ترک صدر طیب رجب اردگان نے دورے پر آئے امریکی صدر کے مشیرِ قومی سلامتی جان بولٹن سے ملنے سے انکار کر دیا۔ بعض ترک صحافیوں نے اسے عثمانی طمانچہ قرار دیا ہے۔ اردگان پر ’’الزام‘‘ ہے کہ وہ عثمانی خلافت کی تجدید و احیا چاہتے ہیں۔
اس عثمانی جلال کا ظہور مسٹر بولٹن کی وہ لن ترانیاں ہیں، جو موصوف نے اپنے دورئہ اسرائیل میں فرمائیں۔ صدر ٹرمپ نے شام سے فوجی انخلا کا جو اعلان کیا ہے، اس پر اسرائیل اور امریکہ کے خلیجی اتحادیوں کو شدید تشویش ہے۔ بولٹن کے دورے میں اسرائیلی وزیر اعظم نے انخلا کے فیصلے پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جلد بازی کے نتیجے میں یہاں ایران کا عسکری اثر و رسوخ مزید بڑھ جائے گا۔ نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ امریکی فوج کی واپسی سے تہران کو کھل کھیلنے کا موقع ملے گا۔
اسرائیل کی تشفی کیلئے جان بولٹن نے انہیں یقین دلایا کہ امریکہ کے فوجی انخلا سے پہلے اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ ایران اس سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ داعش کی مکمل شکست کے بعد ہی شام سے امریکی فوجوں کی واپسی شروع ہوگی۔ اسی دوران جان بولٹن یہ بھی کہہ گئے کہ انخلا سے پہلے ترکی سے کرد چھاپہ ماروں کے تحفظ کی ضمانت لی جائے گی۔
اس بیان پر اردگان سخت طیش میں آگئے اور انہوں نے کہا کہ ترکی کیلئے سب سے اہم اپنی قومی سلامتی ہے اور دہشت گردوں کا تحفظ امریکہ ہی کو مبارک ہو۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کی شام میں موجودگی ان دونوں ملکوں کا معاملہ ہے، لیکن ہم اپنی سرحدوں کے قریب دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے نہیں رہنے دیں گے۔ ہمارے لئے داعش اورYPG (کرد دہشت گرد تنظیم) میں کوئی فرق نہیں۔
جناب اردگان نے اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے ترکی کے دورے پر آئے جان بولٹن سے ملاقات سے انکار کر دیا اور امریکہ کا مؤقف جاننے کیلئے اپنے ترجمان ابرہیم کالن کو ملاقات کیلئے بھیجا۔ دورے کے اختتام پر نہ صرف مشترکہ پریس کانفرنس منسوخ کر دی گئی، بلکہ وزارت خارجہ نے کوئی رسمی اعلامیہ بھی جاری نہیں کیا۔ جان بولٹن ایک انتہائی مغرور اور بدزبان سفارت کار ہیں، لیکن جب سے انہوں نے موجودہ ذمہ داری سنبھالی ہے، وہ باربار توہین کا نشانہ بن رہے ہیں۔ اس سے پہلے شمالی کوریا کی وزرات خارجہ نے توہین آمیز تبصرے پر مسٹر بولٹن کی زور دار کلاس لی اور شمالی کوریا کے وزیر خارجہ نے ان سے ملنے سے انکار کردیا۔ اب ترکی نے بھی انہیں ان کی حیثیت یاد دلا دی۔
اسرائیل کا بائیکاٹ کرنے والوں کا بائیکاٹ:
چند روز قبل ہم نے ہانگ کانگ شنگھائی بینکنک کارپوریشن المعروف HSBC کی جانب سے اسرائیلی اسلحہ ساز کمپنی Elbit Systems میں لگے اپنے سرمائے کو نکالنے اور اسرائیلی اداروں سے مالی معاونت ختم کرنے کا ذکر کیا تھا۔ جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ دنیا بھر میں انسانی حقوق کی تنظیمیں اسرائیل میں سرمایہ کاری ختم کرنے اور اس پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کیلئے تجارتی و مالیاتی اداروں پر زور دے رہی ہیں۔ اس سلسلے میںBoycott, Divestment and Sanction (BDS) کے نام سے ایک فورم قائم کیا گیا ہے۔ امریکہ کی جامعات میں بھی BDSکی شاخیں ہیں، جس کی کوششوں سے امریکہ کے ایک موقر ترین تعلیمی ادارے جامعہ کیلی فورنیا برکلے نے اپنے وقف کی سرمایہ کاری اسرائیل سے ختم کر دی ہے۔
HSBC کی جانب سے BDS پروگرام کی حمایت پر امریکہ کے اسرائیل نواز عناصر سخت غصے میں ہیں اور فلوریڈا (Florida) سے ریپبلکن سینیٹر مارکو روبیو کانگریس میں ایک قانون تجویز کر رہے ہیں، جس کے مطابق امریکی حکومت کو BDS پروگرام میں شرکت کرنے والے تجارتی اداروں کے خلاف تادیبی کاروائی کا پابند بنایا جائے گا۔
کانگریس میں صیہونی لابی بہت مضبوط ہے، جس کی وجہ سے بل کا منظور ہونا یقینی لگ رہا ہے، لیکن تاریخ میں پہلی بار اسرائیلی نواز قرارداد کی موثر مزاحمت بھی نظر آرہی ہے۔ حسب توقع ایوان زیریں کی فلسطینی نژاد رکن محترمہ رشیدہ طلیب نے مارکو روبیو کی قرارداد کو آزادانہ تجارت کی روح کے خلاف قراردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ?Government has no business in Businesses آزادانہ تجارت کا بنیادی و کلیدی اصول ہے۔ BDS سماجی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی تحریک ہے اور اس میں کسی بھی ریاست یا حکومت کو ملوث نہیں ہونا چاہئے۔ صہیونیت کے دفاع و اعانت کیلئے امریکہ سمیت ساری دنیا میں سینکڑوں تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ BDS کا مقابلہ ان صہیونی سوشل تنظیموں کی ذمہ داری ہے اور امریکی حکومت کو غیر جانبدار رہنا چاہئے۔
سینیٹر برنی سینڈرز نے مارکو روبیو کی قرارداد کر بیہودہ، احمقانہ اور غیر ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ صدر ٹرمپ کی ضد سے سارا ملک ٹھپ ہے، لاکھوں سرکاری ملازمیں بدترین معاشی بحران میں مبتلا ہیں۔ اس وقت امریکی کانگریس کی پہلی ترجیح امریکی صدر کی لائی اس مصیبت سے نجات ہے۔ سینیٹر سینڈرز نے کہا کہ جب تک حکومت ’’کھل‘‘ نہیں جاتی، کانگریس میں کسی بھی قسم کی بحث یا قانون سازی فاقہ کش سرکاری ملازمین کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔
کانگریس کی اسپیکر محترمہ نینسی پلوسی اور سینیٹ میں قائد حزب اختلاف سینیٹر چک شومر نے BDS کا ذکر کئے بغیر کہا کہ اس وقت ہماری ترجیح حکومت کی بحالی ہے اور Shutdown کے خاتمے تک کانگریس میں کسی دوسری سرگرمی کی کوئی گنجائش نہیں۔ شہری آزادیوں کی انجمن ACLU نے بھی انسداد BDS بل کی مذمت کی ہے۔
٭٭٭٭٭