیار کر چکی ہیں۔ اصولِ ریاضی کے مطابق دو چار یا درجن دو درجن نہیں، لاتعداد زیرو بھی جمع ہو جائیں تو اس کا حاصل صفر ہی کی صورت میں آئے گا… اب کوئی لانگ مارچ کامیاب ہوتا نظر آتا ہے نہ ملین مارچ۔ مولانا فضل الرحمن کے یہ الفاظ حسرت و یاس کا اظہار ہیں یا سیاسی پیش گوئی کہ کیا ہمیں اکٹھے ہونے کے لئے اس وقت کا انتظار ہے، جب ہم سب جیل میں ہوں گے؟ حکومت ہو یا اپوزیشن، ان میں حب الوطنی کا جذبہ ہو تو آج بھی ہر جگہ رہ کر ملک اور قوم کی خدمت کی جا سکتی ہے۔
سائنسی نظریات یا خرافات؟
بھارت کے شہر جالندھر میں ہونے والی ایک سو آٹھویں سائنس کانگریس کے موقع پر نامور بھارتی سائنسدانوں نے اپنے چٹکلوں میں سیاستدانوں اور مسخروں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ انہوں نے کئی سائنسی ایجادات اور نظریات کا تعلق ہندو دھرم کے قدیم کرداروں سے جوڑتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے اصل خالق ہندوئوں کے دیوی دیوتا تھے۔ آئن اسٹائن اور نیوٹن کے نظریات غلط قرار دے کر انہوں نے پیش گوئی کی ہے کہ جدید طبیعات (فزکس) بالآخر تباہ ہوکر رہے گی۔ ثقلی لہروں کا نیا نام نریندر امودی لہریں اور لیزنگ ایفیکٹ کا نام ہرش وردھان ایفیکٹ ہوگا۔ بھارتی سائنسدانوں نے یہ مضحکہ خیز دعوے بھی کئے کہ رام اور کرشنا گائیڈڈ میزائل استعمال کیا کرتے تھے۔ کورو بادشاہ کی اولاد کورواس، اسٹیم سیل اور ٹیسٹ ٹیوب ٹیکنالوجی سے پیدا ہوئی۔ ہندو دھرم کے ایک اوتار دشواترا ڈارون کی تھیوری سے پہلے موجود تھے۔ راون کے پاس مختلف شکلوں اور جسامت کے کئی جہاز تھے۔ وغیرہ وغیرہ۔ حیرت ہے کہ سیاستدانوں کے بعد بھارتی سائنسدان بھی انتہا پسندی کے جنون میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ ان کے تازہ خیالات اور تصورات کو خرافات کے سوا اور کیا نام دیا جا سکتا ہے؟