وطن عزیز میں سیاست اور معیشت کی عجب صورتحال ہے۔ حکومت پانچ ماہ گزارنے کے باوجود اپنا کوئی وعدہ پورا نہیں کرسکی، جس کی وجہ سے عوام کی بیزاری بڑھتی جارہی ہے۔ دوسری جانب اپوزیشن جماعتیں بھی آپس میں کبھی اتحاد اور کبھی اختلافات کا مظاہرہ کرکے حکومت کی تقویت کا باعث بنتی رہتی ہیں۔ اگر حکومت کو مضبوط اپوزیشن ملی ہوتی تو اس کی اندرونی کمزوری اسے اب تک اپنے منطقی انجام تک پہنچا چکی ہوتی۔ ملک کو چوروں اور لٹیروں سے نجات دلانے اور لوگوں کو فوری بعض بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کا دعویٰ لے کر برسراقتدار آنے والی تحریک انصاف کی حکومت کا کوئی مثبت عمل تو کیا نظر آتا، اس کے بیانات میں بھی اس قدر تضادات نظر آتے ہیں کہ ’’یوٹرن‘‘ کا طعنہ بھی بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ منخنی (زگ زیگ) لکیر پر چلتی چلتی، اب وہ اس مقام پر آگئی ہے کہ شاید خود اس کے رہنمائوں کو سجھائی نہیں دیتا کہ وہ کیا کرے، کدھر جائے اور خود بے شمار امیدیں وابستہ کرنے والی قوم کو کن نئے وعدوں سے بہلائے۔ وزیر اعظم عمران خان کرکٹ کے بہت اچھے کھلاڑی رہے ہوں گے، لیکن سیاست میں ان کی بازی ابتدا ہی میں مات ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ چونکہ ان کی حکومت اب تک ملک و قوم کے حق میں معمولی کارکردگی بھی ظاہر نہیں کرسکی، لہٰذا عمران خان کو یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ قوموں کی زندگی میں اسٹرکچر ریفارمز (ڈھانچا جاتی اصلاحات) کا مرحلہ ہمیشہ تکلیف دہ ہوتا ہے، اس کے بعد اچھا اور خوشگوار دور شروع ہوگا۔ وہ کہتے ہیں کہ اس مشکل مرحلے سے گھبرانے کی ضرورت نہیں، اصلاحات کا عمل کسی رکاوٹ اور دبائو کے بغیر جاری رہے گا۔ وزیر اعظم قوم کو مشکل مرحلے میں ڈالتے وقت ذرا یہ بھی بتادیں کہ اس کا دورانیہ کتنا طویل ہوگا۔ ان کے دور حکومت میں بائیس کروڑ غریبوں کو کچھ ملے گا بھی یا اقتصادی بحران کا ڈھانچا ہی انہیں حسب سابق ڈراتا رہے گا۔ موجودہ حکومت سے اہل نظر کی بدگمانی کی اصل وجہ یہ ہے کہ اس کا کوئی ایک قدم بھی درست سمت میں نظر نہیں آتا۔ وہ عوام کو کسی قسم کی سہولت پہنچانے کے قابل نہ تھی تو کم از کم خراب حکمرانی، غربت، بیروزگاری اور بدامنی کو بڑھنے بھی نہ دیتی۔ تحریک انصاف کی حکومت سے قبل جن دو بڑی جماعتوں نے ملک کو باری باری لوٹا اور تباہی کے گڑھے تک پہنچا دیا، وہ خوش ہیں کہ لوگ عمران خان کی حکومت سے بہت جلد مایوس اور متنفر ہونے لگے ہیں، جس کی وجہ سے شاید انہیں ایک بار پھر حکمرانی کے مزے لوٹنے کا موقع مل جائے۔ چنانچہ انہوں نے آپس کے ظاہری اختلافات ختم کرکے مشترکہ مفادات حاصل کرنے کیلئے حکومت کے خلاف متحد ہونے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ان کا بھان متی کا کنبہ قوم کو نئے فریب میں مبتلا کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ پیپلز پارٹی کے نو آموز رہنما بلاول بھٹو زرداری نے کچھ عرصہ قبل نئے میثاق جمہوریت کا جو شوشہ چھوڑا تھا، وہ ان کی اپنی ذہنی اختراع نہیں، بلکہ اپنے والد گرامی کا پرانا حربہ ہے۔ وہ بظاہر جمہوریت کی بقاء اور فوجی آمریت کو روکنے کی بات کرکے سیاستدانوں کو متحد ہونے کی تلقین اور کوششیں کرتے ہیں، لیکن فی الحقیقت یہ سیاستدانوں کو لوٹ مار کے مواقع فراہم کرنے اور اس میں اپنا حصہ بقدر جثہ وصول کرنے کی پالیسی ہے۔
سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف نے بڑے بڑے قومی مجرموں کو، جن میں قاتل، لٹیرے، بھتا خور، کمیشن کھانے اور زمینوں پر قبضے کرنے والے شامل تھے، بیک جنبش قلم معاف کر دیا تھا۔ عام معافی کا یہ فارمولا آج بھی ملکی سیاست میں این آر او کے نام سے گردش میں ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے اس قومی مفاہمتی آرڈیننس کے ذریعے دراصل آئندہ کیلئے بھی اپنی صدارت پکی کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن ’’تدبیر کند بندہ، تقدیر کند خندہ‘‘ کے مصداق جنرل پرویز مشرف کو بالآخر اقتدار ہی نہیں وطن بھی چھوڑنا پڑا۔ کمانڈو ہونے اور کسی سے نہ ڈرنے کا دعویٰ کرنے والے جنرل پرویز مشرف اپنے خلاف غداری سمیت کئی مقدمات کے خوف سے بیماری کا بہانہ کرکے ملک سے فرار ہوئے تو واپس آنے کی ہمت ہی نہیں کرتے۔ تحریک انصاف کی حکومت کو اپنے بے سروپا بیانات سے سہارا دینے میں مصروف فواد چوہدری بار بار کہتے ہیں کہ اپوزیشن جماعتیں ایک بار پھر این آر او کیلئے کوشاں ہیں، لیکن ہم انہیں یہ موقع نہیں دیں گے۔ یاد رہے کہ قومی مجرموں کو معاف کرنے والا یہ آرڈیننس سپریم کورٹ نے منسوخ کردیا تھا۔ اب حکومت کے خلاف حزب اختلاف کی جماعتوں نے متفق اور متحد ہونے کا جو خیال ظاہر کیا ہے تو ان کی کوششیں اسی وقت بارآور ثابت ہو سکتی ہیں، جب تحریک انصاف کی حکومت کی کوئی ایک بھی مثبت کارکردگی سامنے نہیں آتی۔ ان کا اتحاد بھی موجودہ حالات میں ملک کی کوئی خدمت نہ کرسکے گا، کیونکہ ان جماعتوں کے اپنے اندرونی اور باہمی اختلافات کے علاوہ ان میں مولانا فضل الرحمن جیسے موقع پرست لوگوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ علاوہ ازیں شریف برادران و خاندان والی مسلم لیگ اور زرداری ٹولے کا حکومتوں کے حوالے سے ریکارڈ اس قدر خراب ہے کہ سارے زیرو مل کر بھی صفر ہی رہیں گے۔ باقی رہی بات نئے میثاق جمہوریت کی تو ہماری نظر میں یہ اس لئے شوشہ ہے کہ جن جماعتوں کے اندر خود جمہوریت اور انتخابی نظام نافذ نہیں اور جو موروثی بنیاد پر سیاست اور حکومت کرتی چلی آرہی ہیں، وہ جمہور کے نام پر آئندہ بھی جو معاہدہ کریں گی، وہ فراڈ سے زیادہ کچھ نہ ہوگا۔ کیا بائیس کروڑ کی آبادی میں بلاول بھٹو زرداری، مریم نواز اور حمزہ شہباز کے سوا کسی میں عقل و فہم اور تعلیم و تجربہ نہیں کہ ان ہی کو قوم پر مسلط کرنا جمہوریت کی معراج قرار پائے۔ سابقہ حکومتوں سے وابستہ دو بڑی جماعتوں کے گرد قدرت اور قانون کا شکنجہ کسا جا رہا ہے، جو سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے دور میں مزید سخت ہونے کی امید ہے۔ تحریک انصاف کی وفاقی اور پنجاب کی حکومتوں کے بارے میں سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سمیت کئی فاضل ججوں کے ریمارکس ریکارڈ پر ہیں اور جن کا اظہار کئی فیصلوں میں بھی جھلکتا ہے کہ وہ ملکی معاملات کو چلانے میں نااہل اور قطعی طور پر ناکارہ و ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ جب ہماری سیاست میں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہو تو ملک کی حفاظت و سلامتی کون کرے گا؟ محب وطن دانشوروں، علمائے حق، مفکرین اور اقتصادی و سیاسی ماہرین نے حالات کی نزاکت کا جائزہ لے کر اب بھی کچھ نہ کیا تو وزیراعظم عمران خان کا ’’اصلاحاتی ڈھانچا‘‘ پانچ سال میں سب کو نچوڑ کر رکھ دے گا۔٭
٭٭٭٭٭