یہی موسم تھا۔ ہوا ہلکی اور سرد تھی۔ دن چھوٹے اور راتیں لمبی تھیں۔ آلودگی کی وجہ سے کراچی کے آسمان سے ستارے روپوش تھے۔ شہر کی ایک سرحد پر سمندر غیرت مند گونگے کی طرح گرج رہا تھا۔ شہر کی دوسری سرحد سہراب گوٹھ کے چائے خانے پر چائنا موبائل پر ایک پشتو گیت گونج رہا تھا:
’’بی بی شیرینی
بی بی شیرینی
بی بی شیرینی! زیڑی گلی!
راباندی واچوہ سُور شال، جوڑہ لاسونہ
بی بی شیرینی…‘‘
ساحل سمندر پر بھٹے بیچنے والا بوڑھا اب تھک ہار کر بیٹھ گیا تھا اور سہراب گوٹھ کے ڈھابے پر ایک نوجوان کھلی آنکھوں سے خواب دیکھ رہا تھا۔ ان دونوں سرحدوں کے درمیان ایک شہر تھا۔ سیاست کی زنگ آلود زنجیروں میں جکڑا ہوا، قدیم دور کے کسی پاگل جیسا ایک جدید شہر!
اس شہر میں حرص اور حکمت کے درمیان ہر روز کشمکش جاری رہتی ہے۔ ان دنوں کے دوران بھی اس شہر میں کچھ مسافر سست سفینوں میں اچھی زندگی کے ساحل پر اترنے کے سپنے دیکھ رہے تھے۔ ان بہت سارے مسافروں میں ایک مسافر کا نام نقیب اللہ تھا۔ خوبصورت آنکھوں، ریشمی بالوں اور تیکھے نقوش والا نقیب اللہ… جس کی آنکھوں میں ایک نہیں، بلکہ دو خواب تھے۔ اس کی ایک آنکھ میں اپنے خاندان کی خوشحالی کا خواب تھا اور اس کی دوسری آنکھ میں اپنی ذات سے اس عشق کا خواب تھا، جس کی منزل ماڈلنگ کا بے وفا اسٹیج تھا۔ ممکن ہے کہ اس نے بھارتی فلم ’’فیشن‘‘ دیکھی ہو۔ ممکن ہے کہ اس نے رونے کے بعد میک اپ اترے ہوئے چہرے دیکھے ہوں۔ کاش! اس نے ہالی ووڈ کی ناقابل فراموش حسینہ مارلن منرو کی مختصر سوانح حیات پڑھی ہوتی، تو وہ جان پاتا کہ جلتی بجھتی روشنیوں کے درمیان چمکتے ہوئے لباس میں لپٹی ہوئی لاشیں کس طرح کوکین کی قبر میں گرتی ہیں؟ مگر ابھی وہ یہ سب کچھ معلوم کرنے کی عمر کو کب پہنچا تھا۔ ابھی تو وہ نوجوان تھا۔ اسٹائل سے داڑھی بنوا کر سر پر رنگین ٹوپی سجا کر بار بار اپنی سیلفی لینے والا وہ نوجوان، جس کے لیے خوابوں کا جزیرہ تھی وہ دنیا، جہاں ریمپ پر ذرا تیز اور ذرا دھیرے چلنے والے قدم، کیمرں میں دیکھنے والی بڑی اور بے باک آنکھیں اور اس گیت کا کڑکتا ہوا میوزک:
’’مرجاواں مرجاواں
تیرے عشق تے میں
مرجاواں…!‘‘
مر مٹنے والا عشق اور ماڈلنگ کی دھوکے باز دنیا!!
مگر ابھی اس نے وہ دنیا دیکھی ہی کہاں تھی؟ ابھی تو وہ اس دنیا سے اس طرح پیار کرتا تھا، جس طرح ہاسٹل میں رہنے والا اسٹوڈنٹ ملک کی مشہور فلمی ہیروئن کے پوسٹر کو کمرے کی دیوار پر آویزاں کرتا ہے۔ اس کو کیا معلوم کہ شوبز کی روشنیوں میں کس قدر تاریکی ہوتی ہے؟
ابھی وہ ایک ہی فلم کو باربار دیکھنے کا شوقین نوجوان تھا۔ ابھی وہ ان وادیوں میں اترا ہی کب تھا جہاں وحشت اور دہشت ایک دوسرے کے گلے میں بانہیں ڈال کر رقص کرتی ہیں۔ ابھی وہ صدمات سے سہمی ہوئی دنیا سے دور بستا تھا۔ ابھی اس کو زمانے کی زہر آلود ہوا ہی نہیں لگی تھی۔ ابھی اس کی روح کنواری اور اس کی آنکھیں پیاسی تھیں۔ مگر وہ نوجوان خوابوں کے نشے میں اس قدر بھی چور نہ تھا کہ اس نے محنت چھوڑ دی ہو۔ وہ محنت کرتا تھا۔ وہ اس سے بھی زیادہ محنت کرنا چاہتا تھا۔ وہ تھوڑی لاگت سے بہت ساری محنت کرکے اپنے گھر والوں پر ثابت کرنا چاہتا تھا کہ وہ صرف خوابوں کی خوشبو کے پیچھے دیوانہ بن کر بھاگنے والا ہرن نہیں ہے۔ وہ ایک آرٹسٹ بننا چاہتا ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ مزدور بھی ہے۔ وہ کراچی میں سارا دن اِس ڈیرے سے اُس ڈیرے اور اِس دکان سے اُس دکان تک چکر لگاتا اور کاروبار سمجھنے کی کوشش کرتا، مگر جب سورج غروب ہوتا اور شہر کی روشنیاں رات کی راہوں پر چلنے والی آوارہ لڑکیوں کی طرح آنکھیں کھولتیں تو اس کی ایک آنکھ سو جاتی اور دوسری آنکھ میں سپنے جاگ اٹھتے۔ پھر وہ اپنے من کی اس دنیا میں داخل ہو جاتا، جس دنیا سے اس کو عشق تھا۔ اس دنیا نے اس کو کبھی غم نہیں دیا۔ اس دنیا میں اس نے محنت کی۔ وہ نوجوان جس کو نہ انگریزی آتی تھی نہ فرینچ اور نہ اس کے پاس پیسے تھے اور نہ مہنگے کپڑے نہ بڑا گھر۔ کچھ بھی نہیں۔ وہ اس کلاس سے تعلق نہیں رکھتا تھا جو کلاس مہنگے ریستورانوں میں شام کے بعد ملاقاتیں کرتی ہے۔ اس نے ان پارٹیوں میں شرکت نہیں کی، جس میں گلے لگنا اور گال سے گال ملا کر ملنا ایک عام سی بات ہے۔ نوٹوں کی خوشبو سے مہکی ہوئی اس دنیا سے دور رہنے والے وزیرستان کے ایک نوجوان نے صرف دل کے ساتھ مل کر اس قدر سفر کیا کہ سوشل میڈیا پر بغیر کسی ٹیم
کے اس نے اپنے ہزاروں پرستار پیدا کیے تھے۔ اس میں کس قدر صلاحیت تھی۔ اگر اس کی زندگی کلاشنکوف کی گولی سے ختم نہ کی جاتی تو کتنا دور جاتا؟ اس سوال پر اس کے قاتل کو تو سوچنے کی صلاحیت ہی نہیں، مگر اس ملک کے منصف تو اس بات کو محسوس کر سکتے ہیں۔
قندیل بلوچ کے قتل پر جس طرح وہ دنیا درد میں ڈوب گئی، اس طرح نقیب اللہ کے قتل پر وہ رنج اور ملال پیدا نہیں ہوا۔ قندیل بلوچ کے قتل پر تو ابھی تک شک کے سائے لہرا رہے ہیں۔ کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ وہ سب کچھ عبد القوی کا کیا دھرا ہے یا وہ غیرت کا قتل ہے؟ قندیل کا کردار کیسا تھا؟ سب کو معلوم ہے، مگر پھر بھی اس کی زندگی پر ڈرامہ سیریل بنائی گئی۔ اس کی زندگی پر انگریزی میں کتاب لکھی گئی۔ مگر نقیب اللہ کے لیے کیا کیا گیا؟ نقیب اللہ کے لیے جرگہ والوں نے جذبے کا مظاہرہ کیا اور اس کو انصاف دلانے کے لیے ’’امت‘‘ نے پورا سال بھرپور آواز اٹھائی۔ مگر پھر بھی سچائی انصاف کی چوکھٹ پر سر پٹختی رہی اور اس باپ کی بات نہیں سنی گئی جس کو قرآن مجید کی چند آیات کے علاوہ صرف ایک زبان آتی ہے۔ بلند پہاڑوں کی زباں، پشتو زباں، وہ زباں جس کا لہجہ بہت سخت ہے، مگر اس سخت لہجے میں ایک والد کے پاس چند نرم باتیں بھی تھیں۔ اس کے دل میں چند یادیں بھی تھیں۔ اس شخص کو نہیں سمجھا گیا۔ وہ شخص جو اب تک اپنی اس بات پر قائم ہے کہ وہ اپنے بیٹے کے خون کا سودا نہیں کرے گا۔
پورا ایک برس گزر چکا ہے، مگر نقیب اللہ کے والد نے ثابت کیا ہے کہ اس دنیا میں ہر چیز بکاؤ نہیں ہوتی۔
ماں کی چادر
بہن کی عزت
ستاروں کی روشنی
مٹی کی خوشبو
اور نقیب اللہ کا خون!
ان چیزوں کا کوئی مول نہیں۔ ان چیزوں کو کوئی بیچنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ اب تک بیچ والے وزیرستان اور کراچی کے درمیان فون کالیں لگاتے ہیں اور خوں بہا بڑھاتے ہیں، مگر وہاں سے صرف ایک جواب آتا ہے کہ نقیب اللہ کے لیے دولت نہیں چاہئے۔ نقیب اللہ کے لیے انصاف چاہئے!!
ایک وقت ایسا تھا جب یہ صدائیں پورے ملک میں گونجتی تھیں، مگر نقیب اللہ کا مقدمہ زخمی تلور کی طرح تھوڑی دیر کے لیے تڑپا اور پھر ٹھنڈا ہو گیا۔
نقیب اللہ ٹھنڈا گوشت تو نہیں تھا۔ نقیب اللہ ایک گرم خواب تھا۔ اس خواب کا خون کرنے والے زنداں میں رہے بھی تو برائے نام اور اب وہ ملک سے باہر جانا چاہتے ہیں تاکہ وہ عیاشی کے ساتھ اپنے خاندان کے ساتھ مزے کریں۔ وہ بھی وہی کچھ کریں، جو کچھ اس شہر کے قاتلوں نے آج تک کیا ہے۔ نقیب اللہ کے قاتل کو جانے والے چیف جسٹس نے ملک چھوڑنے کی اجازت نہیں دی، مگر اس کے قاتل کو یقین ہے کہ جس طرح اس کو قید سے آزادی مل گئی، ویسے اس کو اس ملک سے بھی آزادی مل جائے گی اور اس ملک میں قانون اور انصاف کو بیچ کر اور وردی پہن کر اس نے کرائے کا قاتل بن کر جو کچھ کمایا، اب وہ اس کمائی سے باقی زندگی عیاشی سے جینا چاہتا ہے۔ اس لیے وہ پریشان نہیں ہے۔ کوئی فرد اور کوئی ادارہ کوئی بھی پریشان نہیں ہے۔ صرف انصاف تھوڑا سا پشیمان ہے اور بس!
ہاں! تو ہم بات کر رہے تھے موسم کی۔ یہی موسم تھا۔ ہلکی اور سرد ہوا تھی…!
اس موسم میں قہوے کی پیالی ایک آئینہ بن جاتی ہے۔ اس آئینے میں بیتے ہوئے دنوں کے عکس لہرانے لگتے ہیں۔ کراچی تو یادوں کا شہر ہے۔ اس شہر میں انسان آتے ہیں۔ چلے جاتے ہیں۔ صرف یادیں رہ جاتی ہیں۔ ان یادوں کو ابھی ایک برس گزرنے کو آیا ہے تو وہ یادیں اس قدر کمزور ہوگئی ہیں کہ صرف چھونے سے بوسیدہ کاغذ کی طرح ختم ہونے لگتی ہیں۔
ابھی تو دو برس بھی نہیں گزرے۔ ابھی تو صرف 365 دن گزرے ہیں اور ہم بھول گئے اس رات کا قصہ، جس رات میں ایک طرف سمندر تھا اور دوسری طرف سہراب گوٹھ۔ ان دونوں سرحدوں کے درمیان ایک شہر جھول رہا تھا۔ جھوم رہا تھا۔ دولت کو چوم رہا تھا۔ کبھی انسانیت کے قریب آرہا تھا۔ کبھی انسانیت سے دور جا رہا تھا۔ یہ وہ رات تھی، جس رات سیاسی جماعتیں اقتدار کے لیے اصول فراموش کرنے کی کوشش میں کامیاب ہو رہی تھیں۔ یہ وہ رات تھی، جس رات میں ایک قاتل وردی کا نقاب پہن کر اس نقیب اللہ پر گولیاں چلانے کا حکم دے رہا تھا، جو نقیب اللہ دو خوبصورت آنکھیں اور دو خوبصورت خواب لے کر اس شہر میں آیا تھا۔ کیا خوبصورت آنکھوں میں خوبصورت خواب بسانا اتنا بڑا جرم ہے کہ اس کی سزا موت ہے؟
نقیب اللہ کو کس نے قتل کیا؟ اس سوال کا جواب سب جانتے ہیں۔
نقیب اللہ کے قاتلوں کو سزا کب ملے گی؟ اس سوال کا جواب تو گوگل کے پاس بھی نہیں ہے۔
آج نقیب اللہ کی پہلی برسی ہے!
آئیں اس کی یاد پر خیالوں کے پھول چڑھائیں!!
آئیں اس کے لیے دل میں درد کی ایک شمع جلائیں!!
اور اس کے حق میں دعا کے لئے ہاتھ اٹھائیں!!
٭
٭٭٭٭٭