ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی
جگت کے ماموں تھے۔ دہلی میں پتلی قبر کے علاقے میں اپنی آبائی حویلی میں بڑے ٹھاٹ باٹ سے رہتے تھے۔ باپ دادا کی بہت بڑی جائیداد تھی، بے شمار دکانیں تھیں، اس لیے گھر بیٹھ کر کھاتے تھے اور سڑکوں پر گاندھی کی سیاست کا پرچار کرتے تھے، کیونکہ وہ پکے کانگریسی تھے۔ گاندھی اور نہرو کے شیدائی اور ان کے ہر ہر فرمان پر جان و مال قربان کرنے والے، کانگریسی رہنمائوں کے ذرا سے اشارے پر سب کچھ لٹانے کے لیے ہر لمحہ تیار رہتے۔ خاندان کا ہر فرد ان کے سیاسی نظریات سے بخوبی واقف تھا اور ان سے اس موضوع پر بات کرتے ہوئے ہچکچاتا تھا، کیونکہ وہ اس معاملے میں انتہائی حساس تھے اور فریق مخالف سے غیر ذمہ دارانہ اور غیر شائستہ گفتگو سے بھی باز نہیں آتے تھے۔ ان کے سات بچے تھے، چار بیٹے اور تین بیٹیاں۔ معید ان کی سب سے بڑی اولاد نظریات میں ان سے یکسر مختلف اور برعکس۔ سعید ماموں نے کسی درسگاہ میں کبھی تعلیم حاصل نہیں کی، مگر ان کا بیٹا علی گڑھ یونیورسٹی میں ایم اے فائنل میں تھا۔ وہ مسلم لیگ اور قائد اعظم سے کلی طور پر عقیدت و محبت کرنے والا پڑھا لکھا سمجھدار نوجوان تھا، خطابت میں اس کے ساتھی پیار سے اسے بہادر یار جنگ کہتے تھے۔
یوں تو پورے ہندوستان میں ہی مسلم لیگ مسلمانوں کی نمائندہ جماعت سمجھی جاتی تھی، لیکن علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبا اس جماعت کے لیے انتہائی سرگرم اور پرعزم نظر آتے تھے۔ ان کے ہر شعبے میں باقاعدگی سے جلسے ہوتے۔ اس میں نوجوان اپنے اس عزم کا اعادہ کرتے کہ مسلمانوں کے حقوق کے لیے وہ ہر قسم کی قربانی دیں گے۔ بعض اوقات کچھ ہندو آکر ان جلسوں میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کرتے، مگر مسلمانوں کا جذبۂ ایمانی، عزم، حوصلہ اور جوش دیکھ کر ان کو کسی بڑی کارروائی کرنے کی ہمت نہ ہوتی۔ معید ان تمام جلسوں میں اپنی پرزور خطابت سے مسلمانوں کے دلوں میں جوش پیدا کرتا۔ وہ ڈائس پر آکر انگریزوں اور ہندوئوں کی مسلم دشمنی کا کھلم کھلا اظہار کرتا تھا۔ ایسے ہی ایک جلسے میں جو شعبہ اردو نے منعقد کیا تھا، اس میں معید نے پرجوش تقریر کی۔ وہ کہہ رہا تھا ’’ہندوستان میں اقتدار کو مضبوط بنانے اور اس کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کے لیے انگریزوں نے مسلم دشمنی میں کوئی کسر نہ چھوڑی ہے۔ انگریزوں کو اس بات کا احساس ہے کہ انہوں نے مسلمانوں سے اقتدار دھوکے سے چھینا ہے۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ جب بھی موقع ملا مسلمان اس کا انتقام ضرور لیں گے۔ اسی لیے انہوں نے مسلمانوں کی قوت اور صلاحیتوں کو کچلنے کا عزم کر رکھا ہے اور ان کو زندگی کے ہر شعبے میں پیچھے کر دیا ہے۔ خواہ وہ تعلیم کا شعبہ ہو یا معاش کا، ان کی انا کو مجروح کیا ہے اور عزت نفس کو اس طرح دبا دیا گیا ہے کہ وہ دوبارہ منظم ہو کر انگریزوں سے اپنا انتقام لینے کے لیے صف آرا نہ ہو سکیں۔‘‘
معید کی آواز بلند ہوتی جا رہی تھی ’’ہندو بھی انگریزوں کے ساتھ ہیں۔ آپ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ انگریزوں کے غیر ہمدردانہ رویئے اور ہندوئوں کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں نے مسلمانوں کو معاشرتی، تعلیمی اور سائنسی میدان میں بری طرح پیچھے دھکیل دیا ہے۔ انگریز حکومت نے ملازمتوں کے دروازے ہم سب پر بند کر دیئے ہیں۔ آیئے ہم سب ایک ہو جائیں، ہر تعصب کو بھول کر مسلم لیگ کے پرچم تلے جمع ہو جائیں۔ آپ نے دیکھا کہ انگریز ہمارے ہوتے ہوئے عیسائیت کی تبلیغ نہیں کر سکتا، کیونکہ ہم ہی اسے اس کام سے روک سکتے ہیں۔ ہمارا ایک تعلیمی نظام تھا، جس کو انگریز نے انگریزی نظام تعلیم میں بدل دیا۔ اب ان کی چال کو ان پر لوٹانے کے لیے ہم سب کو سخت محنت کرنا ہو گی، تعلیم حاصل کرنا ہو گی، آپ کو معلوم ہے کہ بغیر تعلیم کے ہم سب صنعت و حرفت، تجارت میں ہندوئوں سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ ہم ان بنیوں کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔ یہ سازش وقتی طور پر تو مسلمانوں کی تہذیب و تمدن اور ثقافتی ورثے کو ختم کر سکتی ہے، لیکن مسلمانوں کی دینی حمیت اور ایمانی جذبے کو کسی طور پر بھی ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اس جلسے میں ہم سے مل کر عہد کریں کہ ہم متحد ہو کر ہندو اور انگریزوں کی سازش کا ڈٹ کے مقابلہ کریں گے۔‘‘
معید کی تقریر نے نوجوانوں میں ایک نیا جوش و ولولہ پیدا کر دیا تھا۔ تالیوں کی گونج میں وہ ڈائس سے نیچے اترا تو دیر تک ہال میں ہم سب ایک ہیں، مسلم لیگ زندہ باد کے نعرے لگتے رہے۔
قائد اعظم بھی علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبا کے جذبات و احساسات کی بہت قدر کرتے تھے۔ طلبا کی خواہش تھی کہ قائد اعظم خود یونیورسٹی آکر خطاب کریں۔ قائد اعظم خود بھی مناسب موقع کے منتظر تھے۔ ان کی آمد کے اعلان پر طلبا کا جوش قابل دید تھا۔ ہر نوجوان قائداعظم کا سپاہی بن کر ان کی حفاظت کے لیے بے قرار تھا۔ معید اپنے جوش و ولولے کا اظہار اپنے اشعار میں کرتا رہتا تھا، جو مسلم اتحاد کے لیے وہ اکثر و بیشتر کہتا تھا۔ قائد اعظم یونیورسٹی آئے۔ انہوں نے طلبا کو مشورہ دیا کہ وہ صرف حصول تعلیم کی طرف توجہ دیں، کیونکہ یہی وہ راستہ ہے، جو انہیں ان کی منزل تک پہنچا سکتا ہے۔ سعید ماموں کو کسی نہ کسی طرح معید کی سرگرمیوں کی اطلاع ملتی رہتی تھی، مگر وہ اس سے بحث کرتے ہوئے گھبراتے تھے، کیونکہ وہ تو کھلم کھلا کہتا تھا ’’ہندو ایک متعصب، ظالم اور سازشی قوم ہے، جو بار بار فرقہ وارانہ فسادات کر کے مسلمانوں پر ظلم و زیادتی کے پہاڑ توڑتی رہتی ہے۔‘‘ وہ اکثر اپنے باپ سے کہتا ’’ابا جان یہ میرا ایمان ہے کہ جب تک مسلمان اپنے لیے ایک الگ وطن حاصل نہیں کر لیتے، ہندوئوں کی جارحانہ کارروائیاں اسی طرح جاری رہیں گی۔‘‘ کانگریس کے نام سے وہ نفرت کرتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ یہ صرف ہندوئوں کی ایک سیاسی جماعت ہے، جس میں سعید ماموں جیسے سادہ لوح اور پیسے والے لوگوں کو اپنے مفاد کے لیے پھنسا لیا ہے۔ کیونکہ سعید ماموں اس جماعت کے لیے ہزاروں کی رقم چندے کے نام پر دیا کرتے ہیں۔ لاہور کے منٹو پارک میں 23 مارچ کو ایک بڑے جلسے کی تیاریاں ہورہی تھیں۔ معید بھی اپنی یونیورسٹی کی چھٹیوں میں لاہور آیا ہوا تھا۔ قائد اعظم اس جلسے میں ایک الگ وطن کا باقاعدہ مطالبہ پیش کرنے والے تھے، جو صرف اور صرف مسلمانوں کے لیے ہوگی اور نہ صرف مسلمانوں کے حقوق بلکہ اقلیتوں کے حقوق کی بھی ضامن ہوگی۔ جلسے کے دن مقرر ہونے کے فیصلے نے ہندوئوں اور انگریزی حکومت کو فکرمند کر دیا تھا۔ وہ دونوں اس جلسے کو ہر طرح سے ناکام بنانا چاہتے تھے اور اس کے لیے انگریز حکومت نے خاکسار تحریک کے جلوس پر جان بوجھ کر گولیاں چلا دیں، جس سے مسلمان خاکسار شہید ہوگئے۔
معید اور اس کے نوجوان جوشیلے ساتھیوں کے لیے یہ زیادتی ایک چیلنج تھا، وہ غصے اور جھنجھلاہٹ میں بار بار اپنے کمرے سے باہر آتے اور پھر اندر چلے جاتے، وہ سب ایک جذباتی کیفیت سے گزر رہے تھے۔ ہندوستان کے ہر حصے سے مسلم لیگی رہنما لاہور میں جلسے میں شرکت کے لیے آچکے تھے۔ ان سب نے انگریز حکومت کے خلاف احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا، مگر قائد اعظم نے ان کو سمجھایا کہ یہ انگریز حکومت کی سازش ہے کہ وہ خود خونی ڈرامہ کرکے مسلم لیگ کے جلسے کو ناکام بنانے کے بہانے ڈھونڈ رہی ہے۔ اس لیے آپ سب صبر سے کام لیں، جلد بازی سے کام کے بگڑ جانے کا اندیشہ ہے۔ اس وقت آپ سب خاکسار شہیدوں کے لواحقین سے تعزیت کے سوا اور کوئی عملی قدم نہ اٹھائیں۔‘‘ معید جو انتہائی دل گرفتہ اور آزردہ تھا، قائداعظم کی سیاسی سوجھ بوجھ پر حیران رہ گیا۔ قائد اعظم 22 مارچ کو خود انتہائی خاموشی سے لاہور پہنچے اور سیدھے زخمی خاکساروں کی عیادت کے لیے اسپتال پہنچے۔ قائد اعظم کے اس اقدام سے خاکساروں کی غلط فہمی دور ہوگئی۔ معید اور اس کے ساتھی بھی نئے عزم کے ساتھ مسلم لیگ کے جلسے کی تیاری میں مصروف ہو گئے، ہندو اور انگریزوں کے ارادوں پر پانی پھر گیا۔
مسلم لیگ کے اس جلسے کی دور دور تک دھوم مچی ہوئی تھی۔ سعید ماموں بھی بڑی خاموشی سے اس کا تماشا دیکھنے پہنچے۔ مسلمان نوجوان، بوڑھے، کمزور بچے، عورتیں سب مسلم لیگ کے بازو تھے۔ مسلم رہنمائوں کے خلوص اور پرعزم تقاریر نے سعید ماموں کو متزلزل کر دیا۔ پاکستان کے باقاعدہ مطالبہ پر وہ بے چین ہو گئے۔ وہ جلسے کی کارروائی ختم ہونے کے بعد جس خاموشی سے آئے تھے، معید سے ملے بغیر واپس دہلی لوٹ گئے۔ لاہور کے جلسے سے آنے کے بعد ان کی بے چینی بڑھ گئی تھی۔ ایک خدشہ تھا، دھڑکا سا لگا ہوا تھا، اگر پاکستان بن گیا تو کیا ہوگا؟ معید کی تعلیم مکمل ہو گئی تھی، وہ دہلی آکر اپنی سیاسی سرگرمیوں میں مشغول ہو گیا تھا، لیکن وہ حیران تھا کہ سعید ماموں آج کل کچھ نئے قسم کے لوگوں سے ملنے جلنے لگے تھے، جن سے معید واقف نہیں تھا۔ کچھ تو ان کے مسلمان وکیل دوست تھے، جو اب بہت ان کے گھر آنے لگے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ معید کی عقیدت قائد اعظم اور ان دیکھے پاکستان کے ساتھ محبت بڑھتی جا رہی تھی۔ وہ خاموشی سے اپنی تیاریوں میں مصروف تھا۔ خاندان کے سارے افراد ہی کسی نہ کسی کام میں مصروف تھے۔ سعید ماموں بڑی خاموشی سے یہ سب کارروائیاں دیکھتے رہتے تھے۔ 1947ء میں پاکستان بننے کا اعلان ہوا، معید چاہتا تھا کہ اس پاک سرزمین پر سب سے پہلے قدم رکھنے والا اس کا خاندان ہو۔ اس نے اپنی تمام تیاری مکمل کر لی۔ سعید ماموں سے بات کرنے کی کسی میں ہمت نہ تھی، وہ خود ہی ہمت کر کے آگے بڑھا، جس رات پہلی ٹرین پاکستان جانے کے لیے روانہ ہونے والی تھی، معید نے باپ کو سلام کر کے ادب سے ان کے قدموں میں بیٹھ کر کہا ’’ابا جان! پاکستان بن چکا ہے، ہم سب کو اب پاکستان جانا ہے، ہم سب کا خواب ہے پاکستان، ہم سب آپ کی اجازت کے طلب گار ہیں۔ میں آپ سے یہ گستاخی تو نہیں کر سکتا کہ آپ کو مجبور کروں کہ آپ ہمارے ساتھ پاکستان چلیں، کیونکہ آپ تو دل سے اس مطالبہ اور تقسیم کے خلاف ہیں، مگر آپ اکیلے یہاں رہ کر کیا کریں گے۔ آپ بھی چلیں اپنے وطن، اپنے پاک لوگوں کی سرزمین، جہاں کوئی کسی پر ظلم و زیادتی نہیں کرے گا۔‘‘ وہ جذباتی ہو رہا تھا۔ اس کے اندر آنسو کی پھوار گر رہی تھی، بہنیں خاموشی سے دروازے کے پیچھے کھڑی تھیں۔
سعید ماموں نے جھٹکے سے اپنے پائوں چھڑا لیے ’’کیا میں اتنا ہی پاگل نظر آتا ہوں تم لوگوں کو۔‘‘
معید بوکھلا گیا ’’یہ آپ کیا فرما رہے ہیں ابا جان! خدا نہ کرے جو کوئی آپ کے متعلق یہ خیال کرے۔‘‘
’’پھر تم لوگوں نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ میں تم لوگوں کو اس طرح جانے دوں گا۔‘‘ وہ کھڑے ہو گئے۔ انہوں نے معید کے دونوں شانے پکڑ کر اس کا چہرہ اپنی طرف گھمایا ’’ارے پاگلو! میں نے تو بہت پہلے ہی پاکستان جانے کی تیار کر لی تھی۔ دیکھو یہ کاغذات۔‘‘ انہوں نے تکیے کے نیچے سے ایک فائل نکالی ’’میں نے یہاں کی ساری دکانیں، حویلی سب بیچ دیں۔ اب ہم سب اپنا یہ پیسہ پاکستان بنانے، اس کی ترقی کے لیے خرچ کریں گے۔ آخر وہاں بھی تو لوگوں کو ضرورت ہو گی ہم جیسوں کی۔‘‘
معید کو یقین نہیں آرہا تھا۔ وہ حیرت سے سعید ماموں کو دیکھ رہا تھا۔
’’ہاں بیٹا میں نے یہ فیصلہ 23 مارچ کے جلسے کے بعد کیا تھا۔ میں خود اس میں شریک تھا۔ بس اسی وقت میں نے سوچ لیا تھا کہ مجھے کیا کرنا ہے۔ میں نے خاموشی سے یہ ساری جائیداد بیچ دی۔ اگر کسی کو اس کی ہوا بھی لگ جاتی تو شاید ہم سے یہ ہندو زبردستی چھین لیتے اور ہمیں زندہ بھی نہ چھوڑتے۔ اب تم سب تیاری کرو۔ میں بھی نہا کر دو نفل حاجات کے پڑھ لوں۔‘‘ معید کی بہنیں دروازے کے پیچھے سے نکل آئیں۔ خوشی سے باپ سے لپٹ گئیں۔ معید نے بے اختیار ہو کر پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا اور وہ سب رات کے اندھیرے میں پاکستان جانے والی پہلی ٹرین میں سوار ہو گئے اور وہ سب پاکستان جانے والے پہلے مہاجرین تھے۔ جو اپنے دین، اپنے مذہب اور اپنے مقصد کے لیے ہجرت کر رہے تھے۔