عمرکٹ گئی، رات باقی ہے

ترقی کے باوجود انسان کے اندر سے خونریزی کی عادت ختم نہ ہوسکی۔ طریقہ جنگ بدل گیا۔ بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑانے اور ٹینک پر ٹینک چڑھانے کا زمانہ گزر گیا۔ اس بات پر ہمارے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بڑا زور دیتے ہیں۔ جنگ اب شیر دل نوجوانوں کے دست و بازو سے ٹیکنالوجی کے ماہرین، اقتصادی امور کے ماہرین اور Strategy کے ماہرین کے ہاتھوں بلکہ دماغوں میں منتقل ہوتی جا رہی ہے۔
بیسویں صدی میں دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد اس طریق جنگ کا سب سے بڑا ماہر امریکہ ثابت ہوا ہے۔ اس نے 1950-60ء کے زمانے میں کوریا اور ویت نام کو اپنی ٹیکنالوجی سے خون کے سمندر میں ڈبو دیا۔ اس کے بعد ایران، عراق، افغانستان سب کو اپنے علم اور ٹیکنالوجی سے تگنی کا ناچ نچایا۔ آج کل ترقی ترکی اور پاکستان اس کے ریڈار پر ہیں۔
آج سے پچیس تیس سال پہلے امریکہ فری ٹریڈ کا زبردست علمبردار تھا۔ اپنے دو بڑے پڑوسیوں کینیڈا اور میکسیکو کے ساتھ فری ٹریڈ پر عمل کر رہا تھا اور چھوٹے چھوٹے ممالک کو بھی اس بات کی تلقین کیا کرتا تھا، لیکن جو سامان کینیڈا سے آتا ہے، اس پر ٹیکس بڑھا دیئے ہیں۔ پڑوسی ملک میکسیکو کی سرحد پر دیوار تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ بارڈر کئی ہزار میل لمبا ہے۔ بارڈر پر اونچے نیچے پہاڑ، دریا، نالے اور کٹی پھٹی زمین ہے۔ بارڈر خاصا لمبا ہے۔ نگرانی مشکل… مگر امریکی صدر ٹرمپ بضد ہیں کہ بارڈر پر دیوار بنا کر دم لیں گے… دیوار بنا دی تو پھر دیوار کی نگرانی کرنا پڑے گی۔
دنیا کے ہر ملک کو طرح طرح کے مذہبی، سیاسی اور معاشی مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ صدر ٹرمپ اس آگ کو ہوا دے کر ہاتھ تاپنا چاہتے ہیں۔ امریکہ میں اسٹیل اور اکثر دھاتوں کی بڑی کھپت ہے۔ یہ دھاتیں چین، روس، ترکی اور کئی دوسرے ممالک سے امپورٹ کی جاتی ہیں۔ صدر ٹرمپ نے ازخود ان دھاتوں پر ڈیوٹی بڑھا دی ہے۔ اس کی وجہ سے دھاتیں ایکسپورٹ کرنے والے ممالک کو بڑا نقصان ہوگا۔
چین اور امریکہ کے درمیان اس مسئلے پر زبردست کشیدگی پیدا ہو چکی ہے۔ اس وقت ترکی اور پاکستان امریکہ کی نظروں میں بہت معتوب ہیں۔ ترکی اور پاکستان، دونوں کو تجارتی اور اقتصادی جھٹکے دیئے جا رہے ہیں۔ چھوٹے ملکوں کے اقتصادی معاملات ویسے ہی خراب رہتے ہیں۔ ان کے اقتصادی تالاب میں ایک پتھر پھینکنے سے تالاب میں تلاطم آجاتا ہے اور کشتی ہچکولے لینے لگتی ہے۔ امریکہ کی بدولت ترکی اور پاکستان دونوں کی اقتصادیات گردش میں ہیں، مگر کوئی امریکہ پر جارحیت کا الزام نہیں لگا سکتا۔ پاکستان، ایران اور ترکی جیسے ممالک کے پاس اس کا ایک ہی حل ہوتا ہے کہ چین یا روس کی طرف رجوع کریں۔ یہ ایک عارضی حل ہو سکتا ہے۔ ایک طرف امریکہ کے Strategtc Moves ہیں۔ دوسری طرف پاکستان کے سیاستدانوں، حکمرانوں اور بڑے افسروں کی زر پرستی ہے۔
پاکستان کے خزانے سے دولت لوٹ لوٹ کر اپنوں نے سوئٹزر لینڈ، پانامہ، برطانیہ اور دبئی کے بینکوں میں چھپا دی ہے۔ امریکہ کے پاس اور بھی بہت سی چالیں ہیں۔ اگر کسی ملک میں کوئی اچھی حکومت آجائے تو بڑی صفائی سے حکومت گرائی جا سکتی ہے۔ اگر کوئی حکمران سخت جانی یا مستقل مزاجی کا مظاہرہ کرے تو پھر اس کو اپنی جان کا خطرہ مول لینا پڑتا ہے۔ کونسا ملک ہے، جہاں کرائے کے قاتل نہیں ملتے… اور کونسا قاتل ہے جو ڈالروں کی چمک کے سامنے اپنا ہوش و ایمان قائم رکھ سکے؟
اپنی سیاسی برتری منوانے کی خاطر امریکہ کا صدر غریب ممالک کے اربوں عوام کی زندگی عذاب بنائے رکھتا ہے۔ اگر امریکہ نے اپنی ظالمانہ روش ترک نہ کی تو پسماندہ ملکوں کے اربوں عوام… امریکہ کی بدبختی کی دعا مانگیں گے… کل آتی قیامت آج ہی آجائے۔ نہ ہم رہیں۔ نہ امریکہ رہے۔ ایسی جنگ کے لئے Hybird war کا لفظ استعمال ہو رہا ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment