شام سے امریکی فوج کے انخلا کی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے بھی تصدیق کر دی ہے۔ چند دن پہلے امر یکی فوج کے ترجمان کرنل شان ریان (Col Sean Ryan) نے شام سے امریکی فوج کے انخلا کے بارے میں اخباری نمائندوں کو بتایا تھا۔ کرنل صاحب کا کہنا تھا کہ حفاظت کے پیش نظر نظام الاوقات اور واپسی کا راستہ خفیہ رکھا جا رہا ہے۔ تاہم شام میں موجود عسکری نامہ نگاروں نے بتایا کہ شمالی مشرقی شام کے الحسکہ شہر میں قائم رمیلان کے فوجی اڈے سے پسپائی کا آغاز ہوا ہے اور پہلے مرحلے میں 10 بکتر بند گاڑیوں کے ایک قافلے کومشرق میں عراقی کردستان کے شہر سنجر کی طرف جاتے دیکھا گیا۔
کل اپنے ایک ٹویٹ میں صدر ٹرمپ نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ شام سے امریکی فوج کو بہت پہلے واپس آجانا چاہئے تھا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ (داعش کی) خلافت ختم ہونے کے بعد شام میں عسکری موجودگی کا کوئی جواز نہیں۔ تاہم اگر ان دہشت گردوں نے دوبارہ سر اٹھایا تو ان کی سرکوبی کے لئے ہماری فوج ’’قریب‘‘ ہی موجود ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے دھمکی دی کہ اگر ترکی نے شام میں ہمارے کرد حلیفوں کو نشانہ بنایا تو اسے اقتصادی طور پر نشانِ عبرت بنا دیا جائے گا۔ عالمگیر دادی اماں نے کردوں کو بھی تلقین کی کہ ترکی کو اشتعال نہ دلائو اور اچھے بچوں کی طرح مل جل کر رہو۔
ترکی ایک عرصے سے امریکی فوج کے انخلا پر اصرار کر رہا ہے۔ انقرہ کا خیال ہے کہ یہاں امریکی فوج کی موجودگی سے جہاں ایک طرف اسرائیل کو تقویت مل رہی ہے تو وہیں سارا علاقہ عدم استحکام کا شکار ہو رہا ہے۔
امریکی وزارت خارجہ کا خیال تھا کہ جواب میں صدر اردگان جواب آں غزل ارشاد فرمائیں گے، لیکن ترک صدر نے دھمکی کو نظر انداز کر دیا اور ان کے ترجمان ابراہیم کالن نے امریکی صدر کا نام لئے بغیر اپنے ٹویٹ میں کہا کہ کرد چاہے شامی ہوں یا ترک، ہمارے بھائی ہیں، جن کی جان، مال اور عزت و آبرو کی حفاظت ترک فوج کا مقدس قومی فریضہ ہے، باقی رہے دہشت گرد تو ان سے نمٹنا ہم جانتے ہیں۔
ایک طرف صدر ٹرمپ شام سے اپنی فوج واپس بلا رہے ہیں تو دوسری طرف مشرقی شام میں تیل و گیس سے مالامال علاقے دیر الزور اور اس کے مضافاتی علاقوں میں شدید بمباری کا نیا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ دریائے فرات کے کنارے واقع قصبہ الکشمہ کئی دنوں سے بھیانک بمباری سے ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔ یرموک اسپتال کو یہ کہہ کر زمیں بوس کر دیا گیا کہ یہاں داعش کے زخمیوں کا علاج ہوتا ہے۔ اس پورے علاقے میں یہی ایک اسپتال باقی بچا تھا، جسے تباہ کر دیا گیا۔ انٹرنیٹ کیفے کو جان بوجھ کر ڈرون سے نشانہ بنایا جا رہا ہے، جس کے بارے میں عذرِ لنگ یہ تراشا گیا کہ داعش باہمی رابطوں اور انتہا پسدانہ نشرو اشاعت کیلئے انٹر نیٹ کیفے استعمال کرتے ہیں، حالانکہ انٹرنیٹ کیفے کے ذریعے یہاں محصور شہری دوسرے علاقوں اور بیرون ملک رشتے داروں سے رابطہ کرتے ہیں۔ جب دنیا کی آنکھ اور ضمیر پر مرعوبیت کی پٹی بندھی ہو تو کس کی ہمت کہ جباروں کا ہاتھ پکڑے؟
مفاہمت کی کوششیں:
ترکی کی معیشت کو نشانِ عبرت بنادینے کی دھمکی کے فوراً بعد صدر ٹرمپ نے فون پر اپنے ترک ہم منصب سے رابطہ کر لیا۔ جب ٹرمپ نے ترکی کی معیشت کو نشان عبرت بنانے کی دھمکی دی تھی تو صدر اردگان نے اس ٹویٹ کا خود جواب دینے کے بجائے اپنے ترجمان ابراہیم کالن کو آگے کردیا، جنہوں نے امریکی صدر کا نام لئے بغیر اپنے ٹویٹ میں کہا کہ کردوں کو اپنا بھائی اور دہشت گردوں سے نمٹنے کی بات کی۔ صدر ٹرمپ کی آتش بیانی پر صبر و تحمل کے ساتھ دوٹوک جواب کو امریکہ کے سفارتی حلقوں نے Cool but firm قرار دیا ہے۔ یعنی بہت ہی شائستہ انداز میں امریکہ کی دھمکی کو مسترد کردیا گیا۔
شام سے بستر گول ہونے کے بعد امریکہ بہادر کے لئے ترکوں سے ’’دوستی‘‘ کے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں۔ امریکہ گزشتہ کئی ماہ سے ترکی کی معیشت کو تباہ کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہے اور اب اس کے ترکش میں کوئی نیا تیر باقی ہی نہیں رہا۔ ترک صدر کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ فون پر بات کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے ترک شام سرحد پر امریکہ و ترکی کے مشترکہ گشت کی تجویز دی، جسے مبینہ طور پر ترکی نے ترنت مسترد کر دیا کہ اس کا مطلب امریکی فوج کی جزوی موجودگی کو اخلاقی جواز فراہم کرنا ہوگا۔ باوثوں ذرائع کے مطابق مشترکہ گشت کے حوالے سے صدر اردگان کی عدم دلچسپی پر صدر ٹرمپ نے ترکی و شام کے درمیان ایک محفوظ پٹی یا de-militarized zone بنانے کی تجویز دی تاکہ YPG چھاپہ ماروں اور ترک فوج کے درمیان خلیج پیدا کردی جائے۔ جس کے جواب میں صدر اردگان نے امریکی صدر کو سمجھایا کہ ترکی کو کردوں، شامیوں اور امریکیوں سے کوئی شکایت نہیں، نہ ان سے کسی قسم کا جھگڑا ہے۔ ترک مہمان نواز قوم ہے اور ہم ساری دنیا کو اپنے ملک میں خوش آمدید کہتے ہیں۔ ہماری لڑائی صرف دہشت گردوں سے ہے، چاہے وہ کسی بھی قوم سے ہوں۔ گفتگو بات چیت جاری رہنے کے وعدے پر ختم ہوگئی۔
٭٭٭٭٭