ہائیڈ پارک
شیراز چوہدری
پیپلز پارٹی اب سندھ کی جماعت بن چکی ہے۔ یہ بات باقی لوگ تو پہلے ہی مانتے ہیں، لیکن اس کی تصدیق کرنے کا کوئی موقع خود پی پی پی بھی جانے نہیں دیتی۔ پیپلز پارٹی کی تاریخ ہے کہ جب بھی اس کی قیادت کے احتساب کی باری آتی ہے، وہ سندھ کارڈ کھیلنے پر آجاتی ہے۔ بینظیر بھٹو کے دور سے یہ معاملہ شروع ہوا تھا، جب محترمہ نے سندھ پنجاب سرحد پر دھرنا دیا تھا، یہ وہ وقت تھا جب نواز شریف وزیر اعظم تھے، آصف زرداری جیل میں اور محترمہ بینظیر بھٹو پر بھی مقدمات کی تلوار لٹک رہی تھی۔ وہ تو اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور ملک قیوم کی کال لیک ہوگئی، ورنہ سندھ کارڈ اسی وقت ناکارہ ہو جانا تھا۔ سندھ کارڈ کھیلنے کی وجہ سے ہی پارٹی کے ہاتھ سے پاکستان کارڈ نکل گیا، وہ جماعت جو اپنے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے وقت پنجاب کی سب سے بڑی قوت تھی، اس کی حالت اب یہ ہوگئی ہے کہ اس کے پاس بڑے صوبے میں کھڑے کرنے کے لئے امیدوار نہیں ہوتے اور جو کھڑے ہوتے ہیں، وہ قومی اور صوبائی نشستوں پر کونسلرز جتنے ووٹ بھی مشکل سے حاصل کر پاتے ہیں، لیکن اس کے باوجود پی پی پی بار بار اسی کارڈ پر انحصار کرتی ہے۔ ایک طرف سندھ کارڈ کا بار بار استعمال اور دوسری طرف بلاول کو وزیر اعظم بنانے کی باتیں! لگتا ہے پارٹی رہنما بلاول کے ساتھ بھی مذاق کر رہے ہوتے ہیں، ورنہ انہیں بھی یہ یقین ہو چکا ہے کہ اب پارٹی کے پاس جو کچھ ہے سندھ میں ہے، لہٰذا وہ اسے ہی بچانے کی کوشش میں مصروف نظر آتے ہیں۔ یوں تو جے آئی ٹی کی ہوشربا رپورٹ سامنے آنے سے پہلے ہی پی پی پی قیادت نے سندھ کارڈ دکھانا اور کھیلنا شروع کردیا تھا، لیکن اب تو وہاں کے کچھ وزرا بہت آگے نکل رہے ہیں۔
پی پی پی کے بعض وزرا کی جانب سے وفاقی وزرا کے سندھ میں داخلے پر پابندی کی باتیں اور انہیں گرفتار کرنے کی دھمکیاں سن کر ہمیں چار پانچ برس پرانی ایم کیو ایم یاد آگئی۔ اس وقت ایم کیو ایم کے رہنما بھی اسی طرح کے الفاظ استعمال کرتے تھے۔ وہ تو وفاقی ہی نہیں، سندھ میں پی پی پی کی حکومت ہوتے ہوئے بھی ان کے وزرا کو کھلے عام اسی طرح کے چیلنج دیتے تھے۔ کراچی کو نوگو ایریا بنانے کی دھمکیاں دیتے تھے۔ اس وقت وفاق اور سندھ میں
حکومت ہوتے ہوئے بھی پیپلز پارٹی کے رہنما لندن سے ایک خطاب پر بلکہ الطاف حسین کو چھینک آنے پر بھی ایک ٹانگ پر کھڑے ہو جاتے تھے۔ صدر سے لے کر وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ سے لے کر وزیر داخلہ تک سب الطاف حسین کو منانے کے لئے منت سماجت سیشن شروع کر دیتے تھے۔ ایک وزیر کو فوراً ’’بریف کیس‘‘ دے کر لندن روانہ کر دیا جاتا تھا اور دوسری ٹیم متحدہ کے گورنر کے پاس جا کر بیٹھ جاتی تھی کہ کہیں کراچی میں داخلہ واقعی بند نہ ہو جائے۔ پرانی ایم کیو ایم کے سامنے تو لگتا تھا پی پی پی رہنمائوں کو سانپ سونگھ جاتا تھا، لیکن وقت وقت کی بات ہے۔ پی پی پی وہ وقت اب بھول گئی ہے اور خود متحدہ رہنمائوں کی زبان اپنانے کی کوشش کر رہی ہے، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ متحدہ تو اس سے بہت مضبوط تھی، چند منٹوں میں پورا شہر بند کرا دیتی تھی، پھر بھی ریت کی دیوار کی طرح گر گئی۔ پیپلز پارٹی کے پاس تو متحدہ والی طاقت بھی نہیں، نہ جانے کس پرتے پر کچھ وزرا کو اس طرح کے بیانات دینے پر لگا دیا گیا ہے کہ لوگوں کو ایم کیو ایم کے رہنمائوں کے بیانات یاد آجائیں۔ ایسے بیانات پر جن لوگوں کو لگایا گیا ہے، انہیں عرف عام میں سیاسی ورکر بھی کہا جاتا ہے، ظاہر ہے جاگیردار اور بااثر وزرا اور رہنما تو ایسے بیانات کبھی نہیں دیں گے، وہ تو ہمیشہ اپنے لئے آگے کا راستہ کھلا رکھتے ہیں۔ اس سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ سیاسی ورکر کہلانے والے دو چار رہنما پارٹیوں میں کیوں رکھے جاتے ہیں، انہیں ایسے کام ہی لینے کے لئے رکھا جاتا ہے اور وہ بھی کبھی اپنے باسز کو مایوس نہیں کرتے۔
بچے غیر سیاسی ہوتے ہیں۔ شاید اسی لئے سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی کیس کی سماعت میں چیف جسٹس نے بلاول کو معصوم بچہ قرار دے کر خاصی رعایت دے دی تھی۔ ای سی ایل اور جے آئی ٹی سے نام نکالنے کی ہدایت کردی تھی، اس کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پی پی پی قیادت اپنے جانشین کو منی لانڈرنگ کیس کے حوالے سے غیر سیاسی بنانے کی کوشش کرتی۔ اومنی کا بوجھ اپنے کندھے پر اٹھانے کی کوشش کرتی، تاکہ بلاول کا سیاسی مستقبل محفوظ رکھا جاسکے، لیکن اس کے بعد بلاول سے جس طرح کی تقریریں کرائی جا رہی ہیں، اس سے تو لگتا ہے وہ سپریم کورٹ کو کہہ رہے ہیں، کہ بچے غیر سیاسی نہیں، بلکہ سیاسی ہوتے ہیں، لہٰذا آپ اپنے حکم نامے میں ترمیم کرلیں۔ شاید اسے دیکھتے ہوئے ہی حکومت نے بلاول کو غیر سیاسی کے بجائے سیاسی بچے کے طور پر لیا ہے اور نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالنے سے انکار کر دیا ہے۔ ٭