پانچ پڑوسی

پاکستان کے چار پڑوسی ہیں: بھارت، افغانستان، ایران اور چین۔ سوائے چین کے سب کے ساتھ تعلقات Abnormal اور مشکلات کا شکار ہیں۔ بھارت نے چونکہ ہندوستان کا بٹوارہ دل سے قبول نہیں کیا، اس لئے اس کی پاکستان سے نفرت مٹائے نہیں مٹتی۔ اب تک دونوں ملکوں میں کئی بار لڑائیاں ہو چکی ہیں۔ بھارت نے پاکستان کو بڑا نقصان پہنچایا، لیکن پاکستان کو مطیع یا غلام نہیں بنا سکا۔ بقول ہمینگوے Pakistan was killed but not defeated آج کل بھارت میں نہ صرف ایک متعصب وزیر اعظم فائز ہے، بلکہ بھارتی قیادت کی صف اول میں پاکستان سے بغض اور کدورت رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔ اگر کشمیر کا مسئلہ حل بھی ہو جائے تو بھارتی غصہ کم نہیں ہو سکتا۔
دوسرا ملک افغانستان ہے، جو یوں تو پاکستان کا کزن ہے، لیکن ایک معروف کالم نویس کے بقول: ہم پٹھانوں میں کزنوں میں پیار بھی ہوتا ہے، لیکن حسد اور دشمنی بھی۔ یہ بڑا عجیب و غریب جذبہ ہے، جسے بیان کرنا بڑا مشکل ہے، افغانستان بھی ہمارا کزن ہے۔ امریکہ بہت بڑا ملک ہے اور دنیا کے ہر ملک کا پڑوسی ہے۔ بھارت کا پاکستان، ایران کا افغانستان اور سعودی عرب کا… سب کا، پاکستان بہ امر مجبوری امریکی کیمپ میں رہا ہے۔ ایران سے کھلم کھلا امریکی تعلقات خراب ہیں۔ امریکی دبائو پر پاکستان ایران سے زیادہ قریب نہیں ہو سکا، اس لئے ایران سے ایسے تعلقات نہیں ہیں، جیسے پڑوسیوں میں ہونے چاہئیں۔ اب چین آتا ہے۔ چین کی ترقی بے مثال ہے، یہ ترقی امریکہ کو شاق گزرتی ہے۔ امریکہ پاکستان سے چین کی قربت پسند نہیں کرتا… کچھ عرصہ ہوا چین کو اپنے پھیلائو کیلئے ایک زمینی راستہ درکار تھا۔ امریکہ نے چین کے جنوبی سمندروں کو گھیرنے کی پیش بندی کر رکھی ہے۔ اگر پاکستان میں ایک بڑی سڑک بنا دی جائے جو گلگت سے گزر کر بلوچستان کے سائل (گوادر) تک جاسکے۔ تو یہ کام چین کیلئے بہت Strategic افادیت کا حامل ہوگا۔ معاہدہ ہوگیا۔ معاملات کے دونوں ملکوں کو بے حساب فوائد ہیں، لیکن نواز شریف حکومت نے اس معاہدے کو اپنے ذاتی اور سیاسی فائدے کیلئے استعمال کیا۔ آصف زرداری اور نواز شریف دونوں ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر مقدم رکھتے ہیں، تو یہ چار پڑوسی ہوئے اور پانچواں پڑوسی امریکہ ہے، جو پاکستان کا بازو مروڑنے کا خواہش مند ہے۔ ان پانچ مشکل ملکوں سے تعلقات میں توازن قائم کرنا، تنے ہوئے رسے پر چلنے کے مترادف ہے۔
عمران خان نے وزیر اعظم بننے کیلئے بہت محنت کی اور وہ کامیاب ہوگئے ہیں، لیکن وزارت عظمیٰ کے عہدے کے ساتھ بہت الجھے ہوئے مسائل اور چیلنج بھی درپیش ہیں، جو حکمران جاتا ہے وہ خزانے پر جھاڑو پھیر کے جاتا ہے۔ پاکستان کیلئے سوئپر کا یہ کام زرداری کے بعد آنے والی حکومت نے بھی کیا، ان کے سابق حکمرانوں کے پاس اربوں کی جائیدادیں ہیں۔ اگر کسی کے پاس لامحدود دولت ہو تو اس کیلئے ایک مشہور فقرہ ہے There is a crime behind every fortune کچھ ترجمہ یوں ہوگا: ہر خزانے کے پیچھے بے گناہوں کا خون شامل ہوتا ہے۔ روایت ہے کہ ایک بادشاہ کسی بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوا اور انہیں اشرفیوں کی تھیلی پیش کی۔ بزرگ نے تھیلی نچوڑی تو اس میں سے خون ٹپکنے لگا۔ بزرگ نے فرمایا: میں بے گناہوں کا خون قبول نہیں کرتا۔ ہمارے لٹیرے سیاستدانوں کی رگوں میں بھی مظلوم اور کمزور عوام کا خون گردش کر رہا ہے۔ حسب معمول خزانہ خالی ہے۔ عمران خان کا پہلا مسئلہ قرضوں کی واپسی ہے۔ دوسرا کام پانچ پڑوسیوں سے تعلقات بحال کرنے ہیں۔ یہ دونوں کام بہت مشکل ہیں۔ پھر عمران خان کی صفوں میں بھی بہت سے نواز شریف اور آصف زرداری موجود ہیں۔ ان سے نمٹنا بڑا ہی مشکل کام ہے۔ شطرنج کے بعض کھلاڑی دو، دو چار، چار کھلاڑیوں کے ساتھ بیک وقت کھیل لیتے ہیں۔ عمران خان کو پانچ بڑے کھلاڑیوں کے ساتھ بیک وقت شطرنج کھیلنا ہے۔ باقی صدیقی کا ایک بہت اچھا شعر ذہن میں آرہا ہے:
رات باقی تھی جب وہ بچھڑے تھے
عمر کٹ گئی رات باقی ہے
تجزیہ کرنے والے، کالم لکھنے والے، تنقید کرنے والے وہ لوگ ہیں، جو ساحل پر بیٹھ کر تماشہ دیکھ رہے ہیں، ایسے موقع پر فرد واحد کافی نہیں ہوتا۔ قوم کا اجتماعی شعور اور دانشور بھی درکار ہوتی ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment