بھارت کو مذاکرات کی پیشکش کرنا فضول ہے

بھارت نے پاکستان کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش کو ایک بار پھر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ خود پاکستان بات چیت میں مخلص نہیں ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ اگر پاکستان گفت و شنید کے لئے تیار ہے تو پٹھان کوٹ اور ممبئی حملے کے دہشت گردوں کے خلاف اب تک کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ ادھر ایک بھارتی ٹی وی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مودی سرکار اپریل میں ہونے والے انتخابات کی وجہ سے پاک بھارت مذاکرات میں سنجیدہ نہیں ہے۔ یاد رہے کہ چار سال سے دونوں ملکوں کے درمیان نام نہاد مذاکرات کا عمل پوری طرح معطل ہے۔ میاں نواز شریف کے دور حکومت میں ان کی بھارتی وزیراعظم نریند مودی سے دوستی ، دو طرفہ آمدورفت اور نجی تقریبات میں شرکت کا خوب چرچا ہوتا رہا، جس سے اہل وطن کو یہ توقع پیدا ہوگئی کہ دونوں ممالک کے درمیان مسئلہ کشمیر پر بھی شاید بامقصد اور بامعنی مذاکرات کا آغاز ہوجائے، لیکن شریف برادران کے خاندانی طور پر کشمیری ہونے کے باوجود اس سمت میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ اس کے برعکس تمام تر زور نجی کاروبار پر رہا ہے، جسے مخالفین نے آلو پیاز کی تجارت قرار دیا۔ بھارتی وزیراعظم مودی اور دیگر رہنما حسب عادت ایک طرف پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات عائد کرتے رہے تو دوسری طرف ان کی ہرممکن کوشش رہی کہ مسئلہ کشمیر کو پس پشت ڈال کر ثقافتی تعلقات کو فروغ دیا جائے۔ ان کے خیال میں تجارت و ثقافت کے رشتے بحال ہونے کی وجہ سے بھارت دنیا پر یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہوجائے گا کہ اس قدر خوشگوار تعلقات کو مسئلہ کشمیر بیچ میں لاکر کیوں خراب کیا جائے۔ جب دونوں ملکوں کے لوگ آپس میں ملے ہوئے ہیں۔ اس طرح بھارت عالمی برادری کو یہ بھی بتانے کی کوشش کرے گا کہ مقبوضہ کشمیر کے چند شرپسندوں اور دہشت گردوں کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ تعلقات بحال نہیں ہوتے۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اہل کشمیر بھارت کے ساتھ ایک روز کے لئے بھی رہنا پسند نہیں کرتے۔ وہ ستر برسوں سے پوری وادی جموں و کشمیر کے پاکستان سے الحاق کے لئے جان و مال اور عزت و آبرو کی قربانیاں دیتے چلے آرہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے برسر اقتدار آتے ہی متعدد بار یہ کہہ کر بھارت کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا کہ وہ ایک قدم آئے گا تو ہم چار قدم آگے بڑھیں گے۔ سکھوں کی عبادت گاہوں تک باآسانی آنے جانے کے لئے موجودہ حکومت نے تمام تر سہولتیں فراہم کیں، لیکن حسب توقع بھارت کی جانب سے کوئی مثبت جواب نہیں آیا۔ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کی وہی رٹ جاری رہی کہ بات چیت اور دہشت گردی ساتھ نہیں چل سکتے۔ پاکستان دہشت گردی کے خاتمے کے لئے دو طرفہ کوششوں کو ضروری جان کر اپنی جانب سے ہر ممکن تعاون کی باربار پیشکش کرتا رہا ہے۔ پاکستان کے لئے بھارتی ترجمان کا یہ کہنا کہ وہ بات چیت میں مخلص نہیں ہے ، غلط بیانی اور ڈھٹائی کی انتہا ہے۔ ہم ان کالموں میں اپنی حکومتوں سے کئی مرتبہ مطالبہ کرچکے ہیں کہ پاکستان کی جانب سے بھارت کو مذاکرات یا دہشت گردی کے خاتمے کی پیشکش ہرگز نہ کی جائے۔ وہ ہمیشہ اسے ہماری کمزوری پر محمول کرتا ہے۔ پٹھان کوٹ اور ممبئی حملوں میں بھارت نے پاکستان کے خلاف آج تک کوئی ثبوت دیا نہ شواہد فراہم کئے، بلکہ ان واقعات کے بعض بھارتی کرداروں کو خود وہاں کے عدالتی فیصلوں کی روشنی میں ٹھکانے لگایا جاچکا ہے۔ مودی سرکاری اگر اپنے آئندہ عام انتخابات کو مذاکرات ٹالنے کا سبب قرار دیتی ہے تو یہ سراسر فریب ہے، کیونکہ بھارت کی کوئی حکومت آج تک مسئلہ کشمیر سمیت دو طرفہ تنازعات طے کرنے میںکبھی مخلص نہیں رہی۔ اپریل کے انتخابات میں برسراقتدار آنے والی اگلی بھارتی حکومت کا بھی مذاکرات کے معاملے میں یہی رویہ ہوگا۔ پاکستان پر کالعدم تنظیموں کی معاونت کا الزام بالکل بے بنیاد ہے۔ اول تو پاکستان خود انتہا پسند کا سب سے زیادہ شکار رہا ہے، اس لئے دہشت گردوں کی سرکاری حمایت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دوم ، افواج پاکستان نے طویل جدوجہد اور قربانیوں کے بعد پاکستان کو دہشت گرد تنظیموں سے تقریباً پاک کردیا ہے، اب اگر کہیں اکا دکا دہشت گرد سر اٹھاتا ہے تو اسے نہ صرف یہ سرکاری سرپرستی حاصل نہیں ہوتی، بلکہ حکومتی کوشش کے نتیجے میں اس کا سر فوراً ہی کچل دیا جاتا ہے۔ ساری دنیا پاکستان کی اس کامیابی کا اعتراف کرتی ہے۔ ہمارے خیال میں مبصرین کے یہ اندازے بھی غلط ہیں کہ بھارت میں انتخابات کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان کوئی مثبت پیش رفت ہوسکے گی۔ جب تک بھارت کے انتہا پسند جنونی رہنمائوں کی ذہنیت تبدیل نہیں ہوتی، کسی مثبت پیش رفت کا کوئی امکان نہیں ہے اور اس وقت تک پاکستان کو اپنی جانب سے مذاکرات کی پیشکش نہیں کرنی چاہئے۔
میئر کراچی وسیم اختر کے خلاف ایک اور فردِ جرم
تجاوزات کے خلاف عدالتی حکم کے بعد انتظامی اداروں نے ملک بھر میں جو توڑ پھوڑ کی اور تباہی مچائی، اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ جگہ جگہ ملبے کے ڈھیر پڑے ہوئے ہیں، جنہوں نے شہروں کو کھنڈرات میں تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ اس کے علاوہ ہزاروں افراد کے بے روزگار ہونے سے ان کے لاکھوں اہل خانہ پر فاقوں کی نوبت آگئی ہے۔ کراچی کو اجاڑنے اور ویرانی کا منظر پیش کرنے میں ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے میئر وسیم اختر کا کردار سب سے زیادہ ہے۔ یاد رہے کہ وسیم اختر سانحہ بارہ مئی کے سب سے بڑے اور مرکزی کردار تھے۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں صوبہ سندھ کے وزیر داخلہ کی حیثیت سے انہوں نے اپنی نگرانی میں شہر بھر میں فائرنگ کراکے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو کراچی میں داخل ہونے سے روکنے کی کوشش کی تھی۔ اس سلسلے میں وسیم اختر اور دیگر اکیس ملزمان پر انسداد دہشت گردی کی عدالت میں مقدمات چل رہے ہیں۔ انیس جنوری کو ان پر فردِ جرم عائد کی جائے گی۔ امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے سوال کیا ہے کہ میئر کراچی وسیم اختر کو کیا صرف دکانیں توڑنے، لوگوں کو بے روزگار کرنے اور کاروبار کو تباہ کرنے کے اختیارات حاصل ہیں۔ کراچی میں جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر پڑے ہیں، گٹر ابل رہے ہیں، اہم شاہراہوں اور سڑکوں پر گندا اور بدبودار پانی جمع ہے۔ غلاظت کے ڈھیروں سے تعفن اٹھ رہا ہے، جس کی وجہ سے شہریوں کی آمدورفت اور ٹریفک کی روانی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ اس صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے انہیں مزید کن اختیارات کی ضرورت ہے؟ اگر نہیں، تو مندرجہ بالا مسائل حل کرنے میں میئر وسیم اختر کی ناکامی یا غفلت بجائے خود ایک فرد جرم کی حیثیت رکھتی ہے، جبکہ ان پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ وہ ایم کیو ایم کے اپنے لاڈلوں کی تجاوزات بچانے میںکامیاب ہو گئے ہیں۔
(باقی صفحہ 5بقیہ نمبر1)

Comments (0)
Add Comment