وفاقی حکومت کی حماقتوں سے وہ پیپلز پارٹی ہیرو ہونے لگی ہے، جو کرپشن اور زیرو کارکردگی کے سبب سندھ میں عوامی سطح پر ولن بن چکی تھی۔ پیپلز پارٹی بطور ایک سیاسی جماعت کے آخری سانسیں لے رہی تھی، مگر تحریک انصاف کی غلطیوں سے اس میں ایک نئی جان پڑنے لگی ہے۔ وہ پارٹی جو تاریخ کے ڈسٹ بن میں جا چکی تھی، اب وہ واپس عوامی میدان میں لوٹ رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کی غیر سیاسی قیادت نے اس کو سندھ میں بھی اس مقام پر پہنچایا، جہاں وہ پنجاب میں پہنچ چکی تھی۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی عملی طور اس لیے تیزی سے ختم ہوگئی، کیوں کہ وہاں پر نواز شریف کی صورت میں ایک نعم البدل پیدا ہو گیا تھا۔ سندھ میں پیپلز پارٹی اپنے فطری انجام تک جانے کے لیے اس نعم البدل کی منتظر تھی۔ تحریک انصاف کو تاریخ نے بہترین موقع فراہم کیا تھا کہ وہ پیپلز پارٹی کو جڑوں کے ساتھ سندھ کی سیاسی سرزمین سے نکال کر پھینک دے، مگر عمران خان کا فوکس پنجاب پر تھا۔ اس نے تحریک انصاف کا اسکارف ان وڈیروں کے گلے میں لپیٹا، جو نہ صرف سیاسی یتیم تھے، بلکہ ان کا امیج پیپلز پارٹی کے وڈیروں سے بدتر تھا۔ پیپلز پارٹی کے وڈیروں میں ہزاروں اور لاکھوں برائیاں موجود ہیں، مگر ان میں ایک اچھی بات یہ ہے کہ وہ مخالف کی بات برداشت کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ مگر سندھ میں عمران خان کے ساتھ جڑنے والے وڈیرے تو اپنے مزاج میں نہ صرف انتقام پرست ہیں، بلکہ ان کا سماجی رویہ مکمل طور پر فاشسٹ ہے۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ مخالفین سے جینے کا حق چھین لیتے ہیں۔ ان کی کیٹیوں میں ڈاکو پناہ لیتے ہیں۔ وہ صرف پولیس والوں سے نہیں، بلکہ قانون شکن مجرموں سے بھی مضبوط مراسم رکھتے ہیں۔ وہ سرکاری زمینوں پر قبضے کرتے ہیں۔ وہ محبت کی شادیاں کرنے والے جوڑوں کے خلاف جرگے کرتے ہیں اور ان سے جینے کا حق چھین لیتے ہیں۔ وہ عام لوگوں کو حقیر سمجھتے ہیں۔ وہ پیپلز پارٹی والے وڈیروں کی طرح غریبوں سے محبت کی اداکاری بھی نہیں کرتے۔ ان کو اپنا وہ روپ بہت اچھا لگتا ہے کہ لوگ ان سے ڈرتے ہیں۔ عمران خان کی چھتری تلے سندھ کے وہ وڈیرے آئے، جو سندھ کی دیہی دنیا میں دہشت کی علامت کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ وہ جب جمہوریت اور اصولوں کی بات کرتے ہیں تو شہروں میں رہنے والے سندھ متوسط طبقے کے پڑھے لکھے دانشور اور دانش مند افراد ان پر تلخ طنز کے ساتھ ہنستے ہیں۔ عمران خان کو موقع ملا تھا کہ وہ سندھ کے مشہور خاندانوں میں موجود اچھے کردار کے نوجوانوں کو اپنے ساتھ ملاتا اور ان عام انسانوں کو گلے لگاتا، جو سندھ میں سماجی تبدیلی کے لیے کوشاں ہیں۔ مگر عمران خان نے سندھ میں پھول چننے کے بجائے کانٹوں کا انتخاب کیا۔ اس لیے سندھی حلقوں میں عمران خان کے لیے ابتدا میں جو ہمدردی کی لہر اٹھی تھی، اب وہ ختم ہو چکی ہے۔ اب عمران خان سندھ کے سوشل میڈیا میں تنقید کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ عمران خان کے چہرے پر چڑھا ہوا نقاب بہت جلد اتر گیا۔ اب عمران خان کوشش بھی کرے تو وہ سندھ میں ایسی سیاسی حیثیت حاصل نہیں کر سکتا، جو اس کو پہلے آسانی سے مل جاتی۔
عمران خان کے لیے بہتر یہ تھا کہ وہ سندھ کی حکومت پر کڑی نظر رکھتا اور تھر پارکر جیسے پس ماندہ علاقوں میں صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر بہتری لانے کی کوشش کرتا۔ پیپلز پارٹی کے پاس دس برس اقتدار رہا ہے، مگر ان دس برسوں میں پیپلز پارٹی نے اپنا پیٹ بھرنے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں کیا۔ پیپلز پارٹی کو سندھ میں من مانی
کرنے کا موقع اس لیے ملا، کیوں کہ پہلے وفاق میں بھی پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ اس لیے سندھ کی حکومت پر کوئی چیک نہیں تھا۔ اس کے بعد مسلم لیگ ن کی حکومت آئی تو اس کے ساتھ پیپلز پارٹی نے یہ غیر اعلانیہ معاہدہ کیا تھا کہ وہ سندھ میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کرے گی اور اس کے بدلے میں پیپلز پارٹی قومی اسمبلی میں فرینڈلی اپوزیشن کا کردارا دا کرے گی۔ اس طرح دس برس تک پیپلز پارٹی پر وفاقی حکومت کی کوئی نظر نہیں رہی۔ اس بار اچھا ہوتا اگر تحریک انصاف کی حکومت پیپلز پارٹی کو ’’چیک اینڈ بیلنس‘‘ کے ساتھ چلاتی۔ مگر حیرت کی بات یہ ہوئی کہ تحریک انصاف سے سندھ میں پی پی حکومت تین ماہ بھی برداشت نہ ہو سکی۔ ابھی تین ماہ مشکل سے گزرے تھے کہ تحریک انصاف سندھ پر کبھی گورنر راج نافذ کرنے اور کبھی فارورڈ بلاک بنانے کی کوشش میں مصروف ہوگئی۔ اگر تحریک انصاف پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر سندھ میں بہتری لانے کی کوشش کرتی اور سندھ حکوممت وفاقی حکومت سے تعاون نہ کرتی تو پھر تحریک انصاف کو یہ حق حاصل ہوتا کہ وہ سندھ کے لوگوں کو بہتر حکومت دینے کا بندوبست کرے۔ پھر اس کوشش میں سندھ کے لوگ بھی تحریک انصاف کا ساتھ دیتے۔ اس طرح پیپلز پارٹی کی حکومت کو ہٹانے میں سندھ کے عوام کا کردار ہوتا، مگر تحریک انصاف نے جس طرح سندھ کے اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کی، اس سے سندھ کے لوگوں میں یہ احساس پیدا ہونے لگا ہے کہ تحریک انصاف ان کے مینڈیٹ پر ڈاکہ مارنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ سندھ کے عوام نے اس بار پیپلز پارٹی کو دل سے ووٹ نہیں دیا۔ سندھ کے لوگوں نے اس مجبوری کے باعث پیپلز پارٹی کی جھولی میں ووٹ ڈالے، کیوں کہ ان کے پاس نعم البدل نہیں تھا۔ پیپلز پارٹی کے خلاف مقابلے کے میدان میں جی ڈی اے کے وہ پیر، میر اور وڈیرے تھے، جن تک عوام کی رسائی ممکن نہیں۔ سندھ کے لوگوں نے اس بار ٹوٹے ہوئے دل سے تیر پر ٹھپہ لگایا۔ اس بار سندھ والوں نے حقیقی طور پر ’’کم برے‘‘ کا انتخاب کیا۔ مگر اب جب تحریک انصاف کہیں پر بھی بہتر کارکردگی دکھائے بغیر سندھ کے اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے، اس سے سندھ کے لوگوں میں ایک غصے کی کیفیت پیدا ہو رہی ہے۔ سندھ والے سوچ رہے ہیں کہ تحریک انصاف ان پر پھر سے وہ وڈیرے مسلط کر رہی ہے، جن کو سندھ والوں نے انتخابات میں شکست دی تھی۔ سندھ کے لوگ جب تحریک انصاف کے اتحادیوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ان کو پھر اس سزا سے گزرنے کا احساس ہونے لگتا ہے جو سزا سندھ کا مقدر
رہی ہے۔ مرکز کی طرف سے چوں چوں کے مربے جیسی حکومت بنا کر سندھ پر مسلط کی جاتی ہے۔ اس بار بھی وہی کچھ کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔
ایم کیو ایم کے البیلوں، تحریک انصاف کے نازک بدنوں، پیپلز پارٹی کے غداروں اور سندھ کے چند یتیم وڈیروں کو ملا کر جو حکومت بنائی جائے گی، اس حکومت کو سندھ کے لوگ کس نظر سے دیکھیں گے؟ سندھ کی حکومت کو جلد سے جلد گرانے کی کوشش کو سندھ کے لکھے پڑھے لوگ ایک سیاسی حملے کی صورت دیکھنے پر مجبور ہیں۔ وہ لوگ جو اصولی طور پر پیپلز پارٹی کے مخالف ہیں۔ وہ لوگ آصف زرداری اور اس کے حلقے کی حمایت کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ وہ لوگ جن کو افسوس ہے کہ بلاول اس قدر سمجھدار اور بااختیار نہیں، جس قدر اس کو ہونا چاہیے۔ وہ لوگ کھلی آنکھوں سے خواب دیکھتے ہیں کہ سندھ میں ایک ایسی جمہوری پارٹی جنم لے، جو سندھ کی تعمیر میں مخلص ہو۔ ان لوگوں کو پیپلز پارٹی سے کوئی ہمدردی نہیں۔ مگر ان لوگوں میں سندھ کی سیاسی غیرت کا جذبہ موجود ہے۔ وہ اس بات کو کبھی گوارا نہیں کریں گے کہ سیاسی طور پر یتیم وڈیروں کے کندھوں پر چڑھ کر تحریک انصاف سندھ کے اقتدار پر قبضہ کرے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پیپلز پارٹی کو نہ صرف سندھ کے باشعور افراد بلکہ عام عوام بھی کرپٹ اور خود غرض سمجھتے ہیں۔ وہ پیپلز پارٹی جو اپنے اعمال کے باعث سندھ میں سیاسی ولن کی حیثیت حاصل کر چکی تھی، اس پیپلز پارٹی کو تحریک انصاف کی یلغار نے ہیرو بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
کیا ہم اس حقیقت سے آشنا نہیں کہ جب بھی کسی مقام پر یا کسی آبادی پر کوئی حملہ ہوتا ہے، تب اس علاقے کے غنڈے اور بدمعاش ہیرو اور مسیحا بن جاتے ہیں۔ تحریک انصاف کی اقتدار پرستی پیپلز پارٹی کے لیے لوگوں کے دل میں بہتر تاثر پیدا کرنے لگی ہے۔ یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ تحریک انصاف سیاست کا معیار بہتر بنانے کے بجائے اس کا معیار گرانے کی کوشش میں کامیاب ہو رہی ہے۔ جب ایک برائی کے مقابلے میں زیادہ بڑی برائی آتی ہے تب پہلے والی برائی بری نہیں لگتی۔ اگر تحریک انصاف اچھی حکمرانی کا مثال بنتی تو پھر سندھ کے لوگ عمران خان کو خود صدا دے کر بلاتے، مگر وہ دیکھ رہے ہیں کہ کے پی میں کیا ہو رہا ہے؟ پنجاب میں کیا ہو رہا ہے؟ پورے پاکستان میں کیا ہو رہا ہے؟ وہ ایسا کچھ سندھ میں ہونے دینے کے حامی نہیں ہیں۔ سندھ کے لوگ اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ ان کے مینڈیٹ کو تحریک انصاف کچل کر آئے۔ سندھ میں جیسی بھی حکومت ہے، وہ عوام کی منتخب حکومت ہے۔ حالانکہ عوام نے اس حکومت کو مجبوری میں منتخب کیا ہے، مگر منتخب کیا ہے۔ اس حکومت کو گرانے کا حق بھی ان عوام کو حاصل ہے، جنہوں نے اس حکومت کو بنایا ہے۔ اگر تحریک انصاف میں سیاسی سچائی ہوتی تو وہ سندھ کے عوام کی خدمت والے راستے سے پی پی حکومت پر حملہ آور ہوتی۔ مگر تحریک انصاف نے تو اقتدار کے نشے میں آکر سندھ کے مینڈیٹ کی توہین والی راہ کا انتخاب کیا ہے۔ اقتدار کا نشہ سب سے برا نشہ ہے۔ اس نشے میں حکمران ایسی غلطیاں کرتے ہیں، جیسی غلطی تحریک انصاف سندھ حکومت پر حملہ آور بننے کی کوشش میں کر رہی ہے۔ اس قسم کی غلطیوں کی وجہ سے نہ صرف تحریک انصاف ہیرو سے زیرو بننے کی طرف جا رہی ہے، بلکہ ایسی غلطیاں پیپلز پارٹی جیسی زیرو جماعت کو ہیرو بنانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔
٭