خاموشی

ایک طرف عالمی برادری کی خاموشی اور دوسری طرف بھارت کی مکاری کا کھیل آخر کب تک جاری رہے گا؟ قابل تحسین ہیں مقبوضہ جموں و کشمیر کے وہ سرفروش جنہوں نے اپنے دلوں سے اپنے اہل و عیال، مال و متاع، گھر بار کی فکروں کو بالائے طاق رکھ کر اپنی سرزمین کی آزادی کے لیے شہادت جیسی عظیم نعمت کا انتخاب کیا۔ وہ بھارتی غلامی پر عزت کی موت کو ترجیح دے رہے ہیں۔ آخر کیوں؟ یہ ہے وہ سوال جس کا جواب آج کے نام نہاد تہذیب یافتہ عالمی جمہوریتوں کے حکمرانوں کے پاس ہے نہ اقوام متحدہ کے پاس۔ اہل کشمیر کے اس سلگتے سوال کا کوئی تسلی بخش جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ برسوں سے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی غاصب فوج کے ہاتھ آزادی کی جدوجہد کرنے والے کشمیریوں کے لہو سے رنگین ہیں۔ آخر ان تہذیب یافتہ اور ترقی یافتہ ممالک کے انسانوں کے دل میں ان مظلوم و نہتے کشمیریوں کے لیے احساس کیوں پیدا نہیں ہوتا؟ کشمیری اپنی زمین پر اپنا پیدائشی حق مانگ رہے ہیں۔ تقسیم ہند کی دھول ابھی بیٹھی ہی نہ تھی کہ بھارت نے عالمی قوانین کی خلاف ورزی اور 3 جون 1947ء کے تاریخی لندن پلان کو نظر انداز کرتے ہوئے کشمیر پر قبضہ کرلیا۔ آبادی کے واضح مسلم تناسب کا مہاراجہ کشمیر نے احترام کیا، نہ ان کی رائے معلوم کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس کے برعکس وہ اپنے ہندووانہ تعصب میں بہہ گیا اور کانگریس لیڈروں کی خوشنودی کی خاطر راتوں رات اپنا یکطرفہ فیصلہ کشمیر پر لاگو کردیا۔ یہ جاننے کی اس نے کوشش نہیں کی کہ وادی کشمیرکی مسلم اکثریت برصغیر کی تقسیم کے نتیجے میں قائم ہونے والے دو نئے ملکوں میں سے کس کے ساتھ رہنا چاہتی ہے۔ لندن پلان میں واضح کیا گیا تھا کہ غیر منقسم ہند کی ریاستوں کے مہاراجہ از خود کوئی فیصلہ عوام کی مرضی کے خلاف نہیں کر سکتے۔ کوئی فیصلہ کرنے سے قبل انہیں دیکھنا ہوگا کہ ریاستوں کی آبادی اکثریتی باشندوں کی سماجی، ثقافتی روایات کیا ہیں؟ آیا وہ بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں؟ لائن آف کنٹرول کے اس پار اپنے زیر انتظام کشمیری علاقوں کو بھارت نے اپنا اٹوٹ انگ کہنا شروع کر دیا۔ اسے کون یاد دلائے گا کہ 1948ء میں نئی دہلی حکومت کی دہائی پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اپنی منظور کردہ قرارداد نمبر 39 میں فیصلہ کیا تھا کہ ہر دو متحارب فریق (پاکستان اور بھارت) کی فوجیں اپنے مقام پر ٹھہریں گی۔ بقول بھارت جوںہی کشمیر میں حالات معمول پر آجائیں گے عوام اقوام متحدہ کی نگرانی میں اپنا حق خود ارادیت استعمال کر سکیں گے۔ جنوبی ایشیاء میں امن کے قیام کا ڈھونڈورا پیٹنے والے امن کے ٹھیکیداروں کے سوئے ہوئے ضمیر مسئلہ کشمیر کا نام لبوں پر آتے ہی اب بھی اپنی آنکھیں موند لینے سے باز نہیں آتے۔ ان اداروں نے مسئلہ کشمیر کے بارے میں بھارت یا پاکستان یا کشمیری تحریک آزادی سے پوچھا کہ بھارتی زیر کنٹرول کشمیری مسلمانوں کے انسانی حقوق پامال تو نہیں کئے جا رہے؟
اس امر میں کوئی شک اور دو رائے نہیں کہ کشمیر برصغیر کی تقسیم کا نامکمل ایجنڈا ہے اور اس مسئلے کے منصفانہ حل تک اس خطے کے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ برصغیر کی تقسیم کو 70 سال سے زیادہ ہو چکے ہیں، تاہم اتنے برسوں سے حل طلب مسئلہ کشمیر کی وجہ سے جہاں پاکستان اور بھارت کے درمیان پائیدار امن کے قیام کو سنگین خطرات لاحق ہیں، وہیں لائن آف کنٹرول کی دونوں جانب بسنے والے کشمیری عوام کی مشکلات میں بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ خصوصاً مقبوضہ کشمیر میں جس بدترین طریقے سے عوام کے انسانی حقوق پامال ہو رہے ہیں، اس پر پوری دنیا میں پھیلی کشمیری قوم سراپا احتجاج ہے۔ افسوس! نہ تو عالمی طاقتوں کے کان پر جوں رینگتی ہے اور نہ ہی بھارت کی ہٹ دھرمی میں فرق آتا ہے۔ ان تمام حالات کے باوجود ہر بار کشمیری عوام پہلے سے بھی زیادہ جوش اور جذبہ حریت سے سرشار ہوکر ابھرتے ہیں۔ کیوں کہ ان کا مسئلہ حقیقی اور صحیح ہے اور ان کو اپنی آزادی کے حصول کے
لیے ایک طویل اور صبر آزما جدوجہد سے دوچار ہونا پڑا۔ تاہم تاریخ کا یہ سبق ہے کہ مسلسل مزاحمت بار آور ثابت ہوتی ہے اور حریت پسند آزادی کی صبح طلوع ہوتے ضرور دیکھتے ہیں۔
دوسری جانب پوری دنیا کے سامنے بھارت کی موجودہ مودی سرکار کے تمام منافقانہ رویئے بھی کھل کر آچکے ہیں کہ مودی سرکار بغل میں چھری اور منہ میں رام رام کی عملی تصویر ہے۔ کشمیری عوام بھی بھارت کے دوغلے رویے کو پرکھ چکے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کے اندر آزادی حاصل کرنے کا جذبہ زور پکڑتا جا رہا ہے اور اب دنیا کی کوئی طاقت ان کی آزادی کے سفر کو روک نہیں سکتی اور وہ دن بھی دور نہیں جب بھارت کی بالادستی کا جنازہ کشمیری عوام کے ہاتھوں سے ہی نکلے گا اور بھارت کے تمام مکروہ عزائم کشمیریوں کی جدوجہد آزادی اور ان کے جذبوں کی لپیٹ میں آکر خاک میں مل جائیں گے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ کشمیریوں کی آزادی کی تحریک اس وقت تک جاری رہے گی جب تک آزادی کا سورج طلوع نہیں ہوتا۔
کشمیریوں کی جنگ بھارت کے کالے قوانین کے خلاف نہیں، بلکہ وہ اپنی مرضی کا مستقبل چاہتے ہیں، وہ آزادی سے رہنے کی خواہش رکھتے ہیں، وہ غلامی کی زنجیریں توڑنے کی عزم رکھتے ہیں۔ جمہوریت کے سب سے بڑے دعویدار بھارت نے ان کی جمہوریت چھین رکھی
ہے، اس نے پوری قوم کو غلام بنا رکھا ہے۔ بندوق کی نوک پر عوام کو قید کیا گیا ہے، مگر کشمیری نسل درنسل آزادی کی جنگ میں مصروف ہیں۔ کشمیریوں نے سب سے زیادہ قیمتی عزت و جان کی قربانی دی ہے، اس سے بڑھ کر ان کے پاس دینے کو کچھ نہیں ہے۔ بھارت، مظالم کے سہارے آواز کو دبا رہا ہے۔ امریکا کے تمام اخبارات بالخصوص واشنگٹن پوسٹ کشمیر کی صورتحال پر شہ سرخیوں سے رپوٹنگ کررہا ہے، جس نے بھارتی فوجیوں کی طرف سے خواتین اور معصوم بچوں پر مظالم ڈھانے کی جانب توجہ دلائی گئی ہے۔ فوج کی جانب سے مہلک چھروں کا استعمال کیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے سینکڑوں بچے آنکھوں سے محروم ہوگئے ہیں۔ اس آزادی کی تحریک میں بہت سے موڑ آئے، اپنوں کی بے اعتنائیوں اور اغیار کی سازشوں کی وجہ سے بعض اوقات تحریک کمزور بھی پڑی، مگر شہدا کا لہو اس تحریک کے لیے ایندھن کا کام کرتا رہا۔ جب بھی کبھی تحریک کمزور ہوئی تو شہدا نے اس کو اپنے لہو کا خراج دے کر اسے بام عروج تک پہنچایا۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد اس وقت تحریک آزادی ایک نئے دور میں داخل ہو چکی ہے، اس تحریک کو دبانے کے لیے بھارتی افواج نے کشمیر میں ظلم و تشدد کو بڑھا دیا تو اس کے جواب میں کالجز اور یونیورسٹیز میں پڑھنے والے کشمیری طلباء مجاہدین کی صفوں میں شامل ہونے لگے۔ یہ کشمیریوں کی وہ تیسری نوجوان نسل تھی، جس نے آنکھ ہی مظالم اور تشدد سہتے ہوئے کھولی تھی۔ جو جوان ہی ٹارچر سیلوں کے اندر ہوئی تھی۔ ان ٹارچر سیلوں میں ان پر کیے جانے والے تشدد اور ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے پیاروں کی تڑپتی لاشوں نے ان کے دلوں میں بھارت کے خلاف نفرت کوٹ کوٹ کر بھر دی ہے اور وہ آزادی سے کم کسی بھی قیمت پر بالکل بھی تیار نہیں ہیں۔ اب تحریک کی قیادت انہی نوجوانوں کے پاس ہے۔ انہی نوجوانوں سے ابوالقاسم شہید اور برہان وانی شہید تھے، جنہوں نے مظالم کے خلاف ہتھیار اٹھا کر بھارتی درندوں کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ جموں کشمیر کے لاکھوں نوجوانوں کے آئیڈیل اور دلوں کی دھڑکن بن گئے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے ابو القاسم اور پھر برہان کی شہادت پر ان کے جنازوں میں لاکھوں کشمیری جمع ہوئے اور ان میں اکثریت کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے طلباء کی تھی۔ یہ نوجوان پاکستان کے پرچم لہرا کر پاکستان سے اپنی محبت کا ثبوت بھی دے رہے ہیں۔ اس معاملے پر تحریک آزادی میں جو تیزی اب آئی ہے، اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی فوج کے کور کمانڈرز اور جنرلز یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ ہم کشمیر میں جنگ ہار چکے ہیں۔ اس وقت تحریک اپنے نقطہ عروج پر ہے۔ بھارت کے اندر سے اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کے بیانات بھی آرہے ہیں۔ امریکا اور دیگر ممالک کی توجہ اس طرف ہونا شروع ہوگئی ہے تو بھارت نے ان مظاہروں کی میڈیا کوریج پر پابندی عائد کر دی ہے اور دوسری طرف کشمیر میں انٹرنیٹ سروس معطل کر دی ہے۔ ان اقدامات سے بھارت کی بوکھلاہٹ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ بھارت ان حالات میں اسرائیل کے ساتھ مل کر ہر وہ اوچھی حرکت کرنے کو تیار ہے، جس سے اس تحریک کی تیزی میں کمی آسکے۔ ان سب کے باوجود بھارت کشمیری نوجوانوں کے سامنے بے بس نظر آرہا ہے۔ ان گھمبیر حالات میں اقوام متحدہ اور ترقی یافتہ ممالک کو کشمیریوں پر ہونے والے مظالم پر خاموشی اختیار نہیں کرنی چاہئے۔ کشمیریوں پر بھارت کے برسوں سے مظالم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، ان مظالم پر اقوام متحدہ، او آئی سی اور دیگر ممالک کی خاموشی جرم سے کم نہیں ہے۔
(باقی صفحہ5بقیہ نمبر5)

Comments (0)
Add Comment