2001ء سے 2005ء تک جناب نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ شہر کراچی کے ناظم رہے۔ یہ دور اہالیان کراچی کے لئے بلاشبہ ایک نعمت سے کم نہیں تھا۔ ان کی مخلص اور دیانتدار قیادت میں ان گنت ترقیاتی منصوبوں کا آغاز ہوا۔ اگر رہنما سچے ہوں اور خوف خدا اور فکر آخرت کے جذبے سے سرشار ہوں تو حق تعالیٰ کی رحمت برستی ہے اور خزانے بابرکت مال سے بھر جاتے ہیں۔ آپ عمر رفتہ کو آواز دیجئے اور جناب نعمت اللہ خان کی نظامت کے چار سالہ ریکارڈ کو یاد کیجئے۔ یہ زمانہ کراچی کی شہری تاریخ کا سنہری عرصہ ہے۔ ہر برس باران رحمت دل کھول کر برستا اور حب ڈیم میں ریکارڈ ذخیرئہ آب میسر ہوتا رہا۔
جناب نعمت اللہ خان نے ’’تعمیر کراچی پروگرام‘‘ شروع کرایا، جس کے تحت وفاقی، صوبائی اور شہری حکومتوں کے اشتراک سے کراچی کے بڑے اسٹیک ہولڈرز کو شہر کے ترقیاتی کاموں میں شریک کیا۔ تاہم جناب نعمت اللہ خان کے دور نظامت کے بعد یہ پروگرام ختم کر دیا گیا۔ 2005ء کے بعد شہر کراچی کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ آپ کے سامنے ہے۔ خواجہ الطاف حسین حالیؔ کا یہ شعر تمام احوال واضح کرتا ہے کہ…
اُس کے جاتے ہی یہ کیا ہوگئی گھر کی صورت
نہ وہ دیوار کی صُورت ہے نہ در کی صُورت
شہر کا کباڑہ کرنے والے اور اس کا کچومر نکالنے والے ٹی وی چینلز میں پھنسے ہوئے ہیں اور رگیں پھلا پھلا کر پوچھ رہے ہیں کہ روشنیوں کے شہر کی یہ حالت کس نے بنائی ہے؟ اسے کہتے ہیں تجاہل عارفانہ… میں ایک طویل عرصے سے کراچی شہر کے مسائل اور بالخصوص آر بی ایف یعنی روڈز، برجز اینڈ فلائی اوورز کی تعمیر و ترقی پر فوکس کئے ہوئے ہوں۔ میرا خیال ہے کہ شہروں کا انفرا اسٹرکچر اور تمام بنیادی سہولیات کا R.B.F کے ساتھ نہایت گہرا تعلق ہے… دنیا بھر کے ترقی یافتہ معاشروں کا مشاہدہ کر لیجئے، وہاں آر بی ایف اور تمام دیگر سہولیات کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
2001ء میں جناب نعمت اللہ خان نے شہر کراچی کی نظامت کی ذمہ داریاں اٹھاتے ہی دو میگا پروجیکٹس کی تیاری شروع کر دی۔ پہلا شاندار منصوبہ شاہ فیصل کالونی نمبر 2 سے کورنگی انڈسٹریل ایریا تک، ملیر ندی پر ایک برج کی تعمیر سے متعلق تھا، جبکہ دوسرا عظیم الشان پروجیکٹ ملیر ایکسپریس وے کی تعمیر تھا۔ الحمدللہ ملیر ریور برج کا پروجیکٹ نعمت اللہ خان صاحب کی دن رات کی محنت سے 2005ء میں شروع کردیا گیا اور فروری 2009ء میں اس کا افتتاح ہوا۔ روزنامہ ’’امت‘‘ نے اول تا آخر اس پراجیکٹ کو ہائی لائٹ کیا۔ آج اس ’’رابطہ پل‘‘ سے ہزاروں افراد روزانہ سفر کرتے ہیں۔ ایئرپورٹ تا کورنگی صنعتی ایریا مسافت صرف پندرہ منٹ میں طے ہو جاتی ہے۔ یہ عوام کی راحت رسانی کیلئے جناب نعمت اللہ خان کی کاوش کے باعث ایک انمول تحفہ ہے اور ایک پرخلوص، محنتی، مستقل مزاج اور حیران کن وژن کے حامل ایک سماجی کارکن، ان کی آل اولاد اور ان کے ہمرکاب رفقائے کار کیلئے صدقہ جاریہ ہے۔
جناب نعمت اللہ خان کا دوسرا ترقیاتی ہدف ملیر ایکسپریس وے تھا۔ اس میگا پروجیکٹ کی راہ میں ہماری کرپٹ، رشوت خور اور لینڈ مافیا کی سرپرست بیورو کریسی نے ایسے ایسے روڑے اٹکائے کہ ان کا ذکر کرتے ہوئے میرا ہاتھ تھرتھرانے لگتا ہے۔ حرام مال پر پیٹ کا دوزخ بھرنے والے افسران نے ملیر ایکسپریس وے کی جگہ ملیر ندی کے پاٹ میں 32 کلو میٹر طویل انٹرنیشنل لیول کا باغ بنانے کا خیالی اور دیومالائی تصور پیش کر دیا۔ یہ عالمی سطح کا ایک گارڈن تھا، جس میں ڈزنی لینڈ کی ٹکر پر اسپورٹس، تفریحات اور لطف و انبساط کا زبردست خیالی پلائو پکایا گیا تھا۔ اس پروجیکٹ کے حوالے سے اعلیٰ ترین کاغذ اور خوشنما پرنٹنگ کے ذریعے تصاویر اور منصوبے کی خصوصیات پر مبنی ایک انتہائی مہنگا بروشر بھی شائع کیا گیا تھا۔
جناب نعمت اللہ خان کو اللہ پاک نے دل بیدار، بصیرت، دور اندیشی اور قابل تحسین و قابل تقلید وژن کی صفات عطا فرمائی ہیں۔ انہوں نے ملیر ریور بند پر بذات خود ایک طویل مشاہداتی وزٹ کیا اور سرسبز باغ دکھا کر دنیا کا سب سے بڑا گارڈن بنانے والے رشوت خور افسران کو خوب جھاڑ پلائی اور اس عزم جزم کا اظہار کیا کہ اس مقام پر ملیر ایکسپریس وے ہی بنایا جائے گا۔ 2005ء میں جناب نعمت اللہ خان کے نظامت پیریڈ کا اختتام ہوا تو ناجائز ذرائع سے مال کمانے والے بدعنوان بیورو کریٹس نے ملیر ایکسپریس وے کے میگا پروجیکٹ کی تمام فائلیں طاق نسیان پر رکھ دیں۔ وقت گزرتا گیا، ان فائلوں پر گرد و غبار، دھول مٹی کی تہیں جمتی رہیں، یہاں تک کہ 13 برس گزر گئے، اس دوران ملیر ریور کے پاٹ میں کوڑا کرکٹ اور کچرے کے ڈھیر لگتے رہے۔ اس میں سیوریج واٹر کا نکاس ہوتا رہا اور سرمایہ دار اپنی فیکٹریوں کا کیمیائی فضلہ یہاں پھینکتے رہے۔ ’’امت‘‘ اس کی نشاندہی کرتا رہا، مگر نقارخانے میں طوطی کی آواز پر کسی نے کان نہ دھرے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے سندھ کے وزیراعلیٰ سائیں سید مراد علی شاہ کے دل میں ملیر ایکسپریس وے کے متروک منصوبے کو زندہ کرنے کا خیال ڈالا۔
مورخہ 10-12-18 بروز پیر شاہ صاحب نے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت فرمائی اور ہنگامی بنیادوں پر جولائی 2019ء سے ملیر ایکسپریس وے کے پروجیکٹ پر کام شروع کرنے کے احکامات جاری کر دیئے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ سندھ سیکریٹریٹ میں افسر شاہی کی دوڑیں لگی ہوئی ہیں اور اس اہم منصوبے کو روبہ عمل لانے کیلئے دن رات تمام بیورو کریٹس اور ان کے عملے کے اہلکار سرگرم عمل ہیں۔ صوبائی وزارت بلدیات جناب سعید غنی خود اس عظیم الشان منصوبے کی مانیٹرنگ کر رہے ہیں۔ ملیر ریور کے متوازی ملیر ایکسپریس وے کی تعمیر کا کام کاغذی کارروائیوں سے عملی شکل میں نمودار ہونے لگا ہے۔
ایم نائن موٹروے سے کے پی ٹی انٹرچینج نزد جام صادق برج اس پروجیکٹ کی طوالت تقریباً چالیس کلو میٹرز ہے، اپ اینڈ ڈائون ٹریک پر چار چار لین پر مشتمل اس ایکسپریس وے کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں درمیانی آئی لینڈ یعنی میڈین کی چوڑائی تقریباً آٹھ میٹر ہے تاکہ مستقبل میں ایکسپریس وے کی توسیع اور چوڑائی میں آسانی ہو۔ دونوں ٹریک کے ساتھ تین میٹر کا شولڈر بھی بنایا جائے گا۔ ملیر ایکسپریس وے کے داخلے اور اخراج کیلئے آٹھ پوائنٹس رکھے گئے ہیں، اس منصوبے پر چالیس ارب روپے کی لاگت آئے گی۔ تیس فیصد رقم حکومت سندھ فراہم کرے گی، جبکہ تیس فیصد فنڈز پاکستان پیپلز پارٹی اپنے ذرائع سے ادا کرے گی اور چالیس فیصد اخراجات کنسٹرکشن فرم بینکوں سے قرض حاصل کرے گی۔ یہ رقم ٹول ٹیکس سے واپس کی جائے گی۔
ملیر ایکسپریس وے کے منصوبے کو زیادہ سے زیادہ 36 ماہ میں مکمل کرلیا جائے گا۔ اس منصوبے کی تکمیل سے کراچی شرقی، جنوبی خطے کیلئے مواصلات کے ایک نئے کلچر کا آغاز ہوگا۔ ایم نائن موٹر وے سے کے پی ٹی انٹر چینج تک مسافت صرف 25 منٹ میں طے ہو جائے گی۔ کاٹھور، ڈی ایچ اے سٹی، بحریہ ٹائون اور ضلع ملیر کے گڈاپ ٹائون میں رہنے والے لاکھوں شہریوں نیز کورنگی صنعتی علاقہ اور شاہ فیصل ٹائون کے ان گنت محنت کشوں کیلئے ترقی اور فلاح کے بے شمار دروازے کھلیں گے۔
میں امید کرتا ہوں کہ سید مراد علی شاہ صاحب اور ان کی ٹیم کے تمام ممبران پورے خلوص، محنت، استقلال اور وژن کے ساتھ اس شاندار عوامی فلاحی منصوبے کو مجوزہ وقت میں مکمل کرکے صوبہ سندھ کے عوام کو ایک تحفہ دیں گے۔ مسلسل کام اور صرف کام سے ہی مراد علی شاہ کی مراد حاصل ہوگی۔ اس لئے… ؎
تھکیں جو پائوں تو چل سر کے بل نہ ٹھہر آتشؔ
گلِ مُراد ہے منزل میں خار راہ میں ہے
خدا آپ کا حامی و ناصر ہو۔ میری دعائیں آپ کے ساتھ ہیں۔