غیر ملکی سیاح کیا کہتے ہیں؟

انڈیا کی سیاحت کیلئے دنیا کے کئی ملکوں سے ٹوورسٹ آتے ہیں۔ خاص طور پر ممبئی میں غیر ملکی سیاح جابجا نظر آتے ہیں۔ ہوٹلوں، پارکوں، قدیم مندروں، کھنڈرات، ریلوے اسٹیشن اور بازاروں میں سیرو سیاحت کے شوقین کثرت سے دکھائی دیتے ہیں۔ امریکا اور یورپی ملکوں کے گورے مرد و زن دور ہی سے پہچانے جاتے ہیں۔ یہاں آپ کو ملائیشیا، انڈونیشیا، تھائی لینڈ، تائیوان، جاپان، کوریا اور فلپائن کی اطراف کے پچکی ہوئی ناک اور پستہ قد افراد ملیں گے، جو چینیوں سے خاصی مشابہت رکھتے ہیں۔ ان کے علاوہ سیاہ فام افریقی بھی نظر آئیں گے۔ ان میں سے بعض افراد حصول علم کی غرض سے بھی انڈیا آتے ہیں۔ کیوں کہ انڈیا میں، خاص طور پر یہاں ممبئی میں انگریزوں کے دور کے کئی کالج اب بھی قائم ہیں۔ یہ تعلیمی ادارے اپنے اعلیٰ معیار کے حوالے سے خاص شہرت رکھتے ہیں۔ انگریزوں کے جانے کے بعد بھی ان اداروں کے معیار کو برقرار رکھا گیا ہے۔
کئی لوگ محض قدیم عمارات کو دیکھنے کیلئے یہاں آتے ہیں، جنہیں آج تک صاف ستھری اور اصل حالت میں رکھا گیا ہے۔ یہ قدیم عمارتیں آج بھی ایسی ہی نظر آتی ہیں، جیسی ڈیڑھ سو برس قبل انڈیا کے گورنر ایلفنٹنس اور سربارٹل فریئر کے افتتاح کے وقت نظر آتی تھیں۔ یہاں سیاحوں کی رہائش کیلئے ہر قسم کے اور نہایت مناسب کرائے والے بے شمار ہوٹلز موجود ہیں۔ سواری کے لئے کئی ٹیکسیاں، بسیں، ریل گاڑیاں اور آٹو رکشا بہ آسانی دستیاب ہیں۔ لوکل ٹرین کا سفر تو انتہائی سستا ہے۔ ذرا تصور کیجئے! کراچی کے سرجانی ٹاؤن یا صفورا گوٹھ سے کیماڑی تک کے فاصلے کا کرایہ صرف چھ روپے رکھا گیا ہے اور یہ فاصلہ صرف نصف گھنٹے میں طے ہو جاتا ہے۔ کیوں کہ رش کے وقت بھی ٹرینیں اسی تیز رفتار سے چلتی ہیں… اور کیا چاہیے؟
یہاں سب سے مہنگی سواری ٹیکسی ہے، لیکن اتنے ہی فاصلے کا اس کا بھی کرایہ ایک سو روپے سے کم بنتا ہے۔ ظاہر ہے یہ ہمارے ملک سے تو سستا کرایہ ہی کہلائے گا۔ ہمارے ہاں کے ٹیکسی ڈرائیور، مسافر کی جیب خالی کرنے پر تلے معلوم ہوتے ہیں۔ اگر بد قسمتی سے کوئی گورا انگریز یا یورپی ان کے ہتھے چڑھ جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس غیر ملکی سیاح کے کپڑے تک اتروالیں گے۔ کراچی میں امن وامان کی حالت اس قدر بگڑ چکی ہے کہ غیر ملکی تو کیا، کوئی پاکستانی یعنی مقامی شخص بھی نصف شب کے وقت ایئر پورٹ سے روانہ ہوگا تو وہ ٹیکسی کے ذریعے اپنے گھر تک ہی پہنچے گا تو دوسری گاڑی میں ڈاکو وہاں پہنچ جائیں گے۔ اپنے ساتھ بیرون ملک سے لائے ہوئے سامان سے تو اسے محروم کرہی دیا جاتا ہے، بلکہ اس کا پاسپورٹ تک چھین لیا جاتا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ممبئی میں جرائم نہیں ہوتے، یہاں کے تھانہ کچہری پر قفل لگے ہوئے نہیں ہیں۔ جرائم یہاں بھی ہوتے ہیں، لیکن ان کا تناسب ہمارے ہاں سے بہت کم ہے۔ میں نے دیکھا کہ یہاں رات گئے تک دکانیں کھلی رہتی ہیں۔ اہم بات یہ کہ سناروں کی دکانوں کے سامنے کوئی گن مین نظر نہیں آتا تھا۔ البتہ کہیں کہیں کسی دکان کے دروازے پر یونیفارم میں ملبوس گارڈ ضرور کھڑا تھا، لیکن اس کے ہاتھ میں صرف ایک ڈنڈا تھا۔ نصف شب کے بعد بھی دیر تک چوپاٹی اور جوہو بیجز پر لڑکے اور لڑکیاں ہر قسم کے لباس میں سیر و تفریح میں مگن نظر آتے تھے۔ تنہا لڑکیاں سنیما سے آخری شو دیکھ کر دو یا تین بجے ٹیکسی اور بس کے ذریعے گھر پہنچتی ہیں۔ غیر ملکی ٹوورسٹ رات بھر ممبئی کی سڑکوں پر پیدل یا ٹیکسی پر آتے جاتے دکھائی دیتے ہیں۔ ظاہر ہے غیر ملکی سیاح اور مقامی مسافر ممبئی ایئر پورٹ اور بس اسٹاپوں پر آتے رہتے ہیں۔
پارک میں ٹہلتے ہوئے یا سمندر کے ساحل پر… ہوٹل کے ریسپشن ہال میں، ریلوے اسٹیشن یا ایئر پورٹ پر، غرض کہ کہیں بھی کوئی غیر ملکی سیاح، خاص طور پر گورے یورپی اور امریکن کو دیکھتا تو میں اس سے ممبئی کے بارے میں رائے ضرور معلوم کرتا تھا۔
’’میں پہلی مرتبہ انڈیا آئی ہوں۔‘‘ اسپین کے شہر بارسلونا سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون نے بتایا۔ وہ اپنے ساتھ آفس میں کام کرنے والی چند خواتین کے ساتھ دو ہفتوں کیلئے ایشیا کے چند ملکوں کی سیر کرنے کیلئے نکلی تھیں۔ ممبئی ان کی پہلی منزل تھی، اب وہ یہاں سے بنکاک کیلئے روانہ ہونے والی تھیں۔
’’ممبئی میں گندگی اور بدبو بہت زیاد ہے۔‘‘ انہوں نے بتایا۔ ’’بعض مقامات پر اس قدر لوگوں کی بھیڑ ہوتی ہے کہ سانس لینا دشوار ہو جاتا ہے، یہاں کی ہوا میں نمی اور موسم انتہائی گرم ہے۔‘‘
ظاہر ہے اسپین والوں کو ایشیا کا ہر شہر ایسا ہی معلوم ہوگا، لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ لاہور اور اسلام آباد کے باشندوں کو بھی ممبئی سے بالکل اسی قسم کی شکایت محسوس ہوتی ہے، حتیٰ کہ کراچی کے باسی بھی ممبئی پہنچ کر یہی بات کہتے ہیں۔
’’ممبئی آنے سے پہلے رہائشی ہوٹل کا تفصیلی ایڈریس اور انٹرنیٹ سے اس شہر کا نقشہ پرنٹ کرکے اپنے ساتھ لانا چاہیے۔‘‘ ایک فرنچ ٹوورسٹ نے بتایا۔
’’وہ کیوں؟‘‘ میں نے جاننا چاہا۔
’’اس لئے کہ ٹیکسی ڈرائیور کو ہوٹل تلاش کرنے میں آسانی ہو۔‘‘ اس نے بتایا۔ ’’ممبئی کا شمار دنیا کے بڑے شہروں میں ہوتا ہے، یہاں ہزاروں ہوٹلز ہیں۔ میں ممبئی کے علاقے کولابا میں واقع بینٹلی ہوٹل میں ٹھہرا تھا، میرا جہاز رات دو بجے ممبئی ایئر پورٹ پہنچا تھا۔ ایئر پورٹ کے علاقے ’’سانٹا کروز‘‘ سے ’’کولابا‘‘ خاصے فاصلے پر ہے، ٹیکسی میں بھی کم از کم ایک گھنٹہ لگ جاتا ہے۔ لیکن اس رات میرے ٹیکسی ڈرائیور نے پورے دو گھنٹے تک ممبئی کی سڑکوں پر ٹیکسی دوڑائی… وہ جگہ جگہ رک کر لوگوں سے ہوٹل کا پتہ معلوم کرتا تھا۔‘‘
’’انڈیا میں رہائشی اخراجات کے بارے میں آپ کا خیال ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’نہایت مناسب! حتیٰ کہ یہاں ٹیکسی کا کرایہ بھی فرانس تو کیا ایشیا کے کئی ملکوں سے سستا ہے۔ ملائیشیا، تھائی لینڈ، ہانگ کانگ اور سنگاپور میں اتنے ہی فاصلے کا کرایہ تین گنا زیادہ ہوتا ہے۔ دراصل میں ASCOT ہوٹل میں ٹھہرنا چاہتا تھا، جو قریب ہی واقع ہے، لیکن وہ میرے بجٹ سے بہت مہنگا ہے۔ بینٹلی ہوٹل ایک ہاسٹل کی طرح ہے۔‘‘
’’ہوٹل میں یا ہوٹل سے باہر آپ کو کسی قسم کی چوری چکاری کی شکایت رہی؟‘‘
’’نہیں۔ سیکورٹی کے لحاظ سے ممبئی میں مجھے کسی قسم کا مسئلہ پیش نہیں آیا۔ بہر حال یہ ضروری ہے کہ ہوشیار رہنا چاہیے اور اپنے سامان وغیرہ کی حفاظت کرنی چاہیے، میں نقدی ہمیشہ اپنی کمر کے گرد لپٹی ہوئی بیلٹ میں موجود پاؤچ میں رکھتا ہوں اور اپنے بیگ کو تالا لگا کر ہوٹل سے باہر نکلتا ہوں۔‘‘
’’آپ کے خیال کے مطابق ممبئی جیسے شہروں میں کن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’اپنی مرضی اور پسند کے ہوٹل میں رہنا چاہیے، اسی طرح اپنی مرضی کے ریسٹورنٹ میں کھانا کھانا چاہیے۔ اس سلسلے میں آٹو رکشا اور ٹیکسی ڈرائیوروں کے مشوروں پر ہرگز عمل نہیں کرنا چاہیے۔ کیوں کہ وہ آپ کو ایسے ہوٹلوں میں لے جائیں گے، جہاں ان کا کمیشن طے ہوتا ہے۔ بھیک مانگنے والا بچہ یا کوئی فقیر آپ کے پاس آئے تو اسے نظر انداز کردیں… اگر آپ نے کسی کو کچھ دے دیا تو پھر بھکاریوں کا غول آپ کے پیچھے لگ جائے گا۔ اس صورت حال میں آپ کا چلنا پھرنا اور سیر کرنا ممکن نہیں رہے گا۔ اس کے علاوہ اگر کوئی فرد تصویر بنوانے پر آمادہ ہوتا ہے تو اسے امید ہوتی ہے کہ اسے آپ سے پانچ، دس روپے ضرور ملیں گے۔‘‘
’’آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں، اس کے علاوہ اور کچھ؟‘‘
’’میں کولابا کے علاقے میں مقیم ہوں۔‘‘ وہ بتانے لگا۔ ’’شاپنگ کے لحاظ سے یہ نہایت مناسب جگہ ہے۔ یہاں بڑی دکانوں کے علاوہ فٹ پاتھ پر بھی اسٹال لگے ہوتے ہیں اور ٹھیلوں پر سامان سجا کر فروخت کرنے والے بھی نظر آتے ہیں۔ ان اسٹالوں اور ٹھیلوں پر سے تمام اشیاء نہایت سستی ملتی ہیں۔ سرکاری اسٹورز، جو کاٹج انڈسٹری کے نام سے مشہور ہیں… وہاں سے خریداری کرنا میرے خیال کے مطابق حماقت ہے۔ وہاں ہر چیز مہنگی ملتی ہے۔ وہ لوگ معیار کا جو ’’سرٹیفکیٹ‘‘ دیتے ہیں، وہ بھی ایک سادہ اور ردی کاغذ پر تحریر ہوتا ہے، جس کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ خریداری ہمیشہ وہاں سے کرنی چاہیے، جہاں سے مقامی لوگ کرتے ہیں اور آپ جو بھی چیز خریدیں، اس کی قیمت ضرور کم کرائیں… آپ کو ایک کام کی بات بتاؤں، آپ کوئی بھی چیز خریدیں، خواہ وہ آپ کو پسند بھی ہو، لیکن دکاندار کو ایسا تاثر دیں، جیسے وہ چیز کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے اور آپ کو اس کی قیمت بہت زیادہ معلوم ہو رہی ہے۔ گویا اس چیز کی آپ کو ضرورت نہیں ہے، لیکن وہاں سے گزرتے ہوئے آپ نے بے مقصد اس کی قیمت معلوم کرلی۔ پھر آپ وہاں سے روانہ ہونے پر تیار ہو
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment