وِچو وِچ کھائی جائو

بے نیام
منصور اصغر راجہ

تو اُن کا چراغ دین تھا، لیکن دنیا انہیں اُن کے تخلص دامن ؔسے ہی جانتی ہے۔ پیدائشی لاہوریے تھے۔ باپ درزی تھا، سو بیٹے نے بھی سلائی مشین چلانی شروع کردی۔ لیکن چونکہ پڑھنے لکھنے کا شوق تھا، اس لیے سلائی مشین کی مشقت بھی جاری رہی اور سلسلۂ تعلیم بھی۔ محنت رنگ لائی اور میٹرک کر لیا۔ قدرت نے شاعری کا ذوق بھی خوب ودیعت فرمایا تھا۔ سو میٹرک کے بعد عوامی جلسوں اور مشاعروں میں اپنا کلام سنانے لگے۔ یوں تو وہ اردو، انگریزی، سنسکرت اور ہندی پر بھی عبور رکھتے تھے، لیکن اپنے جذبات، احساسات اور خیالات کے اظہار کے لیے پنجابی زبان کا انتخاب کیا۔ معروف صوفی شاعر شاہ حسینؒ کو اپنا روحانی مرشد مانتے تھے۔ قلندرانہ مزاج پایا تھا۔ مجلس احرار سے محبت تھی اور امیر شریعتؒ سے عقیدت۔ اسی لیے میاں افتخار الدین کے علاوہ امیر شریعت کے جلسوں میں بھی اپنا کلام سنایا کرتے تھے۔ فیض ؔ اور جالبؔ سے بے پناہ پیار تھا کہ فیض ؔ کے انتقال کے چند روز بعد ہی اس جہانِ فانی کو خدا حافظ کہہ کر ان کے پیچھے پیچھے چل دیئے۔ زندگی لاہور کی ہیرا منڈی کے ایک چھوٹے سے حجرے میں گزار دی۔ اُس بازار میں بسنے والیوں کو ہمیشہ بیٹی کہہ کر پکارا۔ ایک بار دلی کے ایک مشاعرے میں نظم پڑھی تو پنڈت نہرو نے انہیں بھارت میں مستقل قیام کی پیشکش کردی، لیکن استاد دامنؔ نے لاہور کی گلیوں کو چھوڑنا گوارا نہ کیا۔ قیام پاکستان کے بعد جب قومی افق پر ’’منزل انہیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے‘‘ کا منظر ابھر کر سامنے آیا تو استاد دامن ؔ نے اپنے کلام میں اُن سیاسی ناہمواریوں اور معاشرتی ناانصافیوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا، جن کا اُس دور میں پاکستانی قوم کو سامنا تھا۔ انہوں نے ایوب، یحییٰ اور ضیاء کا مارشل لا بھی دیکھا تھا اور بھٹو کا ’’عوامی‘‘ دور بھی۔ انہوں نے ہر عہد کے سلطان کی کوتاہیوں پر جرأت مندانہ تنقید کرتے ہوئے عوامی شعور کو بیدار کیا، جس کا انہیں خمیازہ بھی بھگتنا پڑا۔ انہوں ؔ نے بھٹو دور میں جب اپنی مشہور نظم ’’ایہہ کیہ کری جانا ایں، کدی شملے کدی مری جانا ایں‘‘ کہی تو پنجاب پولیس نے اُن کے حجرے میں سے دو ریوالور اور تین دستی بم برآمد کر لیے۔ استاد کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ کمرئہ عدالت ’’ملزم‘‘ سے محبت کرنے والے دانشوروں، شاعروں، ادیبوں، وکلا اور مداحوں سے بھرا ہوا تھا۔ وکلا نے استاد کی ضمانت پر رہائی کے لیے درخواست دائر کر رکھی تھی، جبکہ گورنر پنجاب کی طرف سے حکم تھا کہ ملزم کو کسی بھی صورت رہا نہ کیا جائے۔ اس موقع پر مجسٹریٹ نے استاد سے دریافت کیا:
کیا آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں؟
جواب میں قلندرانہ مزاج کے مالک استاد دامن ؔنے کہا: ’’جس نے کٹہرے میں آج مجھے ملزم بنا کر کھڑا کیا ہے۔ کل وہ مجرم بن کر اسی کٹہرے میں کھڑا ہو گا۔‘‘
اسی دور میں استاد دامنؔ کی ایک اور نظم بھی بڑی مشہور ہوئی۔
دما دم مست قلندر
دما دم مست قلندر
ایہہ دور عوامی آیا اے
کیہ سکھیا، کیہ سکھایا اے
کیہ سمجھیا، کیہ سمجھایا اے
گل گل اُتے چھریاں خنجر
دما دم مست قلندر
(دما دم مست قلندر، اب ملک میں عوامی راج ہے اور اس دور میں یہی سکھایا اور سمجھایا گیا ہے کہ بات بہ بات چھری اور خنجر نکال لیا جائے)
سچ دی گل کرن توں اوکھے
جیون توں اوکھے مرن تو اوکھے
ایہہ بھٹو انصاف دا مندر
رانی باہر تے رانا اندر
دما دم مست قلندر
(اس عوامی دور میں سچ بات کہنا تو کجا، جینا اور مرنا بھی مشکل بنا دیا گیا ہے۔ بھٹو ایسا انصاف پرور حاکم ہے کہ جس کے دور میں رانی باہر اور رانا پابندِ سلاسل ہے)
آخری مصرعے میں جنرل رانی اور مختار رانا کی طرف اشارہ کیا گیا کہ جنرل رانی سابق مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل (ر) یحییٰ کی ’’مردانہ فتوحات‘‘ میں برابر کی شریک تھی اور پھر بھی اس کا شمار ’’معززین‘‘ میں ہوتا تھا اور پیپلز پارٹی کے اساسی رہنما اور سابق رکن قومی اسمبلی مختار رانا کو پارٹی قیادت سے اختلاف کی پاداش میں بھٹو دور میں نہ صر ف قومی اسمبلی کی رکنیت سے محروم ہونا پڑا، بلکہ جیل بھی کاٹنی پڑی۔ جیسے سیانے کہا کرتے ہیں کہ یہ کیسا شہر ہے، جہاں پتھر بندھے اور کتے کھلے پھر رہے ہیں۔ اسی طرح استاد دامن ؔ نے بھی کہا کہ بھٹو دور میں یہ کیسا انصاف ہے کہ جنرل رانی باہر اور مختار رانا اندر ہے۔ مدّتیں گزر گئیں، لیکن پاکستان میں آج بھی ویسا ہی سکھا شاہی انصاف رائج ہے کہ پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے کے خواب دیکھنے والے سیاستدان اندر اور ایک فون کال پر واشنگٹن کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والے سابق آمر پرویز مشرف کے سنگی ساتھی موجودہ حاکم وقت کے کان اور آنکھ بنے بیٹھے ہیں۔
استاد دامنؔ عوامی شاعر تھے اور عوام کے لیے ہی شعر کہتے تھے۔ وہ عمر بھر مظلوموں، کسانوں، مزدوروں اور غریبوں کے حقو ق کے لیے آواز اٹھاتے رہے۔ ہر عہد میں استحصالی طبقات کی مذمت کی۔ حاکمانِ وقت کی غریب کش پالیسیوں اور اقدامات پر استاد دامنؔ فرمایا کرتے تھے:
چاندی سونے تے ہیرے دی کان تے ٹیکس
عقل مند تے ٹیکس نادان تے ٹیکس
مکان تے ٹیکس دکان تے ٹیکس
ڈیوڑھی تے ٹیکس لان تے ٹیکس
پانی پین دے ٹیکس روٹی کھان تے ٹیکس
آئے گئے مسافر مہمان تے ٹیکس
انجیل تے ٹیکس قرآن تے ٹیکس
لگ نہ جائے دین ایمان تے ٹیکس
ایسے واسطے بولدا نئیں دامن
متاں لگ جائے میری زبان تے ٹیکس
(حکمرانوں نے سونے چاندی اور ہیرے کی کان کے علاوہ عقل مند و نادان پر بھی ٹیکس لگا دیا ہے۔ مکان، دکان، ڈیوڑھی اور گھر کے لان پر بھی ٹیکس، پانی پینے اور روٹی کھانے پر بھی ٹیکس، آئے گئے مہمانوں پر بھی ٹیکس، حتیٰ کہ مذہبی کتابوں پر بھی ٹیکس لگ گیا ہے، اب خدشہ ہے کہ کہیں دین و ایمان پر بھی ٹیکس نہ لگ جائے۔ اسی لیے دامنؔ نے اب بولنا چھوڑ دیا ہے کہ کہیں اس کی زبان پر بھی ٹیکس نہ لگ جائے)۔
استاد دامن ؔکو ایسے منافق حاکم سے سخت نفرت تھی جو بظاہر تو کرپشن کے خاتمے کا نعرہ لگائے، لیکن درونِ خانہ کسی اندھے کی طرح اپنوں میں ہی ریوڑیاں بانٹا پھرے۔ ایسے حاکم کے بارے میں کہی گئی استاد دامن ؔ کی یہ نظم تو ان کی پہچان بن گئی۔
کھائی جائو کھائی جائو، بھیت کِنّے کھولنے
وچو وچ کھائی جائو، اُتوں رولا پائی جائو
چاچا دیوے بھتیجے نوں، بھتیجا دیوے چاچے نوں
آپو وچ ونڈی جائو تے آپو وچ کھائی جائو
انھاں مارے انھی نوں، گھسن لگے تھمی نوں
جنی تہاتوں انھی پیندی، اونی انھی پائی جائو
مری دیاں چوٹیاں تے چھٹیاں گزار کے
غریباں نوں کشمیر والی سڑکو سڑکی پائی جائو
ڈِھڈ بھرو اپنے، تے اینہاں دی کیہ لوڑ اے
بھکھیاں نوں لمیاں کہانیاں سنائی جائو
(درونِ خانہ قومی خزانے کو شیرِ مادر سمجھ کر ہڑپ کیے جائو اور منہ زبانی کرپشن کے خاتمے کا شور مچاتے رہو۔ تمہاری اس واردات کا راز بھلا کس نے فاش کرنا ہے۔ چچا بھتیجے کو اور بھتیجا چاچے کو نوازتا رہے اور آپس میں ہی مل بانٹ کر کھاتے رہو۔ ملک میں اِس وقت اندھیر نگری کا راج ہے، اس لیے تم سے جتنی لُٹ مچائی جا سکتی ہے، مچائے رکھو۔ تم غریبوں کی فکر چھوڑو اور صرف اپنے پیٹ بھرو، بھوک کے ہاتھوں تنگ غریب عوام کو بس لمبی لمبی کہانیاں سناتے رہا کرو کہ تم ان کے لیے بہت جلد ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں نکالنے جا رہے ہو۔)
جب سے تحریک انصاف کے جعلی بینک کھاتوں اور وزیر اعظم عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان کی دبئی کے بعد اب امریکہ میں جائیداد کی کہانیاں گردش میں آئی ہیں، ہمیں استاد دامن ؔ بہت یاد آرہے ہیں۔ اگر آج زندہ ہوتے تو ایک بار ضرور کہتے:
وچو وچ کھائی جائو، اُتوں رولا پائی جائو ٭

Comments (0)
Add Comment