وفاقی وزیر صحت عامر محمود کیانی نے کہا ہے کہ رواں ماہ کے آخر میں دو کروڑ ہیلتھ کارڈ جاری کئے جائیں گے، جبکہ اس کا پیکیج دوگنا کر دیا گیا ہے۔ صحت کارڈ کی مدد سے نجی اور سرکاری اسپتالوں میں علاج کرایا جا سکے گا۔ عامر کیانی کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت صحت کے شعبے پر خصوصی توجہ دے رہی ہے۔ غریبوں کو بھی امیروں جیسی سہولیات میسر ہوں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسلام آباد میں تین نئے اسپتال اور ایک نئی نرسنگ یونیورسٹی بنائی جا رہی ہے، جبکہ ہولی فیملی اسپتال میں دو سو بستروں کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ عملے کی کمی دور کرنے کے لیے ساڑھے آٹھ سو ملازمین بھرتی کئے جائیں گے، جبکہ آئندہ تین روز میں شیلٹر ہوم تیار ہو جائے گا۔ صحت کے شعبے پر موجودہ حکومت کی جانب سے خصوصی توجہ دینے کے دعوے کی حقیقت گزشتہ روز دوائوں کی قیمتوں میں پندرہ فیصد تک اضافے کے حکومتی فیصلے سے معلوم ہو سکتی ہے۔ دوا ساز کمپنیوں کے مطالبے پر جان بچانے والی دوائوں کے نرخ بڑھانا صاف چغلی کھا رہا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کن لوگوں کی مالی صحت برقرار رکھنے کے لیے خصوصی توجہ دے رہی ہے۔ حالانکہ شہریوں کی جان و املاک کو بچانا ہر حکومت کی بنیادی ذمے داری ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ دوائوں کی قیمتوں میں اضافہ کرنے کے فیصلے میں وفاقی وزیر صحت عامر کیانی بھی شریک تھے۔ اب اگر وہ جنوری کے آخر میں دو کروڑ صحت کارڈ جاری کرنے کا اعلان کر رہے ہیں تو اس کے نتیجہ خیز ہونے کی کیا اور کون ضمانت دے سکتا ہے۔ جبکہ موجودہ حکومت نے اپنی پانچ ماہ کی مدت میں عوام کو سہولت پہنچانے کا ایک بھی وعدہ پورا نہیں کیا ہے۔ ہم نے ان کالموں میں محدود طبقوں اور حلقوں کے لیے خصوصی رعایتوں اور اسکیموں کی ہمیشہ مخالفت کی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے بے نظیر دور حکومت سے آج تک کسی خصوصی اسکیم یا پروگرام کے ثمرات غریب عوام تک نہیں پہنچے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ہو یا مفت لیپ ٹاپ اسکیم، ہیلتھ کارڈز ہوں یا یوٹیلٹی اسٹورز۔ ماضی میں حکومتوں کے ایسے تمام منصوبوں کو زبردست ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ ان کی اکثر رقوم بالا ہی بالا بندر بانٹ کی نذر ہوگئی، یا مخصوص لوگوں کو آٹے میں نمک کے برابر حصہ مل گیا۔ سپریم کورٹ کی جانب سے برطرف اور نااہل قرار دیئے جانے والے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے دور میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کی رکن بیگم فرزانہ راجہ نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں لوٹ کھسوٹ کے ریکارڈ توڑ دیئے تھے۔ آج کل وہ اپنے خلاف مقدمات کے خوف سے ملک چھوڑ کر مفرور ہیں۔ یوٹیلٹی اسٹورز سے عوام کو سرے سے کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔ اس پروگرام نے بھی قومی خزانے کو شدید نقصان سے دوچار کیا۔ اس کی لوٹ مار کے قصے بھی زباں زد عام ہیں۔ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے جن طلبا و طالبات کو لیپ ٹاپ تقسیم کرنے کا ڈراما رچایا، اس میں کس نے کتنی خوردبرد کی اور طلبا و طالبات نے ان سے کتنا استفادہ کیا؟
ہمارا ہمیشہ سے یہ مؤقف رہا ہے کہ ہر حکومت کا بنیادی کام ملک میں ایسا معاشرہ قائم کرنا ہے، جس سے تمام غریب لوگوں کو بیک وقت اور یکساں فائدہ پہنچے۔ یہ اسی طرح ممکن ہے کہ غربت اور بے روزگاری کا مکمل طور پر خاتمہ کر دیا جائے۔ تعلیم اور صحت کی سہولتیں تمام امیروں اور غریبوں کے لیے ہر جگہ اور ہر وقت برابر ہوں۔ تحریک انصاف نے تو وعدہ کیا تھا کہ وہ برسراقتدار آکر وطن عزیز میں انصاف اور غریبوں کو سہولتیں فراہم کرے گی۔ عمران خان نے بحیثیت وزیر اعظم اپنی پہلی نشری تقریر میں جب یہ کہا کہ وہ پاکستان کو مدینہ جیسی فلاحی ریاست بنائیں گے تو ان کے اس بیان کا زبردست خیر مقدم کیا گیا، لیکن پانچ ماہ میں اس جانب معمولی بھی پیش رفت نظر نہیں آئی۔ الٹا غریبوں کو مہنگائی اور بے روزگاری کے بوجھ تلے دبانے کا سلسلہ جاری ہے۔ اب وزیر خزانہ اسد عمر نے منی بجٹ لانے کا اعلان کیا ہے تو لوگ ایک بار پھر خوفزدہ ہو گئے ہیں کہ ان پر نہ جانے اور کون کون سے پہاڑ ٹوٹنے والے ہیں۔ موجودہ حکومت کے اب تک کئے جانے والے عوام دشمن اقدامات کے باعث ماہرین کا خیال ہے کہ منی بجٹ میں بنیادی ضرورت کی بعض اشیا سمیت درجنوں چیزوں کی قیمتوں میں مزید چالیس فیصد تک اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ صحت کارڈ کا پٹا پٹایا نسخہ آزمانے کے بجائے حکومت کو ملک بھر کے سرکاری اور نجی اسپتالوں میں صحت کی ایسی سہولتیں فراہم کرنی چاہئیں، جہاں ہر شہری کو علاج کی یکساں سہولتیں حاصل ہوں۔ اس کے سوا ہر تدبیر ڈھکوسلا ثابت ہوگی۔ صحت کارڈ کب، کہاں سے اور کس طرح ملیں گے اور اسپتالوں میں علاج کے وقت اندراج اور سہولتوں کے حصول میں کیا کیا مسائل درپیش ہوں گے، اس کا اندازہ ہر شہری بخوبی کر سکتا ہے۔ شریف خاندان رائے ونڈ، زرداری خاندان، بلاول ہائوس اور عمران خان بنی گالہ جیسے عشرت کدوں سے باہر نکل کر کسی دیہی اسپتال کا دورہ کریں تو انہیں معلوم ہو کہ غریبوں کا اس ملک میں جینا ہی نہیں، مرنا بھی کسی عذاب سے کم نہیں۔ ذرا سی چھینک آنے پر ملک کے بہترین نجی اسپتالوں میں اور بیرون ملک جاکر علاج کرانے والوں کو غریبوں کے دکھ درد کا اندازہ ہو ہی نہیں سکتا۔ ایک کروڑ ملازمتیں فراہم کرنے کی دعویدار حکومت کے دور میں پیر کو کراچی کے سول اسپتال میں تین سو خالی اسامیوں کے انٹرویوز کے لیے پہنچنے والے دس ہزار امیدواروں کے ساتھ جو سلوک ہوا، اس میں لاٹھی چارج بھی شامل تھا۔ ٹھیک ہے کہ اسے حکومت سندھ کی نااہلی شمار کیا جائے گا، لیکن عمران خان کی وفاقی حکومت اپنی ایک کروڑ ملازمتوں میں سے صرف تین سو نوکریوں کی گنجائش نکال لیتی تو سندھ کے امیدواروں کو یوں ذلیل و خوار نہ ہونا پڑتا۔ باقی رہے پچاس لاکھ گھر تو اس وعدے کی تکمیل کے لیے عوام کو پانچ سال بعد یہی کہنا پڑے گا کہ ’’غضب کیا تیرے وعدے پہ اعتبار کیا، پانچ سال تک قیامت کا انتظار کیا۔‘‘ ایک دوسرے کے خلاف سخت بیان بازی کرنے والے مسلم لیگ اور تحریک انصاف کے رہنمائوں کی خوش گپیوں کی خبر عوام تک پہنچی تو ان کے دلوں پر سانپ لوٹ گئے کہ یہ سب اندر سے ایک ہیں۔ صرف لوگوں کو دھوکا دینے کے لیے حزب اقتدار اور حزب اختلاف میں بٹ کر سیاسی ڈھونگ رچائے ہوئے ہیں۔ اسی لیے تو ستر برسوں میں ملک ترقی کر سکا نہ عوام کو کچھ حاصل ہوا۔ ٭