امریکہ کیوں خوفزدہ ہے؟

خلائی پروگرام میں واضح برتری رکھنے کے باوجود امریکہ چین کے خلائی مشن سے بہت زیادہ خائف نظر آتا ہے۔ گو امریکہ نے 1969ء میں اپالو نمبر11- کے ذریعے چاند پر اترنے کا دعویٰ کیا تھا، جس پر بعد میں کئی سوالات بھی اٹھائے گئے اور امریکہ کے اس دعوے کو یکسر غلط کہا گیا، لیکن امریکہ نے چاند کے جس حصے پر اپنے خلائی جہاز کے اترنے کا دعویٰ کیا تھا، وہ چاند کا روشن حصہ تھا اور جس کا رخ زمین کی جانب تھا۔ غرض یہ کہ امریکہ نے چاند پر جتنے مشن بھی روانہ کئے، انہوں نے چاند کے اسی حصے پر لینڈنگ کی۔ جبکہ چین کا روبوٹک خلائی جہاز چنگ4- چاند کے تاریک حصے پر اترا ہے، جس پر آج تک کوئی خلائی مشن نہیں روانہ کیا گیا۔ چین کے اس روبوٹک خلائی جہاز کی چاند کے تاریک حصے میں لینڈنگ کو ایک تاریخ ساز واقعہ قرار دیا جا رہا ہے، جو امریکہ کی پریشانیوں میں اضافے کا باعث بنا ہے۔
چینی حکام نے اس جہاز کے ذریعے موصول ہونے والی تصاویر کو بھی ٹوئٹر پر جاری کیا ہے۔ چین کا روبوٹک خلائی جہاز ہمہ اقسام کے آلات سے لیس ہے۔ یہ جہاز جس خصوصی جگہ پر اترا ہے، وہاں ایک کریمر نامی گڑھا ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ گڑھا ماضی میں کسی زبردست ٹکرائو کی صورت میں پیدا ہوا ہے اور چاند پر یہ گڑھا سب سے بڑا اور سب سے قدیم ہے۔ چنگ4- دراصل چین کے چاند پر تحقیق کے بڑے پروگرام کا ایک حصہ ہے، جس کے بعد چین چنگ5- اور چنگ6- نام کے روبوٹک خلائی جہاز چاند پر روانہ کرے گا اور یہ دونوں جہاز چاند سے مٹی، ریت اور چٹانوں کے نمونے لے کر زمین پر واپس آئیں گے، جس کے ذریعے چین چاند کے وجود میں آنے کے متعلق حقائق جاننے کی کوشش کرے گا۔
چین کی یونیورسٹی آف جیو سائنس کے ڈاکٹر لانگ ژائو کے مطابق چاند کے جس تاریک حصے میں چینی روبوٹک خلائی جہاز نے لینڈنگ کی ہے، یہ وہ حصہ ہے جو زمین کی نظروں سے مکمل طور پر اوجھل ہے۔ چنانچہ اس سے براہ راست ریڈیو لنک بھی ممکن نہیں ہے۔ لیکن چین نے اس کا رابطہ ایک سیٹلائٹ کے ذریعے ممکن بنایا ہے، جسے چین نے گزشتہ برس مئی میں لانچ کیا تھا۔ پروفیسر لانگ ژائو کے مطابق چین کا روبوٹک خلائی جہاز چاند کے روشن حصے سے 65 ہزار کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ واضح رہے کہ ایک غیر معمولی صورت حال جسے ٹائیڈل لاکنگ کہا جاتا ہے، زمین سے چاند کا صرف ایک حصہ دیکھا جا سکتا ہے اور اس کی تکنیکی وجہ یہ ہے کہ چاند اپنے محور پر گھومنے کے لیے اتنا ہی وقت لیتا ہے، جتنا کہ وہ زمین کے مدار کا چکر لگانے میں لیتا ہے۔ چاند کی اس سطح یا حصے کو تاریک پہلو یا تاریک حصہ کہا جاتا ہے، لیکن تاریک کا مطلب یہ نہیں کہ یہاں روشنی نہیں ہوتی، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں پر دیکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ واضح رہے کہ چاند کے دونوں جانب دن اور رات کا وقت یکساں ہوتا ہے۔
چین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے اب تک امریکہ اور روس کے خلائی مشنز کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی خلائی سرگرمیاں جاری رکھی ہیں اور اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کیا ہے، لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ چین نے ایک بے حد چیلنجنگ مشن سرانجام دیا ہے، جو ابھی تک امریکہ اور روس نے انجام نہیں دیا۔ چاند کے اس حصے میں کسی خلائی جہاز کا اترنا ایک غیر معمولی بات ہے، کیونکہ یہ حصہ انتہائی ناہموار ہے۔ لیکن چین نے اپنے اس روبوٹک خلائی جہاز
کے اترنے کے لیے جنوبی قطب کے آئیڈیکن بیس میں واقع وون کرمان کے علاقے کو منتخب کیا ہے، جو قدرے ہموار ہے۔ چین کی اس تاریخ ساز کامیابی نے امریکہ کے لیے شدید تشویش پیدا کر دی ہے اور اس کی پریشانیوں میں اضافہ ہوا ہے۔
آیئے! اب ذرا جائزہ لیں کہ امریکہ چین کی اس تاریخ ساز کامیابی سے امریکہ پریشان کیوں ہے؟ اور آخرکار وہ کیا اندیشے ہیں، جو امریکہ کو پریشان کر رہے ہیں؟
اگرچہ عالمی معاہدوں کے تحت خلا کو فوجی مقاصد کے لیے استعمال کرنے پر قدغن عائد کی گئی ہے، جس کے تحت خلا میں کسی بھی قسم کے ایٹمی یا روایتی ہتھیار نصب نہیں کئے جا سکتے، لیکن یہ امریکہ ہی ہے جس نے حال ہی میں اپنی اسپیس کمانڈ کو قائم کیا ہے، جس کا مقصد مستقبل میں خلا کو فوجی مقاصد کے لیے استعمال کرنا ہے۔ گو ابھی تک اس بات کے کوئی شواہد نہیں کہ چین کے اس چاند مشن کے مقاصد فوجی نوعیت کے ہیں۔ چین نے بھی اس بات کی تردید کی ہے اور واضح کیا ہے کہ اس مشن کا مقصد چاند کے اس حصے کی ارضیاتی خصوصیات کو جانچنا اور حیاتیاتی تجربات کرنا ہے، جس کے لیے ریشم کے کپڑے اور کئی اقسام کے بیج روانہ کئے گئے ہیں، تاکہ اندازہ کیا جا سکے کہ چاند پر کاشت کرنا ممکن ہے یا نہیں۔ مزید یہ ہے کہ چینی روبوٹک جہاز چاند کی سطح پر چٹانوں اور مٹی کا مطالعہ بھی کرے گا تاکہ چاند کے وجود میں آنے کی وجوہات معلوم کی جا سکیں۔ لیکن تاحال ایسی کوئی شہادت نہیں ملی کہ چین نے اس حصے کو ہتھیاروں کی تنصیب کے لیے کسی تجربے کے لیے چنا ہو۔
امریکی ماہرین اس خوف اور اندیشے کا شکار ہیں کہ چینی ماہرین اور انجینئرز ڈوئل ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے اس حصے میں ایسے ہتھیار نصب کر سکتے ہیں، جو امریکہ اور روس کے علاوہ دیگر حریف ممالک کے خلائی جہازوں اور سیٹلائٹس کو بڑی آسانی اور انتہائی خاموشی کے ساتھ تباہ کر سکتے ہیں۔ امریکی ماہرین کا اس ضمن میں کہنا ہے کہ چین کے اس مشن کا مقصد محض سائنسی ہی نہیں فوجی بھی ہے، جس کے بارے میں چین نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ امریکی ماہرین نے ان خدشات کا اظہار بھی کیا ہے کہ چنگ4- سائنسی آلات کے ساتھ ایسے آلات اور دیگر سازو سامان بھی لے کر گیا ہے، جن کی مدد سے چین امریکہ، روس اور دیگر ممالک کے خلائی جہازوں اور سیٹلائٹس کو اینٹی سیٹلائٹ لیزر ہتھیاروں کے ذریعے ہدف بنا سکتا ہے اور اگر یہ خدشہ درست ثابت ہوا تو مستقبل میں امریکہ، روس اور دیگر ممالک کے خلائی مشن، اسپیس شپس اور سیٹلائٹس کو سنگین خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا، کیونکہ ان ہتھیاروں کے ذریعے چین بڑی خاموشی سے اپنے حریفوں کو ہدف بنانے کی صلاحیت حاصل کر لے گا۔
چینی مشن اور اس کی کامیابی سے امریکہ کے خوف زدہ ہونے کی ایک بڑی معقول اور ٹھوس وجہ یہ بھی ہے کہ امریکہ 2007ء میں چین کی طرف سے کئے جانے والے اس تجربے کو ابھی تک نہیں بھولا ہے، جس میں چین نے اپنے ایک بھٹک جانے والے سیٹلائٹ کو زمین سے فائر کر کے تباہ کر دیا تھا۔ چین کے اس عمل نے ثابت کر دیا تھا کہ اس کے پاس ایک قابل اعتماد اینٹی اسپیس کرافٹ ٹیکنالوجی موجود ہے، جس کے ذریعے وہ کسی بھی وقت خلا میں موجود کسی بھی سیٹلائٹ کو تباہ کرنے کی صلاحیتوں کا حامل ہو چکا ہے۔ ذرا غور کریں خلا میں موجود درجنوں ہمہ اقسام کے سیٹلائٹس امریکہ کی طاقت اور ٹیکنالوجی کی علامت ہیں، جن کے بل پر امریکہ دنیا بھر میں Dominate کر رہا ہے۔
امریکہ کی یہی طاقت اس کی سب سے بڑی کمزوری بھی بن سکتی ہے اور یہی خوف اس کی نیندیں اڑانے کے لیے کافی ہے، کیونکہ اس کو اچھی طرح سے اندازہ ہے کہ چین اس کی فوجی برتری کو چند منٹوں میں مکمل طور پر ختم کرنے کی صلاحیتوں کا حامل ہو چکا ہے۔ ذرا غور کریں امریکہ اپنے تمام کمیونیکیشن نیٹ ورکس کے لیے اپنے ہمہ اقسام کے سیٹلائٹس پر انحصار کرتا ہے، جو ایک طرف اس کی طاقت، مگر دوسری جانب اس کی بہت بڑی کمزوری بھی ہے۔ کیونکہ اگر دوران جنگ چین نے امریکہ کے چند سیٹلائٹس کو بھی نشانہ بنا ڈالا تو امریکہ کا تمام کمیونیکیشن سسٹم تباہ ہو جائے گا، جس کے بعد سمندر میں موجود امریکی بحری جہاز بے یارو مددگار ہو جائیں گے اور حریف کے لیے انتہائی آسان ہدف ہوں گے۔
چینی امور کے امریکی ماہر مائیکل سوان کا اس ضمن میں کہنا ہے کہ امریکی کمیونیکیشن سیٹلائٹس کی تباہی یا جام ہونے کی صورت میں چین کی جدید آبدوزیں بڑی آسانی کے ساتھ امریکی جنگی جہازوں کو تباہ کر سکتی ہیں۔ چین نے گزشتہ برسوں میں اپنی آبدوزوں کی ٹیکنالوجی کو ترقی دینے میں بہت کام کیا ہے، جس کے باعث آج چین کی آبدوزیں جدید اور باصلاحیت آبدوزوں میں شمار کی جانے لگی ہیں، جبکہ چین دیگر ہتھیاروں کے علاوہ جدید ترین آبدوزیں بھی تیار کر رہا ہے اور چین کی ان جدید آبدوزوں سے امریکی ایئرکرافٹ کیریئرز اور ان کے ساتھ موجود دیگر جہازوں کے لیے خطرات میں روزبروز اضافہ ہو رہا ہے۔
26 اکتوبر 2006ء میں ایک ایسے ہی واقعہ نے امریکی بحریہ کے لیے خطرے کی گھنٹیاں بجا دی تھیں، جب بحر الکاہل میں ایک چینی آبدوز امریکی بحریہ کے ایئر کرافٹ کیریئرز کی حفاظت پر مامور بیٹل گروپ کو دھوکہ دیتے ہوئے امریکی ایئرکرافٹ کیریئر کے پانچ میل نزدیک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی تھی اور اس سے قبل کہ اسے دیکھ لیا جاتا، وہ بڑی خاموشی اور سرعت کے ساتھ غائب ہو گئی تھی۔ بعد میں اس واقعہ کی انکوائری نے امریکی بحریہ کے ہوش اڑا دیئے، کیونکہ انکوائری میں طلب کئے جانے والے امریکی بحریہ کے اہلکاروں نے اس بات کو تسلیم کیا تھا کہ ان میں سے کسی نے بھی نا تو چینی آبدوز کو دیکھا اور نہ اس کی آواز سنی۔ جبکہ یہ چینی آبدوز جدید ترین تارپیڈوز اور میزائلوں سے لیس تھی اور اگر چاہتی تو امریکی بحریہ کے کیریئر بیٹل گروپ کو ناقابل تلافی نقصان سے دوچار کر سکتی تھی۔ ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment