2018ء… تحریک آزادی کا خونی سال

مقبوضہ کشمیر میں 2018ء خونی سال رہا۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم جموں اینڈ کشمیر کولیشن سول سوسائٹی کے اعداد و شمار کے مطابق 2018ء میں 586 افراد جاں بحق ہوئے۔ جان بحق ہونے والوں میں 267 مجاہدین اور 31 بچوں سمیت 160 عام شہری بھی شامل تھے۔ تحریک حریت کے مطابق شہداء کے اعداد و شمار اس سے بھی زیادہ ہیں۔ تاہم اس بات پر سبھی متفق ہیں کہ یہ برس تحریک آزادی کا سب سے زیادہ خونی سال تھا۔ بھارتی پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس میں 210 ’’اتنگ وادیوں‘‘ (مجاہدین) کو ہلاک کیا گیا۔ اس کے علاوہ 57 سویلین جاں بحق ہوئے۔ مقبوضہ کشمیر کی پولیس جانی نقصان کے اعداد و شمار میں ان مجاہدین کو شامل نہیں کرتی، جو مبینہ طور پر سرحد عبور کرتے ہوئے سیکورٹی اہل کاروں سے مڈھ بھیڑ میں شہید ہو جاتے ہیں۔
دوسری طرف بھارتی خبر رساں ادارے عموماً کسی شہری کے شہید ہونے کی خبروں کو تسلیم ہی نہیں کرتے، بلکہ عام شہریوں کو بھی ’’اتنگ وادی‘‘ (مجاہد) قرار دے دیا جاتا ہے۔ پولیس کے مطابق 78 سیکورٹی فورسز کے اہل کار بھی ہلاک ہوئے۔ تحریک حریت کے مطابق شہید ہونے والے مجاہدین اور عام شہری کئی ہزار ہیں اور زخمی بھی ہزاروں میں ہیں۔
کشمیر کی تحریک آزادی اور بھارت کی ریاستی دہشت گردی گزشتہ تیس برس سے جاری ہے۔ تاہم سال 2000ء سے مجاہدین کی کارروائیاں کم ہو گئیں اور نہتے کشمیریوں نے بندوق بردار فوجیوں کے مقابلے میں پتھر اٹھا لیے تھے۔ 2010 ء میں غیر عسکری سرگرمیوں کے دوران ایک سو سے زیادہ کشمیری شہید ہوئے، جو ایک عشرے میں سب سے زیادہ جانی نقصان تھا، لیکن گزشتہ برس نہتے عوام کی تحریک اور فوج کی سفاکی میں جو شدت آئی، اس کی گزشتہ طویل عرصے میں مثال نہیں ملتی۔ اس برس ایک نئی طرز ستم ایجاد ہوئی ہے، بھارت نہتے اہل کشمیر کے سینوں پر سیدھی گولیاں تو پہلے بھی چلاتا تھا، پیلٹ گنوں سے چند ماہ کے بچوں کی آنکھیں تو کئی برس پہلے سے پھوڑی جاتی رہی ہیں۔ تاہم گزشتہ برس عسکری اداروں نے مجاہدین کی تلاشی کے بہانے پُرامن بستیوں اور گھروں میں گھس کر نہتے عوام کا لہو بہانے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔
اس ظلم وستم سے بھارتی فوج کی سفاکی ہی نمایاں نہیں ہوتی، بلکہ یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ تیس برس کے ظلم و ستم سے کشمیری قوم کی آزادی کی جدوجہد میں کمی نہیں آئی، بلکہ اس میں اضافہ ہوا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ 2019ء میں جدوجہد آزادی میں مزید شدت آنے کی توقع ہے، اس حساب سے انہیں اس خون ریزی میں بھی شدت آتی نظر آ رہی ہے۔ بی بی سی کا کہنا ہے’’نئے سال میں حالات مزید خراب ہونے کے خدشات ہیں، کیونکہ دہلی سرکار اور علیحدگی پسندوں کے مؤقف میں کوئی نرمی نظر نہیں آ تی۔‘‘
متعصب بھارتی میڈیا آج بھی بڑی بے شرمی سے یہ سفید جھوٹ بول رہا ہے کہ خطہ کشمیر میں تین عشروں سے جاری پرتشدد تحریک کا ذمے دار پاکستان ہے۔ بھارت کا انصاف پسند تجزیہ کار اس تحریک کو داخلی (Indigenous) قرار دیتے ہیں، مگر بی جے پی حکومت اسے پاکستان کی مداخلت کا نتیجہ کہتی ہے اور کشمیر پر مذاکرات کرنے سے بھی انکاری ہے۔ مودی حکومت کہتی ہے کہ پہلے پاکستان دہشت گردی بند کرے۔ بھارتی آرمی چیف نے پاکستان کی سرحد کے اندر گھس کر عسکری آپریشن کرنے کی بڑ ہانکنے کے بعد جنگ کی دھمکی بھی دے ڈالی ہے۔ نریندر مودی نے بھی دھمکی دی ہے کہ اگر پاکستان باز نہ آیا تو اسے جنگ کا سامنا کرنا پڑ سکتا
ہے۔ حالانکہ خود آزاد ذہن بھارتی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ بھارت دھمکیاں تو دے سکتا ہے، ایک ایٹمی قوت سے جنگ چھیڑنے کی حماقت نہیں کر سکتا۔
بھارت یہ حقیقت جانتا ہے کہ اس خطے میں تعینات سات لاکھ سے زیادہ فوج کے باوجود آزادی کی تحریک کمزور نہیں پڑی، تاہم اتنی بھاری فوج کی موجودگی میں کشمیریوں کو ظلم و ستم سے نجات نہیں مل سکتی۔ 2019ء انتخابات کا سال ہے، اس سال وزیر اعظم مودی یہ نہیں چاہیں گے کہ کشمیر میں ظلم کم ہو۔ کشمیر یونیورسٹی کے سیاسی تجزیہ کار صدیق واحد کہتے ہیں کہ بی جے پی اس سال انتخابات جیتنے کے لیے کشمیر پر گرفت مضبوط تر کرنے کی کوشش کرے گی۔ اس لیے کہ انڈیا میں عام انتخابات جیتنے کے لیے انتہا پسند قوتیں ہندوتوا کی سیاست میں مزید شدت لاتی ہیں‘‘۔
بھارت میں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس مارکنڈے کاٹجو کا خیال ہے کہ 2019ء کے انتخابات جیتنے کے لیے بی جے پی بڑے پیمانے پر مذہبی فسادات کی تیاری کر رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے… ’’بی جے پی اور ہندو مقتدر قوتوں کے ووٹ بیس فی صد سے زیادہ نہیں، جب کہ ہندوستان میں انتخابات جیتنے کے لیے کسی ایک پارٹی کو تیس پینتیس فی صد ووٹ درکار ہوتے ہیں، 2019ء میں ان ہی دس پندرہ فی صد ووٹوں کے لیے مسلم کش فسادت کا سہارا لیا جائے گا۔‘‘
عام انتخابات میں کشمیری مسلمانوں پر ظلم و ستم ہندو ووٹروں کو رجھانے کے کام آتا ہے۔ حال ہی میں وزیر اعظم مودی نے پانچ ریاستی انتخابات میں شکست کا ذائقہ چکھ لیا ہے۔ مرکزی انتخابات میں ناکامی کی رسوائی یقینی ہے۔ بی جے پی کے بزرجمہر مسلمانوں سے جنگ چھیڑنے اور اہل کشمیر کے خلاف ظلم میں شدت لانے کو شکست سے بچنے کا ہتھیار سمجھتے ہیں۔ ان کے اتحادیوں کا خیال ہے کہ لوک سبھا (قومی اسمبلی) کے انتخابات میں کامیابی کے لیے ہندوستان بھر میں مذہبی فسادات کی آگ بھڑکانا ضروری ہے۔ اس پس منظر میں اس بات کی امید بہت کم ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں خون ریزی تھم جائے۔
گزشتہ سال مجاہدین اور سیکورٹی فورسز کے درمیان مسلح تصادم کے آٹھ سو واقعات پیش آئے، جو گزشتہ ایک عشرے میں سب سے زیادہ ہیں۔2019 ء میں شاید یہ واقعات کئی گنا زیادہ ہوں گے۔ تاہم یہ کام اتنا آسان بھی نہیں، کشمیر میں انڈین فورسز کے اہل کاروں کو زبردست ذہنی دباؤ سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس کے باعث 2018ء میں بیس سیکورٹی اہل کاروں نے خود کشی کر لی۔ اگرچہ اعلیٰ بھارتی فوجی کمان نے اعلان کر رکھا ہے کہ ’’آپریشن آل آئوٹ‘‘ کے نام سے ہونے والی سیکورٹی فورسز کی کارروائی کو زیادہ شدت سے جاری رکھا جائے گا، تاکہ مسلح شدت پسندوں سے علاقے کو پاک کیا جا سکے۔
بی جے پی سرکار پہلے ہی فوجی قیادت کو یہ ٹاسک دے چکی ہے کہ کشمیر کے معاملے پر ’’نو کمپرمائز‘‘ کی پالیسی کو جاری رکھا جائے۔ تاہم فوجی حکمت کاروں کو یہ خدشہ بھی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں مزید سختیاں کرنے سے حالت مزید خراب ہوں گے اور زیادہ سے زیادہ کشمیری نوجوان شدت پسندی پر مائل ہوں گے۔ ایک سیکورٹی افسر نے اے ایف پی کو بتایا کہ 2018ء میںکم از کم ایک سو اٹھائیس نوجوان زیر زمین مسلح گروپوں میں شامل ہوئے، جو سنہ دو ہزار سترہ کے مقابلے میں ستر فیصد زیادہ تھے۔
(باقی صفحہ5بقیہ نمبر3)

Comments (0)
Add Comment