دواساز کمپنیوں کی کارکردگی پر نظر رکھنے ، دوائوں کے معیار کو برقرار رکھنے اور قیمتیں مقرر کرنے کیلئے پاکستان میں بھی ایک ادارہ ہے جو کہنے کو تو نیم خود مختار ہے، لیکن یہ براہ راست منسٹری آف نیشنل ہیلتھ سروسز ریگولیشنز اینڈ کوآرڈی نیشن کے ماتحت ہے۔ اس ادارے کا نام ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان ہے۔ ’’ڈریپ‘‘ کے تمام امور کی نگرانی اس کے چیف ایگزیکٹو آفیسر کرتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنی مرضی سے اور متعلقہ وزارت کے سیکریٹری اور وزیر کی اجازت کے بغیر کچھ نہیں کرسکتے۔ ان سب کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ ملک بھر میں بھوک، افلاس، صحت و صفائی کی ناقص سہولیات کے باعث مختلف امراض میں مبتلا ہونے والے بائیس کروڑ عوام کو سستی اور معیاری دوائیں فراہم کریں۔ لیکن اس کے بالکل برعکس یہ محکمے اور ادارے دواساز کمپنیوں کی ملی بھگت سے آئے دن ملکی غیر ملکی دوائوں کے نرخ بڑھانے میں پیش پیش نظر آتے ہیں، جبکہ دوا کے غیر معیاری ہونے کی کوئی پروا نہیں کرتا ۔ کوئی مریض کسی مرض میں مبتلا ہوکر مرنے سے بچ جائے تو وہ ناقص، جعلی اور بعد از تاریخ استعمال دوائوں سے جاں بحق ہوجاتا ہے۔ جس پر کسی کے خلاف کبھی کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ غریب لوگ ناگہانی موت کو اللہ کی مرضی سمجھ کر قبول کرلیتے اور صبر کرکے خاموش ہو جاتے ہیں۔ حکمرانوں کی بے حسی اور عوام کی بے بسی کا اندازہ اس امر سے کیا جاسکتا ہے کہ بجلی، تیل، گیس ، ٹی وی چینلز اور دوا ساز کمپنیوں پر کڑی نظر رکھنے کے لئے اوگرا، پیمرا ، نیپرا اور ڈریپ جیسے جو بھی ادارے قائم کئے جاتے ہیں، وہ محض ان اشیا و خدمات کو گراں قیمت پر فروخت کرنے والوں کی وکالت کرتے اور ان کے مفادات کا تحفظ کرتے نظر آتے ہیں۔ تازہ مثال ڈریپ کی جانب سے ادویہ کے نرخوں میں اضافہ ہے، جو عوام کے لئے تبدیلی کا دعویٰ کرنے والی تحریک انصاف کی بدتر تبدیلی کا ایک اور ’’شاہکار‘‘ ہے۔ بجلی، گیس، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں اور ٹیکسوں میں آئے دن اضافہ کرنے والی موجودہ حکومت نے غالباً طے کر رکھا ہے کہ لوگ بھوک سے مریں یا امراض سے، انہیں روٹی ، پانی کی طرح دوائوں سے بھی محروم کرکے چھوڑیں گے، تاکہ آبادی میں کمی کا حکومتی خواب جلد از جلد پورا ہوسکے۔ وفاقی حکومت نے ڈریپ کی آڑ لے کر ملک بھر سے دوائوں کے نرخ نو فیصد سے پندرہ فیصد تک بڑھادیئے ہیں۔ احسان یہ کیا ہے کہ جان بچانے والی ادویہ نو فیصد مہنگی کی ہیں، جبکہ ہر شہری کی بلا معاوضہ جان بچانا حکومت کے بنیادی فرائض میں شامل ہے۔ وزیراعظم خان نے تو برسراقتدار آتے ہی اعلان کیا تھا کہ وہ پاکستان کو مدینہ جیسی فلاحی مملکت بنائیں گے، لیکن ان کی حکومت لوگوں سے جینے کا حق بھی چھین رہی ہے۔ ڈریپ کی جانب سے جاری کئے جانے والے نوٹی فکیشن، بہ الفاظ دیگر حکمنامے کے مطابق جان بچانے والی تقریباً ساڑھے چار سو دوائوں کی قیمت میں نو فیصد جبکہ دوسری تمام دوائوں کی قیمت میں پندرہ فیصد اضافہ کیا گیا ہے ، جن کی تعداد بیان نہیں کی گئی۔
ڈریپ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ادویہ کی قیمتیں دوا ساز کمپنیوں کے مطالبے پر بڑھائی گئی ہیں ۔کاش تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے نام کی لاج رکھتے ہوئے عوام کا کوئی ایک مطالبہ تسلیم کرکے ان سے بھی انصاف کیا ہوتا، جو اس کے دور میں مہنگائی کی چکی میں پہلے سے کہیں زیادہ بے دردی کے ساتھ پسے اور کچلے جا رہے ہیں۔ عوام کے مفادات اور ان کی فلاح و بہبود کے نام پر برسراقتدار آنے والی تحریک انصاف عوام کی نہیں،بلکہ دوا ساز کمپنیوں کی ترجمان بن کر کہتی ہے کہ پاکستان میں دوائوں کی قیمتیں بین الاقوامی اور علاقائی سطح پر اب بھی کم رہیں گی۔ ترجمان کی جانب سے اگر یہ بھی بتایا جاتا تو بہتر تھا کہ پاکستان میں تیار ہونے والی اور دوسرے ملکوں سے پاکستان کے لئے تیار کی جانے والی دوائوں کا معیار کیا ہے؟ اس کی صرف ایک مثال پاکستان میں پیناڈول نامی ایک گولی روپے سوا روپے میں ملتی ہے، لیکن ایسی چار چھ گولیاں بھی بیرونی ممالک میں بننے والی ایک گولی کے برابر تاثیر نہیں رکھتی۔ اتنی سستی اور بے اثر دوائیں بنانے والی کمپنیاں دوا فروشوں اور اسپتالوں کو قیمتوں میں زبردست رعایت دینے کے علاوہ متعلقہ حکام کو رشوت، کمیشن، بھتے، تحفے اور نہ جانے کیا کیا پیش کرتی ہیں۔ ڈاکٹروں کے لئے بیرون ملک دوروں اور عیاشی کا اہتمام بھی اکثر و بیشتر دوازسا کمپنیاں کرتی ہیں۔ یہ سارا تیل تلوں (عوام) ہی سے نکالا جاتا ہے۔ ترجمان نے دوا ساز کمپنیوں کے وکیل کا کردار ادا کرتے ہوئے مزید فرمایا کہ قیمتوں میں مناسب اضافے کا یہ قدم ملک اور مریضوں کے وسیع تر مفاد میں اٹھایا گیا ہے۔ گویا ملک اور قوم کا مفاد بس یہی رہ گیا ہے کہ انہیں مسلسل زبوں حالی میں مبتلا کیا جاتا رہے۔ ترجمان کہتے ہیں کہ پچھلے ایک سال میں ڈالر تیس فیصد اور ادویہ میں استعمال ہونے والا خام مال اور پیکنگ میٹریل مہنگا ہوا۔ حکومت اور عوام سے زیادہ منافع خور دوا ساز کمپنیوں کے ترجمان یہ بتاتے ہوئے کیوں شرماتے ہیں کہ امریکی ڈالر کے نرخ آسمان تک پہنچانے کا عوام دشمن کارنامہ بھی موجودہ حکومت ہی کا ہے، جس نے تمام اشیائے صرف کی قیمتوں میں آگ لگادی ہے۔ بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھنے سے صنعت دوا سازی پر اضافی بوجھ پڑنے کا جو مروڑ ترجمان کے پیٹ میں اٹھا ہے۔ اس بوجھ کے ذمہ دار عوام نہیں، تحریک انصاف کی حکومت ہے ۔ شرح سود میں اضافے کے علاوہ ترجمان نے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کا بھی حوالہ دیا ہے، جو موجودہ دور حکومت میں شاید ہی کہیں بڑھی ہوں۔ اخباری صنعت سے وابستہ ملازمین حکومت کی سفاکانہ بے حسی کے باعث ایک طرف بے روزگار ہورہے ہیں تو دوسری جانب چھ چھ ماہ سے انہیں تنخواہیں نہیں ملی ہیں۔ ترجمان نے دوا ساز کمپنیوں کی وکالت کرنے کی کیا فیس وصول کی ہوگی کہ انہوں نے کئی غیر ملکی کمپنیوں کی جانب سے کام بند کرکے پاکستان چھوڑنے اور مقامی کمپنیوں کے اپنا کام سمیٹ کر سرمایہ کاری ختم کرنے کا تذکرہ کرنا ضروری سمجھا۔ اس کے برعکس ملک اور عوام کے مفادات کا مبہم اور لایعنی حوالہ دے کر قیمتیں بڑھانے کو ضروری قرار دیا۔ عام شہریوں کو ذرہ برابر بھی سہولت نہ دینے والی حکومت کی پارٹی کا نام ’’تحریک انصاف‘‘ ہے، جو اپنے نام کے بالکل برعکس ہے۔ یہ بھی ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کی طرح عوام کے ساتھ انصاف کرنے کے بجائے انہیں دو نہیں ، چار ہاتھوں سے لوٹنے کھسوٹنے میں لگی ہوئی ہے۔ واضح رہے کہ انسان کے سوا دیگر حیوانات کے چاروں ہاتھ اور پیر برابر ہوتے ہیں۔ تحریک انصاف اور اس کی حکومت پر فارسی کی وہ مثل صادق آتی ہے کہ ’’برعکس نہند نامِ زنگی کافور‘‘۔
٭٭٭٭٭