دوہرا معیار نہیں چلے گا!

قومی احتساب بیورو (نیب) وزیر اعظم عمران خان کے خلاف ہیلی کاپٹر کیس کی تحقیقات کر رہا ہے۔ گزشتہ برس دو فروری کو چیئرمین نیب نے عمران خان کی جانب سے خیبر پختونخوا حکومت کے دو ہیلی کاپٹرز کو غیر سرکاری دوروں کے لئے نہایت ارزاں نرخوں پر استعمال کرنے کا نوٹس لیتے ہوئے انکوائری کا حکم دیا تھا۔ جس پر عمران خان وزیر اعظم بننے سے پہلے نیب کے سامنے پیش ہوکر اپنا بیان قلمبند کرا چکے ہیں۔ اس کیس کے سلسلے میں سابق وزیر اعلیٰ خیبر پختون پرویز خٹک اور ایوی ایشن حکام کے بیانات بھی قلمبند کیے جا چکے ہیں۔ جبکہ نیب کی جانب سے گزشتہ برس اٹھارہ جولائی کی پیشی سے عمران خان کو الیکشن مصروفیات کی بنا پر استثنیٰ بھی دیا گیا تھا۔ نیب کے اعلامیہ میں کہا گیا تھا کہ عمران خان نے ایم آئی 17 ہیلی کاپٹر پر بائیس گھنٹے اور ایکیوریل ہیلی کاپٹر پر باون گھنٹے پرواز کی اور اوسطاً اٹھائیس ہزار روپے کے حساب سے چوہتر گھنٹوں کے اکیس لاکھ سات ہزار ایک سو اکیاسی روپے ادا کیے۔ عمران خان اگر پرائیویٹ کمپنیوں سے ہیلی کاپٹرز حاصل کرتے تو ایم آئی 17 ہیلی کاپٹر کا فی گھنٹہ کرایہ دس سے بارہ لاکھ روپے، جبکہ ایکیوریل ہیلی کاپٹر کا فی گھنٹہ خرچ پانچ سے چھ لاکھ روپے ادا کرنا پڑتا۔ یعنی پانچ سے بارہ لاکھ فی گھنٹہ کے بجائے صرف اٹھائیس ہزار روپے ادا کئے گئے۔ اس طرح سرکاری خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔ اگرچہ اربوں کھربوں کی کرپشن کے مقابلے میں چند کروڑ کی کوئی حیثیت نہیں۔ لیکن خود کو دودھ کا دھلا اور دوسروں کو چور ڈاکو کہنے والے چیئرمین تحریک انصاف کے دامن پر یہ الزام بھی بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ عمران خان نے کرپشن کے خلاف جنگ ہی کو بنیاد کر سابقہ دونوں انتخابات میں مہم چلائی تھی۔ نوجوانوں کے بڑی تعداد میں ان کے گرد جمع ہونے اور ان سے توقعات وابستہ کرنے کا بنیادی سبب بھی یہی ہے کہ ان کا دامن کرپشن کے داغ دھبوں سے صاف سمجھا جاتا ہے۔ اس لئے انہیں چاہئے تھا کہ بلا چوں و چرا نیب کے سامنے پیش ہو کر اس الزام سے اپنی برأت کا انتظام کرتے۔ مگر ان کے بڑ بولے اور ہر وقت میڈیا میں اِن رہنے کے شوقین ترجمان فواد چوہدری اس کیس کو ہی وزیر اعظم کی توہین قرار دیتے ہیں۔ وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کے بقول تحقیقات کر کے عمران خان کو کلیئر کرنے کے بجائے اس کیس کو ہی ختم کر دینا چاہئے۔ کسی مہذب ملک میں وزیر اعظم کے خلاف ایسے مقدمات نہیں بنتے۔ فواد چوہدری کی اس نرالی منطق پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا ہے کہ اپوزیشن لیڈر نیب کا سامنا کر سکتا ہے تو وزیر اعظم کیوں نہیں؟ یہ ان کی توہین نہیں عزت ہے۔ اگر کسی سے جرم ہوا ہے تو نیب کو تفتیش سے کوئی نہیں روک سکتا۔ لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین نیب کا کہنا تھا کہ ہمارا کسی گروپ یا حکومت سے نہیں، پاکستان سے تعلق ہے۔ کسی کے دبائو کے آگے جھکیں گے نہ این آر او کا حصہ بنیں گے۔
حقیقت بھی یہی ہے کہ نیب سمیت کسی عدالت کے سامنے پیش ہونے سے عزت میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔ یہ قانون کے احترام کا معاملہ ہے، جو مہذب ہونے کی علامت ہے۔ موجودہ دور کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی اس طرح الزامات پر حکومتی سربراہ عدالت اور تحقیقاتی کمیشنوں کا سامنا کرتے ہیں۔ جبکہ اسلامی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو خلفائے راشدینؓ جیسی شخصیات، جنہیں دنیا میں ہی جنتی ہونے کی سند مل چکی تھی۔ وہ عدالت میں مدعی کے برابر بیٹھی نظر آتی ہیں۔ عمران خان بھی اسی ریاست مدینہ کا نام لیتے ہیں تو مدنی ریاست کے اولین سربراہوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انہیں خود کو ہر قسم کی تحقیقات کیلئے پیش کرنا چاہئے۔ تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے۔ دوسری جانب عمران خان کی بہن علیمہ خان کی یکے بعد دیگرے بیرون ملک جائیدادیں سامنے آ رہی ہیں۔ دبئی کے بعد امریکا میں بھی ان کے اثاثوں کا انکشاف ہوا ہے۔ وہ امریکی ریاست نیو جرسی میں چار منزلہ عمارت میں تین فلیٹوں کی مالک ہیں اور اس جائیداد کی مالیت تیس لاکھ ڈالر (پینتالیس کروڑ روپے) بتائی گئی ہے۔ علیمہ خان نے یہ جائیداد دو ہزار چار میں خریدی۔ مگر جون دو ہزار سترہ تک پاکستانی ٹیکس حکام کے سامنے ظاہر نہیں کی تھی۔ یعنی تیرہ برس تک ٹیکس ادا نہیں کیا گیا۔ جبکہ دبئی میں ان کے پرتعیش فلیٹ ’’دی لافٹس ایسٹ 1406‘‘ کی قیمت سات کروڑ روپے بتائی جاتی ہے۔ جو شہر کے قلب میں برج خلیفہ سے متصل انتہائی مہنگے علاقے میں واقع ہے۔ اس فلیٹ پر جرمانے کی مد میں وہ پچیس فیصد رقم جمع بھی کروا چکی ہیں۔ گو کہ علیمہ خان کبھی کسی حکومتی عہدے پر فائز نہیں رہیں اور ہر شہری کو کسی بھی ملک میں کاروبار کرنے اور جائیداد خریدنے کا حق ہے۔ مگر چونکہ ان کا حکومتی سربراہ سے قریبی خونی رشتہ ہے۔ اس لئے مخالفین کی جانب سے عمران خان پر بھی انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ بلکہ پنجاب اسمبلی میں ان کے خلاف قرارداد بھی پیش کی گئی ہے۔ جبکہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے اس معاملے کی تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی بنانے اور علیمہ خان کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ ٹیکس گوشواروں میں جائیدادوں کو چھپانا جرم ہے۔ علیمہ خان کے بظاہر ذرائع آمدن بھی اتنے نہیں ہیں کہ وہ دبئی اور امریکا کے مہنگے علاقوں میں جائیدادیں خرید سکیں۔ جبکہ وہ شوکت خانم اسپتال اور نمل یونیورسٹی کے بورڈز میں شامل ہیں۔ اس سلسلے میں وہ فنڈز بھی جمع کرتی رہتی ہیں۔ لہٰذا اس بنیاد پر مخالفین ان پر الزامات عائد کرتے ہیں۔ ان الزامات کی وجہ سے بھی عمران خان بالواسطہ نشانہ بن رہے ہیں۔ اس لئے اس معاملے کی بھی شفاف تحقیقات ہونی چاہئے۔ عمران خان اور ان کے ہمنوائوں کی کوششوں سے شریف فیملی کے خلاف وسیع پیمانے پر تحقیقات ہوئی، جس کے نتیجے میں نواز شریف سیاست سے نااہل اور وزارت عظمیٰ سے برطرف ہوکر اب جیل میں ہیں اور شہباز شریف بھی سزا بھگت رہے ہیں۔ تو عمران خان سمیت کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے۔ ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment