جاپانی ٹیکنالوجی، ملائیشین اسٹائل (پہلا حصہ)

ملاکا شہر کے اسپتالوں میں ملازمت کرنے اور اپنا کاروبار چلانے والے ڈاکٹر میر عطا محمد تالپور کی پروٹان GEN-2 کار میں شہر کی سڑکوں پر چلتے ہوئے مجھے پچیس سال پہلے کا زمانہ یاد آگیا، جب ملائیشیا اپنی بنائی ہوئی کار کا پہلا ماڈل پروٹان ساگا مارکیٹ میں لایا تھا اور ملاکا میں آنے والی پہلی بیس کاروں میں سے ایک مجھے بھی ملی تھی۔ اس کار کو میں نے انہی سڑکوں پر چلایا تھا۔
ہم نے جیسے ہی ملاکا میں ڈیوٹی کا آغاز کیا، آفس کی جانب سے ہمیں قرض لینے کی پیشکش کی گئی اور کہا گیا کہ ہم کسی بھی ملک کی کار خرید سکتے ہیں۔ میں نے قرض لیا، نہ نئی کار خریدی۔ میں اپنی رقم سے سبز رنگ کی ایک سیکنڈ ہینڈ ڈانسن کار خرید کر چلاتا رہا۔ میں نے سوچا تھا کہ انجینئر آدمی ہوں، پرانی کار میں کوئی خرابی پیدا ہوگئی، تو خود ہی اسے ٹھیک کر کے چلاتا رہوں گا۔ میں ایک مکینک کو اپنی گاڑی کی ڈپلی کیٹ چابی دے کر اس سے فون نمبر لے لیا، تاکہ کبھی اس میں کوئی ایسی خرابی پیدا ہو جائے، جسے میں دور نہ کر سکوں تو مکینک کو فون پر لوکیشن بتا کر خود بس یا ٹیکسی میں گھر چلا جاؤں۔ اسی طرح میں
نے اس پرانی کار کو دو سال تک چلاتے رہنے کے بعد اب نئی گاڑی لینے کا ارادہ کر لیا تھا۔ اس دوران معلوم ہوا کہ ملائیشیا کو اپنی کار بنانے کا شوق چرایا ہے۔ اس سلسلے میں ایک جاپانی کار کمپنی سے بات چیت بھی ہو چکی ہے اور آئندہ چھ ماہ کے اندر ’’میڈ اِن ملائیشیا‘‘ کاریں سڑکوں پر آجائیں گی۔
آج ملائیشیا کو یورپ جیسا ماڈرن ملک دیکھ کر ہمیں تعجب نہیں ہوتا، لیکن 1985ء میں یہ خبر پڑھ کر ہمارے مقامی ملئی اور چینی دوستی بھی ہنسے تھے۔ ظاہر ہے ان ایام میں ملائیشیا ریڈیو اور ٹی وی بھی نہیں بنا سکتا تھا۔ اگر کوئی الیکٹرانک کی چیز تیار کی جاتی تھی تو اسے کوئی خریدتا نہیں تھا۔ سو ایسے میں مقامی طور پر تیار کی جانے والی کار کیسی ہوگی اور اسے کون خریدے گا۔ ہر شخص مہاتیر کے اس خواب کو حماقت، قیاس اور ملکی دولت کے ضیاع کا کام سمجھنے لگا تھا۔ کار کی مکمل تیاری تک مختلف قیاس آرائیاں ہوتی رہیں کہ ملک میں جب ایک سے ایک ولایتی کار دستیاب ہے اور مزدا، ٹویوٹا حتیٰ کہ مرسیڈیز بھی ملائیشیا میں تیار ہوتی ہے، تو ایسے میں ملائیشیا کی اپنی تیار کی جانے والی کار خریدنے کا رسک کون لے گا؟
کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ حکومت ضرور غیر ملکی گاڑیوں کی فروخت پر پابندی عائد کرے گی، لیکن مہاتیر محمد نے ایک دن اپنے بیان میں ان قیاس آرائیوں کی تردید کی اور کہا:
’’ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ ہر شخص آزاد ہوگا کہ وہ اپنی مرضی اور پسند کے مطابق گاڑی خریدے۔ اگر غیر ملکی گاڑیوں پر پابندی عائد کی گئی تو ہماری کار کا معیار گر جائے گا۔ ’’پروٹان کار کمپنی‘‘ اپنی کار کو بہتر بنانے کے بجائے یہی سوچے گی کہ مونو پلی ہونے کے سبب ہر کوئی یہی گاڑی خریدنے پر مجبور ہوگا، خواہ وہ کیسی بھی کار بنائیں۔‘‘
کار کے ڈیزائن کے لیے بھی مختلف آراء سامنے آتی رہیں کہ وہ دنیا کی کس گاڑی سے مشابہ ہوگی۔ ایک دفعہ اخبار میں اس نئی کار کی شکل کا کارٹون شائع ہوا، جس میں اس کی چھت ایسی مخروطی دکھائی گئی تھی، جیسے ملائیشیا کے دیہی علاقوں میں ملئی لوگوں کے گھروں کی چھت ہوتی ہے۔ بہر حال جب کار مارکیٹ میں آئی تو نہ صرف اس کے ڈیزائن کو پسند کیا گیا، بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ وہ مضبوط اور پائیدار بھی ثابت ہوئی۔ گاڑی تیار کرنے والوں کا کہنا تھا کہ انہوں نے اسی لیے اس کار کا نام SAGA رکھا تھا۔
ملئی زبان میں ’’ساگا‘‘ سرخ رنگ کے بیجوں کو کہا جاتا ہے جو انتہائی خوبصورت اور سخت ہوتے ہیں۔ بچے اکثر ان سے کھیلتے نظر آتے ہیں۔ میں تو یہ کہوں گا کہ ساگ بیج صرف بچوں ہی کی نہیں، بلکہ بڑوں کی بھی پسندیدہ شے ہے، میرے بچوں کے پاس یہ کافی تعداد میں موجود تھے۔ ملائیشیا چھوڑنے کے وقت ہم نے کافی سامان وہیں چھوڑ دیا تھا، لیکن بچے وہ خوبصورت بیج اپنے ساتھ لے آئے تھے۔ وہ ان کے ساتھ کھیلتے بڑے ہوگئے اور آج ان کی اولاد ان بیجوں سے کھیلتی ہے۔ نہ صرف انہیں بلکہ مجھے بھی آج تک یہ موتیوں جیسے چمکدار سرخ بیج بہت اچھے لگتے ہیں۔
ان بیجوں کے درخت کو انگریزی میں Coraltree اور ریڈ صندل وڈ کہتے ہیں۔ اس کا سائنسی نام Adenathera Pavonina ہے، کہتے ہیں کہ یہ نام یونانی زبان کا ہے۔ Aden کا مطلب Gland ہے اور Anthera کے لیے انگریزی لفظ Anther ہے۔ باقی پاوونینا یونانی زبان میں مور کو کہتے ہیں۔ برصغیر میں Saga Seeds کو رنجانا، بادی گمچی، کوچندنا، رکٹ چندن اور رتن گنجا کہتے ہیں۔ ملائیشیا کے تامل اسے تِلم اور منجاتی کہتے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی بتاتے ہیں کہ ساگا کی اصل دھرتی ملائیشیا نہیں، بلکہ انڈیا خاص طور پر جنوبی ہندوستان ہے۔ ویسے بھی انڈیا کے صوبے تامل ناڈو اور ملائیشیا کے موسم اور زمین (Soil) میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment