’’نقاد‘‘ کا دوبارہ اجرا دلگیر کی مجبوری بن گئی تھی

ڈاکٹر فرمان فتحپوری
قمر زمانی کے خط اور افتتاحیہ کا پہنچنا تھا کہ دلگیر کی رگ رگ میں تازہ خونِ زندگی دوڑ گیا۔ نقاد کے دوبارہ اجرا پر اب وہ مجبور تھے۔ اس مجبوری میں خواہ کتنی ہی انتظامی اور مالی دشواریاں حائل کیوں نہ رہی ہوں، لیکن شاہ دلگیر کو ان دشواریوں کی مطلق پروا نہ تھی۔ صورت یہ تھی کہ وہ قمر زمانی پر جان چھڑکتے تھے۔ ان کی خوشنودی اور رضامندی کے لیے ترستے تھے۔ مگر قمر زمانی چھلاوا دے جاتی تھیں۔ کسی طرح قابو میں نہ آتی تھیں۔ لیکن پچھلے خط میں انہوں نے دلگیر سے برملا محبت کا اظہار کر دیا تھا اور نقاد کے لیے افتتاحی مضمون بھیج کر ان کے ساتھ پیمان وفا باندھ لیا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک عاشق کی بڑی کامیابی تھی۔ اس نے اپنی دانست میں محبوب کا دل جیت لیا تھا اور اپنی طرح محبوبہ کو بھی اضطراب محبت میں مبتلا کر دیا تھا۔ چنانچہ شاہ دلگیر قمر زمانی کا محبت بھرا خط اور افتتاحی مضمون پاکر باغ باغ ہو گئے۔ قمر زمانی کو بھی شکر و سپاس کا خط لکھا اور اپنے خاص دوستوں کو اپنی کامیابی کی اطلاع دے دی۔ پہلے قمر زمانی کے خط کا جواب دیکھئے:
ارض تاج 8 مارچ 17ء
تمنائے دلگیر
افتتاحیہ اور مسیحا نامہ ملا، کس زبان سے شکریہ ادا کروں۔ ’’اس قدر اضطراب کیوں‘‘۔ ہائے انہیں ادائوں پر جان دیتا ہوں…
وعدہ نہ وفا کرنا پھر اس پہ یہ تاکیدیں
تا حشر ٹھہر جائو کیوں جان نکلتی ہے
اس القاب کا مستحق اب سوائے میرے اور کون ہو سکتا ہے۔ ہائے اسی کا تو یقین نہیں۔ دل جلوں کا ایسا نصیب کہاں۔ آپ ڈریں نہیں۔ میری زندگی، اگر وہ زندگی کہی جا سکے پہلے سے خراب ہے۔ خراب رہے گی اور اسے خراب ہی رہنا چاہئے۔ خود میری تیرہ بختی کا اثر مجھے تباہ کرنے کے لیے کافی ہے۔ آہ میں کیا اور میری زندگی کیا…
’’مردہ دل کیا خاک جیا کرتے ہیں‘‘۔
اس کا انصاف آپ کے ہاتھ ہے کہ میری پرشوق نگاہوں نے آپ کو ڈھونڈھا یا آپ نے مجھ کو تلاش کیا۔ میں 98ء سے دلگیر ہوں۔ 19 برس میں آج تک کسی پر نظر ڈالی ہو تو کافر۔ لیکن تیر اگر خود کلیجے پر آکر پڑے تو زخمی ہونا ہی چاہئے۔ آپ کے یہ دل دوز نشتر کھا کر مجھے احساس ہوا کہ میں دلگیر رہوں گا اور مجھے دلگیر ہی رہنا چاہئے۔
آہ، پرحسرت نگاہیں، کبھی پرشوق نگاہیں نہیں بن سکتیں۔ ’’آخر اس محبت میں دھرا کیا ہے‘‘۔ اسے پڑھ کر مجھے اپنی ذات سے نفرت ہو گئی۔ بے شک محبت کرنے کے قابل نہیں۔ یہ جو کچھ تھا میری ریاکاری تھا۔ معاف کیجئے۔ آئندہ یہ خطا مجھ سے نہ ہوگی۔ خدا مجھے اس دن کو نہ رکھے کہ میں اپنی مٹی خراب کروں۔ آہ یہ مٹی خراب ہونے کے لیے نہیں خراب کرنے کے لیے ہے اور اس نے خراب کر دیا۔ ’’آپ کو کیا اور کوئی سہی‘‘۔ آہ، اس نشتر کا زخم مدت العمر نہیں بھر سکتا۔ ہاں میں ایسا ہی ہرجائی ہوں۔ ایسا ہی فریبی۔ میری غلطی تھی۔ مجھے دھوکہ ہوا کہ اپنے ریاکار اور ملوث دل کو آپ کی محبت کے لائق سمجھا اور یہ نہ سمجھا کہ ’’عنقا را بلند است آشیانہ‘‘۔
میں آپ سے اظہار محبت کر کے پشیمان ہوں۔ شرمندہ ہوں اور اب چاہتا ہوں کہ آپ اسے از راہ محبت واپس کر دیں۔ کیونکہ آپ کو چاہنے کے لیے آپ ہی کا سا معصوم اور بے لوث دل چاہئے۔ میرے جذبات جھوٹے ہیں۔ میری محبت جھوٹی ہے۔ میرا دل جھوٹا ہے اور ہرگز اس قابل نہیں کہ آپ سے محبت کر سکے۔ اس بدنصیب کی نادانی تھی کہ چھوٹا ہوکر اتنا بڑا دعویٰ کر بیٹھا، جس کا وہ کسی طرح اہل نہ تھا۔ اچھا آپ مطمئن رہیں۔ اب میں کچھ نہ چاہوں گا۔ نہ دل، نہ انعام۔
ہائے آپ کو کیا خبر کہ یہاں تک خط میں نے کس حالت میں لکھا ہے۔ بتانا فضول ہے۔ سچ کہتا ہوں باور کرو۔ اب میں اس حالت میں نہیں ہوں کہ آپ کی معرفی جیسا جی چاہتا ہے، ناظرین نقاد سے کر سکوں۔ خدا جانے فرط محبت میں زبان قلم سے کیا نکل جائے، جو شاید آپ کو ناگوار ہو۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ آپ میری طرف سے افتتاحیہ لکھ کر فوراً ارسال کر دیں کہ دونوں ساتھ ساتھ شائع ہو جائیں۔ اسے کسر نفسی نہ خیال فرمایئے گا۔ نفس الامر یہی ہے جو عرض کر رہا ہوں۔ میرا افتتاحیہ فوراً نہ آیا تو پرچہ اپریل کے پہلے ہفتے میں شائع نہ ہو سکے گا۔ اس لیے بواپسی ڈاک مرحمت فرما کر ممنون کیجئے۔
افتتاحیہ کے متعلق میری خاموشی سے اس کی تعریف کا اندازہ کر لیجئے۔ کاش میں ایسا لکھ سکتا۔
’’ہر بات تیری فسانہ حسن۔‘‘
پہلے نمبر کے لیے اپنا ایک مضمون جلد بھیج دیجئے اور عکس رخ موتیوں کے دانوں میں دکھائے تو سب سے پہلے جس کی طرف سے داد ملے گی، وہ میں ہوں گا۔
آپ کا
’’دلدادہ تحریر۔ دلگیر‘‘
قمر زمانی کا جو مضمون بطور ’’افتتاحیہ‘‘ اوپر نقل کیا گیا ہے، وہ ایک ادیب شہیر (علامہ نیاز) کی تراوش خامہ ہونے کے سبب زبان و ادب کا شاہکار ہے۔ دلگیر کو اس کے جواب کی فکر تھی۔ اس فکرمندی کا تذکرہ ان کے خط میں بھی موجود ہے۔ چنانچہ پہلے انہوں نے قمر زمانی ہی سے اس کا جواب ان کی طرف لکھ بھیجنے کی گزارش کی اور بار بار گزارش کی۔ لیکن قمر زمانی کسی سبب سے خاموش رہیں اور دلگیر کے مذکورہ بالا خط مرقومہ 8 مارچ کا کوئی جواب نہ دیا۔ دلگیر نے تین دن جواب کا انتظار کرنے کے بعد قمر زمانی کو پھر لکھا:
12 مارچ 17ء
خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو
ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے
میری جان، اپنی حالت کیا عرض کروں…
جب سے ہوئے ہیں تیرے بیگانہ ہیں جہاں سے
اپنے خیال سے بھی ناآشنائیاں ہیں!
ہائے جب حالت ہے۔ آپ کے خیال کے سوا کوئی مونس تنہائی نہیں۔ حافظ نے گویا میری زبان سے کہا ہے…
بر آستین خیال تو می و ہم بوسہ
برآستان وصال تو نیست دست نیاز
ذرا اس شعر کی حسرت دیکھئے گا۔ آہ، آپ کی اور میری حالت کا اندازہ اس شعر سے بخوبی ہو سکتا ہے…
منم آں کہ خدمت تو کنم و نمی تو انم
توئی آنکہ چارہ من نہ کنی و ناتوانی
سچ کہو یہ شان بے نیازی کب تک دلگیر رکھے گی۔
نقاد کی اشاعت کے سامان کے بعد تعویق جواب سخت دل شکن ہے۔ جلد جلد جواب لکھتی رہئے اور میری طرف سے افتتاحیہ لکھ کر بواپسی ڈاک بھیج دیجئے کہ کتابت میں ہرج نہ ہو اور نقاد مقررہ وقت پر شائع ہو جائے۔ آپ کا افتتاحیہ بلاک بنواکر چھپوانے کا ارادہ ہے۔
یقین کیجئے مجھ میں لکھنے کی بالکل طاقت نہیں ہے۔ کل سے حرارت زیادہ ہے۔
آپ کا
’’بیمار‘‘
(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment