حکومت اور اپوزیشن میں مفاہمت؟

کیا حکومت اور شریف خاندان کے مابین این آر او ہونے والا ہے؟ ہمیں معلوم ہے کہ عنوان دیکھ کر ہی تحریک انصاف سے وابستہ احباب سخت تیش میں آجائیں گے، لیکن درخواست ہے کہ براہ کرم تبرہ پڑھنے سے پہلے اسے آخر تک پڑھ ضرور لیجئے۔
بقول انصار عباسی حکومتی کارکردگی سے اب ’’وہ‘‘ بھی پریشان ہیں اور یہ بات ہے بھی سچ کہ دوست ملکوں کی جانب سے اعانت کے باوجود ملکی معیشت میں بہتری کے آثار نہیں۔ پیار و محبت کے دعوے ایک طرف، دوستوں کی جانب سے یہ سارے تحفے سودی قرض ہیں۔ ہمارا چینی سے میٹھا دوست 8 فیصد اور خلیجی مسلم برادران ڈیڑھ سے ڈھائی فیصد شرح سود پر ’’امداد‘‘ فراہم کررہے ہیں۔ ایف بی آر کی جانب سے محصولات کے اعداد و شمار مایوس کن ہیں اور برآمدات میں اضافے کے کوئی آثار نہیں۔
مقتدر حلقوں کیلئے اس سے زیادہ پریشان کن بات فواد چودھری، فیصل واوڈا اور فیاض الحسن چوہان کی آتشیں زبانیں ہیں، جس نے سیاسی ٹمپریچر کو عدم استحکام کی حد تک بڑھا دیا ہے۔ زرمبادلہ کے تیزی سے سکڑتے ذخائر میں اضافے کیلئے ملکی صنعت کو فروغ دینے کی ضروت ہے، تاکہ اشیائے ضرورت کے باب میں درآمدات پر انحصار کم ہو اور عمدہ معیار کی برآمدات کے ذریعے قیمتی زرمبادلہ کمایا جا سکے۔
کاروباری سرگرمیوں میں اضافے اور صنعت کے فروغ کیلئے سیاسی و انتظامی استحکام ضروری ہے اور بیان بازی کے جھکڑ میں سیاسی مفاہمت و یگانگت کے چراغ روشن رکھنا ممکن نظر نہیں آرہا۔
دوسری طرف شریف خاندان کے اعصاب بھی جواب دے رہے ہیں۔ بڑے بھائی کو سزا ہو چکی ہے۔ چھوٹے میاں کے گرد شکنجہ تنگ ہے۔ بڑے میاں کی گردن میں پڑے سریے نے انہیں سیاسی میدان میں یکا و تنہا کر دیا ہے اور ان کے حق میں تحریک چلانا تو دور کی بات، یار لوگ جیل جا کر ملاقات کے روادار بھی نہیں کہ میاں صاحب اچھے وقتوں میں کبھی بھی میں، میرا، مجھے اور مجھ کو سے آگے نہ بڑھے۔ ذات کے گرد گھومتی قیادت کا شاخسانہ ہے کہ سیاسی ہم عصر بھی ان پر بھروسہ نہیں کرتے اور مولانا فضل الرحمان کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود زرداری میاں صاحب پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔
دوسری طرف زرداری خاندان کے گرد بھی گھیرا تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک تو موجود ہے، لیکن انتہائی خراب کارکردگی کی بنا پر بھٹو کے طفیل سندھ کے عوام زرداری خاندان کو محض برداشت کر رہے ہیں اور آزمائش کی صورت میں وہ سڑکوں پر نہیں آئیں گے۔ چنانچہ تندو تیز تقریروں اور مزاحمت کے بلند و بانگ دعوئوں کے ساتھ بلاول ہائوس بھی مفاہمت کے سگنل نشر کر رہا ہے۔
مطلب عمران خان، نواز شریف اور زرداری تینوں ہی دبائو میں ہیں۔ اس ضمن میں سب سے بڑی آزمائش عمران خان کی ہے کہ انہوں نے اپنے حامیوں کی توقعات کو آسمان پر پہنچایا ہوا ہے اور لوگ ان سے معجزوں کی امید لگائے بیٹھے ہیں، جبکہ یہ بات اب خان صاحب کو سمجھ آگئی ہے کہ 2019ء ایک انتہائی مشکل سال ہوگا۔ شاید اسی لئے مقتدرہ بھی انہیں اپنے رویئے میں لچک کا مشورہ دے رہی ہے۔
مشکلات اور فکر ہائے دور دراز میں غلطاں و پیچاں تینوں فریق اپنی انا کے گنبد سے نکلنے کیلئے موقع اور تقریب بہرِ ملاقات کی تلاش میں ہیں۔ اگرچہ خان صاحب کے عقاب اب بھی ڈٹے رہو اور اڑے رہو کی تلقین کررہے ہیں، لیکن عمران خان کو اندازہ ہوگیا ہے کہ بند گلی سے نکلے بغیر معاملات کو سلجھانا ممکن نہیں۔ معیشت کی بہتری خان صاحب کیلئے سیاسی زندگی و موت کا سوال ہے۔
مستقبل میں حالات کی جو صورت گری نظر آرہی ہے، اس کے مطابق:
٭… سیاسی ٹمپریچر کم کرنے کیلئے سنسنی خیز بیانات اور الزامات کو محدود کردیا جائے گا۔
٭… نیب احتساب کا عمل جاری رکھے گا، لیکن حکومتی ترجمان کی جانب سے تبصروں کی حوصلہ شکنی کی جائے گی۔
٭… دوسری طرف شہباز شریف قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی (PAC) سے ’’خرابیٔ صحت‘‘ کی بنیاد پر مستعفی ہوجائیں گے اور جوابی خیر سگالی کے طور پر حکومت علاج کی غرض سے ان کے غیر ملک جانے پر کوئی اعتراض نہیں کرے گی۔
٭… اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی سزا معطلی کی درخواست سماعت کیلئے منظور کرلی ہے۔ اب سرکاری وکیل عدالت میں جارحانہ رویہ اختیار نہیں کریں گے اور ضمانت پر رہائی کی بس اسی حد تک مخالفت کی جائے گی کہ موذیوں کا منہ بند رہے۔
٭… کل بینکنگ کورٹ میں آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کی ضمانت کی توسیع کی حکومت کی جانب سے عدم مخالفت پیپلز پارٹی سے خیر سگالی کا اظہار ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment