یہ کیسا نیا پاکستان ہے کہ چار ماہ بعد بھی ملک کے معاملات وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت کے قابو سے باہرہیں۔ ’’نیت صاف منزل آسان‘‘ کے برعکس یوں لگتا ہے کہ مسائل کو حل کرنے کی کوئی نیت ہے نہ مخلصانہ کوشش، جس کی وجہ سے قومی زندگی کے ہر شعبے میں پہلے سے موجود بحرانی کیفیت میں کمی کے بجائے اضافہ ہی نظر آتا ہے۔ شدید سردی کے موسم میں جب بجلی کی طلب میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے، ملک کے کئی علاقوں میں چودہ گھنٹے تک اس کی لوڈ شیڈنگ ہورہی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت بجلی کی طلب اور رسد میں پانچ ہزار میگاواٹ سے زیادہ کا فرق ہے۔ اس صورتحال پر ایک خصوصی اجلاس میں وزیراعظم عمران خان نے شدید برہمی کا اظہار کیا۔ انہوں نے توانائی کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزراء سے کہا کہ میں دنیا بھر سے پیسے مانگ رہا ہوں اور آپ اربوں کا نقصان کر رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وفاقی وزراء غلام سرور خان اور عمر ایوب نے وزیراعظم کے سامنے حالیہ بجلی بحران کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالنے کی کوشش کی۔ حقیقت یہ ہے کہ ایل این جی بروقت درآمد نہ ہونے کی وجہ سے متعدد پاور پلانٹس بند ہوگئے۔ تھرمل پاور پلانٹس کو فرنیس آئل پر چلانے کی وجہ سے قومی خزانے کو کم و بیش بارہ ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔ اس کے باوجود صارفین بجلی سے محروم ہیں۔ توانائی کمیٹی اجلاس میں یہ تجویز پیش کی گئی کہ بارہ ارب روپے کا یہ اضافی بوجھ بھی عوام پر ڈال دیا جائے۔ بات بجلی کے بحران تک محدود نہیں، ملک کے بہت سے علاقوں میں گیس کی بھی شدید قلت دیکھنے میں آئی، جس کی وجہ صنعتی و تجارتی سرگرمیوں پر بدترین اثرات پڑنے کے علاوہ گھروں کے چولہے بھی بند ہوگئے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اس کا بھی نوٹس لیتے ہوئے گیس بحران سے متعلق تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ آنے کے بعد گیس کی دونوں بڑی کمپنیوں سوئی نادرن اور سوئی سدرن کے منیجنگ ڈائریکٹرز کو ان کے عہدوں سے برطرف کر دیا۔ وزیر اعظم عمران خان کو اب تک یہ ادراک نہیں ہو سکا ہے کہ محض غیر ملکی دوروں، قرضوں اور امداد کی بھیک، پے درپے اجلاسوں، وزیروں، مشیروں کو ڈانٹنے، لوگوں کو برطرف کرنے جیسے اقدامات کو اچھی حکمرانی قرار نہیں دیا جا سکتا، بلکہ ان سے تو ثابت ہوتا ہے کہ اقتصادی صورتحال اور عوامی مسائل پر قابو پانے کی جانب ہنوز کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت میں نیت اور ہمت دونوں کا فقدان نظر آتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی درست سمت بلکہ سرے سے سمت کا اب تک تعین نہ ہونا ظاہر کرتا ہے کہ 2018ء کے انتخابات سے پہلے بنیادی تبدیلی اور نئے پاکستان کے جو دعوے کئے گئے تھے، وہ سب بے بنیاد تھے۔ اس کیلئے تحریک انصاف کے پاس کوئی ٹھوس حکمت عملی موجود تھی، نہ اس کے نام نہاد ماہرین نے ابتدائی تیاریوں (ہوم ورک) پر توجہ دے کر کوئی کام کیا تھا۔ تمام وزیر و مشیر وزیر اعظم عمران خان کے تابع مہمل نظر آتے ہیں، جو ان کی ہر بات اور ہر عمل کی بزاخفش کی طرح سرہلا کر تائید کرنے کے سوا کچھ نہیں کرتے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان کے سب سے بڑے ترجمان فواد چوہدری حکومت کے تمام اچھے برے کاموں کی تعریف و دفاع کرنے اور مخالفین پر تبریٰ بھیجنے میں شب و روز لگے ہوئے ہیں۔ ان کا تازہ ارشاد ہے کہ عمران خان کے خلاف ہیلی کاپٹرکیس ملک کے وزیراعظم اور سسٹم کی توہین ہے۔ نیب کا ان کے خلاف کیس چلانا زیادتی ہے، اس پر پوری دنیا ہنس رہی ہے، نیب کو یہ کیس ختم کردینا چاہئے۔ البتہ ان کے خیال میں اپوزیشن لیڈر کے خلاف مقدمات توہین نہیں، حقیقی ہیں۔ فواد چوہدری کو زیادہ بولنے کی عادت ہے، لہٰذا ان کی باتوں میں غلطیوں، خامیوں، تضادات کی بھی بھرمار ہوتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے خلاف ابھی تو نیب میں ہیلی کاپٹر کیس آیا ہے، ورنہ ان کی حکومتی کارکردگی صفر ہونے، ان کے ذاتی اخراجات اور نجی مصروفیات کی تفصیلات پیش نظر رکھی جائیں تو مزید نہ جانے کتنے کیس کھل سکتے ہیں۔ دنیا عمران خان کے کسی کیس پر نہیں، ان کی صفر کارکردگی پر ہنس رہی ہے۔ عمران خان پر سب سے بڑا الزام تو یہ ہے کہ قوم کو مدینہ جیسی فلاحی ریاست کا خواب دکھانے کے باوجود چار ماہ سے زیادہ مدت کے دوران اس جانب معمولی پیش رفت بھی نظر نہیں آتی۔ الٹا قادیانیوں کے ٹی وی چینلز کھولنے، اسرائیلی باشندوں کو نوازنے، معاشرے کو مغرب کے سانچے میں ڈھالنے، قومی لٹیروں سے دولت واپس نہ لانے، غداران وطن الطاف حسین اور حسین حقانی کے علاوہ لٹیروں کے سردار اسحاق ڈار، بابر غوری اور عباس رضوی جیسے دہشت گردوں کی وطن واپسی کے ٹھوس اقدامات نہ کرنے کے باعث عمران خان کی عوامی مقبولیت کا گراف تیزی سے گرتا جا رہا ہے۔ برسر اقتدار آتے ہی ضروری قوانین یا آرڈی نینسوں کے ذریعے ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس لائی جاتی تو نہ بجلی گیس کی قلت ہوتی اور نہ ان سمیت دیگر اشیا و خدمات کے نرخوں میں اضافہ کرکے غریبوں پر بوجھ ڈالنا پڑتا۔ ڈالر کی توقیر بڑھانے اور پاکستانی کرنسی کو بے قدر کرنے کے باعث جہاں زرمبادلہ کا توازن بری طرح بگڑا ہے اور چیزیں بہت مہنگی ہوگئی ہیں، وہیں حج کے اخراجات میں بھی فی کس ایک لاکھ روپے اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ حکومت اس پر زر تلافی دینے کا خیال ظاہر کر رہی ہے، لیکن یہ رقم یقینا قومی خزانے سے ادا کی جائے گی، جس کا سارا بوجھ بھی عوام ہی پر پڑے گا۔ سپریم کورٹ کے تجاوزات ختم کرنے کے احکام کی آڑ میں حکومت کی انتظامیہ نے کراچی سمیت پورے ملک میں توڑ پھوڑ اور تباہی کا آپریشن جاری رکھ کر ہزاروں افراد کا جائز کاروبار بھی ختم کرکے لاکھوں لوگوں کو فاقہ کشی پر مجبور کر دیا ہے۔ جبکہ فیصل واوڈا اور فیاض چوہان جیسے بڑبولے وزیر صحافیوں اور عوام کی توہین کرتے ہیں۔ عمران خان کے اعوان و انصار بسنت جیسے تہواروں کو فروغ دے کر پتنگ کی دھاتی ڈور سے بے گناہ بچوں اور بڑوں کی ہلاکت کا سامان کر رہے ہیں۔ ہم نے ابتدا ہی میں وزیر اعظم عمران خان سے گزارش کی تھی کہ وہ کچھ نہ کر سکیں تو کم از کم پاکستان کے مسلم تشخص کو کسی طرح مجروح نہ ہونے دیں، لیکن ان کے اکثر اقدامات اسلام، پاکستان اور مسلم روایات کے برعکس اور منافی نظر آتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس چارج شیٹ کی روشنی میں تحریک انصاف کی حکومت راہ راست اختیار کرتی ہے یا فواد چوہدری جیسے حکومتی ترجمان اسے بھی اپنی روایتی بیان بازی کا ہدف بناتے ہیں۔٭
٭٭٭٭٭