نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے انتخابات ہو رہے ہیں۔ یہ سطور زیر نظر ہوں گی تو نتائج بھی آچکے ہوں گے۔ انتخابات میں فتح و شکست ایک بے معنی سی بات ہے۔ یہ محض ایک پریس یا پانچ سال کے لئے کسی فرد یا گروہ کو ملک یا ادارہ چلانے کی ذمہ داری سونپنے کا عمل ہے۔ جس کا کامیاب ہونے والا فرد یا گروہ اپنے عمل کے ساتھ ووٹروں کا سامنا کرتا ہے، مگر وطن عزیز میں کامیاب نہ ہونے والوں کو شکست خوردہ ہونے کا طعنہ جناب ذوالفقار علی بھٹو نے دیا اور 77ء کے انتخابات میں ہر قیمت پر کامیابی کی آرزو نے انہیں تختہ دار تک پہنچا دیا۔ ایک بات طویل مدت سے سوال بن کر ذہن سے چپکی ہوئی ہے کہ جناب ذوالفقار علی بھٹو ایک قانون دان اور اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص تھے، وہ کسی جرم کی ایف آئی آر کی اہمیت کو کیوں نہ سمجھ سکے اور نواب احمد خان کے قتل میں جب ان کا نام ڈالا گیا تو انہوں نے ایف آئی آر کو سیل کروا کر مخالفین کے ہاتھ میں ایک کامیاب ہتھیار کیوں تھما دیا؟ وہ بہت آسانی کے ساتھ کسی بھی عدالت کے ذریعے اس سے جان چھڑا سکتے تھے، مگر انہوں نے ایسا نہ کیا، بہرحال فی الوقت موضوع کچھ اور ہے۔
ایک زمانہ تھا وطن عزیز میں ٹریڈ یونین ازم کا زور شور تھا، سرکاری اداروں میں یونین ایک ایسے مضبوط ادارے کی حیثیت رکھتی تھی، جو ادارے میں کام کرنے والے کارکنوں کے حقوق کی حفاظت کرتی تھی۔ انتظامیہ اور کارکنوں کے درمیان معاملات دیکھتی تھی۔ ایک زمانہ تھا کہ ٹریڈ یونینز پر بائیں بازو کی بالادستی تھی، پھر اداروں میں ریفرنڈم ہوئے۔ ریلوے، پی آئی اے، اسٹیل ملز اور خدا کا کرنا یہ ہوا کہ ان اداروں سے بائیں بازو کا صفایا گیا اور دائیں بازو کی پریم، پیاسی نے مزدوروں کی قیادت سنبھال لی۔ میاں افتخار الدین کے پروگریسو پیپرز لمیٹڈ کو ایوب خان نے سرکاری تحویل میں لے لیا۔ یہ وہ ادارہ تھا جو انگریز کے پاکستان ٹائمز اردو کے امروز اور ہفت روزہ لیل و نہار شائع کرتا تھا اور ان اداروں میں حضرت فیض احمد فیض، حضرت احمد ندیم قاسمی جیسی نابغہ روزگار شخصیت کام کرتی تھیں۔
یہ وہ زمانہ تھا جب ریلوے سفر کا ایک معتبر ذریعہ تھا۔ پی آئی اے کا نعرہ تھا ’’باکمال لوگ لاجواب پرواز‘‘ جب ایوب خان کے دور میں ویج بورڈ بنا اور اس کا پہلا ایوارڈ آیا تو پروگریسو پیپرز وہ واحد ادارہ تھا جس میں ایوارڈ میں تجویز کی گئی تنخواہوں سے زیادہ کارکنوں کو معاوضہ ملتا تھا، مگر کارکردگی کی کڑی نگرانی بھی ہوتی تھی۔ قومی تحویل میں لئے گئے اداروں کی کارکردگی صفر ہو کر رہ گئی۔ یونین کے عہدیدار امیر اور ادارے مفلوج ہوتے چلے گئے۔ روزنامہ کوہستان، تعمیر سے الگ ہونے والے عنایت اللہ مرحوم نے نکالا۔ راولپنڈی، لاہور، ملتان سے کامیابی کے ریکارڈ توڑ دیئے۔ پھر کیا ہوا؟ اب صحافتی تاریخ کا ایک بے نام و نشان وجود ہے۔ کیسے کیسے لعل و جواہر اس ادارے نے دیئے۔ حضرت ابو صلاح اصلاحی، حافظ مظہر الدین، ناصر بخاری، کوئی ہمت کرے اور تحقیق پر کمر باندھے اور ان اداروں میں یونینوں کے عہدیداروں کے مال و زر کا کھوج لگائے تو دنیا حیران رہ جائے گی۔
حضرت مجید نظامیؒ تو سرے سے یونین بازی کے خلاف تھے۔ میں پی ایف یو جے کا صدر منتخب ہوا تو حضرت مجید نظامیؒ کو ایک تقریب میں زحمت دی۔ وہاں انہوں نے فرمایا: میں تو تماش بینی کو مانتا ہی نہیں ہوں، مگر سعود ساحر کا کہنا ٹال نہیں سکتا، سو آپ کی محفل میں آگیا ہوں۔ اب یہ زمانہ آگیا ہے کہ حکومتی تحویل میں چلنے والے ادارے سسک رہے ہیں۔ شیخ رشید احمد ریلوے کو سدھارنے میں لگے ہیں۔ پی آئی اے باکمال لوگوں کی یادوں کا مدفن ہے۔ مسافر لاجواب پرواز کو ترستے ہیں۔ اسٹیل ملز کا حال کسی کو معلوم نہیں۔ عثمان فاروقی بھی اب بھلی بسری یاد ہیں۔ حق تعالیٰ سے دعا ہے کہ پاکستان اور اس کے اداروں کو استحکام عطا فرمائے۔ آمین۔
٭٭٭٭٭