سرفروش

یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے نوجوانی کے امنگوں بھرے دور میں اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ صرف اس لئے کہ وطن عزیز پاکستان کو دشمنوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ جمال صاحب کراچی کے قدیم رہائشی ہیں اور ان دنوں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عمر کے آخری حصے میں بصد اصرار اس بات پر آمادہ ہوئے کہ اپنی زندگی کے تہلکہ خیز گوشوں سے پردہ اٹھائیں۔ ان کا اصل نام کچھ اور ہے۔ بعض نا گزیر اسباب کی بنا پر انہیں ’’جمال‘‘ کا فرضی نام دیا گیا ہے۔ اس کہانی کو ڈرامائی شکل دینے کیلئے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔ کیونکہ یہ حقیقی ایڈوینچر کسی سنسنی خیز ناول سے زیادہ دلچسپ ہے۔ جمال صاحب کی کہانی ان لوگوں کیلئے دعوتِ فکر ہے، جنہیں یہ ملک بغیر کسی جد و جہد اور محنت کے ملا اور انہوں نے اس کی قدر کرنے کے بجائے اسی سے شکایات شروع کر دیں۔ امید ہے کہ قسط وار پیش کی جانے والی یہ کہانی ’’امت‘‘ کے خوش نظر قارئین کی پذیرائی حاصل کرے گی۔ (ادارہ)

قسط نمبر: 230
عباس ثاقب

اس اثنا میں ناصر بھی پھاٹک اندر سے بند کر کے آگیا تھا اور میرے الفاظ اس نے بھی سن لیے تھے۔ وہ پُرجوش انداز میں ظہیر سے لپٹ گیا۔ آپس میں مبارک بادوں کے تبادلوں کے بعد میں نے ظہیر اور ناصر کے ساتھ مل کر گاڑی کی ڈگی سے بھاری بھرکم بوری نکالی۔ وزن اتنا زیادہ تھا کہ دونوں ہٹے کٹے نوجوانوں کو بھی اسے اٹھانے میں اچھی خاصی طاقت صرف کرنا پڑی۔ بہرحال وہ دونوں اسے اٹھاکر گھر کی بیٹھک میں لے گئے اور اسے ایک پلنگ پر سجا دیا۔ اس اثنا میں رخسانہ اور جمیلہ بھی وہاں پہنچ چکی تھیں۔
ان سب کی نظریں لمبوتری سی بوری پر جمی ہوئی تھی۔ بالآخر یاسر نے باقی اہل خانہ کی نمائندگی کرتے ہوئے پوچھا۔ ’’یہ تو بہت بھاری بھرکم لگ رہی ہے جمال بھائی۔ کون سا خزانہ اٹھا لائے؟‘‘۔
میں نے مطمئن مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ ’’خزانہ ہی سمجھو۔ یقین مانو نظر پڑتے ہی جی للچا گیا تھا۔ اس کوالٹی کا ایمونیشن اور ویپن اب ہندوستان میں ملنا بہت مشکل ہے۔ اس لیے جتنا ہاتھ لگا، سمیٹ لائے۔ مزید ہوتا تو وہ بھی لے آتے‘‘۔
ظہیر نے پُرجوش لہجے میں میری بات آگے بڑھائی۔ ’’منہ مانگی قیمت دی ہے جمال بھائی نے۔ خالص انگلش ساختہ اسلحہ ہے، اور بالکل نئے جیسا‘‘۔
ناصر نے قدرے بے صبری سے کہا۔ ’’تو بھائی انتظار کیوں کرا رہے ہو؟ دیکھیں تو سہی کیا چیز ہے، جس نے آپ دونوں بھائیوں کے چہروں پر خوشیوں کے رنگ بکھیر دیئے ہیں‘‘۔
میں نے پلنگ پر براجمان ہوکر کمبل میں لپٹتے ہوئے کہا۔ ’’ناصر بھیا، ہم بہت دھکے کھاکر آئے ہیں۔ یہ نیک کام آپ خود کرلو۔ بوری کھول کر یاسر بھائی، رخسانہ اور خصوصاً جمیلہ کو دکھائو کہ ہم نے کیا تیر مارا ہے۔ مال پسند نہ آیا تو جرمانہ قبول ہے‘‘۔
ان چچا بھتیجے کے علاوہ دونوں لڑکیوں کے چہرے بھی تجسس اور اشتیاق سے چمک رہے تھے۔ ناصر مہارت اور پھرتی سے بوری کے منہ پر لپٹی موٹی ستلی کھول رہا تھا۔ پھر بھی جمیلہ نے اس سے ہاتھ تیز چلانے کا مشورہ دیا۔ ناصر رک کر شاید اس پر کوئی جملہ کسنا چاہتا تھا، لیکن غالباً اپنے چچا اور ہم چاروں کی موجودگی کے پیش نظر خاموش رہا۔ بوری کھلنے پر سب سے پہلے ایک دوسرے کے ساتھ لپٹی شاٹ گنوں کی جوڑی سامنے آئی۔ ناصر نے ان پر گہری نظر ڈالی اور خالی پلنگ پر لٹا دی۔ لیکن یاسر نے بے تابی سے انہیں اٹھایا اور الگ کر کے ایک شاٹ گن کا جائزہ لیا۔ ’’یار یہ تو واقعی انگلینڈ مارکہ ہے۔ انتہائی نفیس اور عمدہ ساخت کی‘‘۔
دونوں لڑکیاں بھی نہایت دلچسپی سے بندوقوں کو دیکھ رہی تھیں اور انہوں نے بھی شاٹ گنوں کی جوڑی کی ظاہری کوالٹی اور خوب صورتی کو سراہا۔ اس سے پہلے کہ وہ شاٹ گنوں کی مزید تعریف کرتے، ناصر نے اسٹین گنوں کا گٹھا بھی نکال کر پلنگ پر سجا دیا۔ میں نے یاسر سمیت ان چاروں کے چہروں پر حیرانی، جوش اور خوشی کے ملے جلے تاثرات دیکھے۔ ناصر بوری کو اس کے حال پر چھوڑ کر اب جلدی جلدی تینوں خودکار ہتھیاروں کے بندھن کھول کر انہیں الگ کر رہا تھا۔ اس نے ایک اسٹین گن یاسر کو تھمائی اور دوسری خود لے کر شوق بھری نظروں سے اس کا جائزہ لینے لگا۔
خالی اسٹین گن کا لیور کھینچ کر کاک کرنے اور شانے سے لگاکر چلانے کے بعد یاسر نے خواب ناک سی آواز میں کہا۔ ’’شان دار، لا جواب۔ آپ لوگوں نے کمال کر دیا جمال بھائی۔ واقعی خزانہ لوٹ کر لے آئے ہیں آپ لوگ۔ یہ تو واقعی بالکل نئی ہیں‘‘۔
ناصر نے اس کی تائید کرتے ہوئے بات آگے بڑھائی۔ ’’یہ تو پچھلی بار والی گنوں سے بھی زیادہ خوب صور ت اور نفیس ساخت کی ہیں۔ اور لندن کی بنی ہوئی ہیں۔ ماننا پڑے گا، یہ انگریز لوگ اپنے کارخانوں میں جو چیز بناتے ہیں، کمال کی بناتے ہیں‘‘۔
ظاہر ہے، ایسے میں جمیلہ کب پیچھے رہنے والی تھی۔ اس نے بھی بڑھ کر تیسری اسٹین گن اٹھا لی اور رخسانہ کے پاس لے آئی۔ انہوں نے شاید زندگی میں پہلی بار یہ ہتھیار دیکھا تھا، اس لیے ان کی حیرت اور اشتیاق دیدنی تھا۔ بالآخر جمیلہ نے ہی اپنا ردِ عمل ظاہر کیا۔ ’’یہ بندوق دیکھنے میں تو چھوٹی سی ہے، لیکن بہت بھاری ہے۔ چار سیر وزنی تو ہوگی‘‘۔
میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’ہاں، یہ سب مشین گن ہے۔ اسے اسٹین گن کہتے ہیں۔ ٹھوس فولاد کی بنی ہوئی ہے، اس لیے بھاری تو ہوگی۔ اور اس کی چھوٹی جسامت سے دھوکا نہ کھانا۔ یہ انتہائی تباہ کن اور ہلاکت خیز ہتھیار ہے۔ یہ ایک ایک کر کے گولی نہیں چلاتی، بلکہ گھوڑا دبتے ہی گولیوں کی برسات کر دیتی ہے۔ یعنی اس سے چند سیکنڈوں میں ایک ساتھ لگاتار بتیس گولیاں فائر کی جا سکتی ہیں۔ یوں سمجھوں کہ اکیلا بندہ اچھی خاصی فوج کو مارگرا سکتا ہے‘‘۔
میری بات سن کر رخسانہ کی آنکھیں حیرت اور خوف سے پھیل گئیں۔ اس کے مقابلے میں جمیلہ قدرے کم مرعوب دکھائی دے رہی تھی۔ اس نے فوراً ہی ذہانت سے بھرپور سوال داغ دیا۔ ’’پھر تو یہ بہت جلدی خالی ہو جاتی ہوگی اور اسے دوبارہ بھرنا پڑتا ہوگا۔ نشانہ ٹھیک نہ لگا تو سمجھو اپنا کام تمام‘‘۔ اس کی بات سن کر میں نے تحسین آمیز قہقہہ لگایا۔ ظہیر اور یاسر نے بھی میرا ساتھ دیا۔
ظہیر نے بوری سے اسٹین گن کے میگزین نکال کر جمیلہ کو دکھاتے ہوئے کہا۔ ’’یہ گن لڑائی کے دوران رُک کر بار بار لوڈ نہیں کرنی پڑتی محترمہ۔ اس میں یہ گولیوں سے پہلے سے بھرے ہوئے میگزین لگتے ہیں۔ جیسے ہی ایک میگزین خالی ہوتا ہے، اسے ہٹاکر ایک سیکنڈ میں نیا میگزین لگالیتے ہیں۔ یہ دو تین میگزین کسی اچھی خاصی پلٹن کا صفایا کرنے کے لیے کافی ہیں۔ ہم نے خوامخواہ تو اتنی بھاری رقم نہیں دی ان کے لیے۔ پتا ہے، ان میں سے ہر ایک دو ہزار روپے میں پڑی ہے ہمیں!‘‘۔
یہ سن کر ان چاروں کے چہروں پر حیرت کے آثار ابھرے۔ میں نے کہا۔ ’’یہ واقعی بہت بڑی رقم ہے۔ لیکن یہ بات ذہن میں رکھیں کہ ہم نے یہ قیمت دراصل رازداری کی ادا کی ہے۔ ہمیں بغیر کسی الجھن کے یہ اسلحہ مل گیا ہے اور فروخت کرنے والا بھی بھاری مال کمانے پر خوش ہے۔ اب ہمیں اس کی طرف سے کسی مخبری کا خوف نہیں ہے‘‘۔ انہوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں میرے موقف کی تائید کی۔ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment