نبی مہربانؐ سے تعلق ثمر

کل امریکی ریاست کنٹکی (Kentucky) کے سب سے بڑے شہر لوئی ول (Louisville) کے ہوائی اڈے کو دنیائے باکسنگ کے تاقیامت بادشاہ محمد علی کے نام سے منسوب کر دیا گیا۔ محمد علی 17 جنوری 1942ء کو لوئی ول کے ایک قدامت پسند مسیحی گھرانے میں پیدا ہوئے اور ان کا نام کاشیس کلے جونیر Cassious Cly Jr رکھا گیا۔ جو احباب KFC کے شوقین ہیں، ان کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ اس کا آغاز کنٹکی سے ہی ہوا تھا اور اسی بنا پر اس کا پوارا نام کنٹکی فرائیڈ چکن ہے۔ محمد علی نے 12 سال کی عمر میں باکسنگ شروع کی اور جب وہ 18 سال کے ہوئے تو انہیں باکسنگ کا طلائی تمغہ عطا ہوا۔ 19 سال کی عمر میں وہ دین فطرت کی طرف واپس آئے اور انہوں نے اپنا نام تبدیل کرکے محمد علی رکھ لیا۔ نام کے بارے میں محمد علی کا کہنا تھا کہ انہیں سب سے زیادہ محبت حضرت محمد مصطفیؐ سے ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ قیامت کے روز جب ان کی اپنے رب کے حضور پیشی ہو تو انہیں محمد کے نام سے طلب کیا جائے۔ علی کے انتخاب کی وجہ قبول اسلام میں حضرت علیؓ کی سبقت ہے۔ نبی مہربانؐ سے محمد علی کی عقیدت کا ایک واقعہ قارئین کی دلچسپی کے لئے نقل کرتے ہیں:
امریکہ کی فلم نگری ہالی ووڈ میں ایک سڑک مشاہیر کی گلی یا Walk of Fame کے نام سے مشہور ہے۔ پیدل چلنے والوں کی اس سڑک پر دنیا بھر کے مشہور فنکاروں، کھلاڑیوں اور رہنمائوں کے ناموں کی تختیاں زمین پر نصب ہیں، جہاں مداح اپنی محبوب شخصیت کے ناموں کے قریب کھڑے ہوکر تصویریں کھچواتے ہیں۔ Walk of Fame میں تختی کی تنصیب بہت بڑا اعزاز سمجھا جاتا ہے۔ 2002ء میں اس سڑک پر محمد علی کے نام کی تختی لگانے کا فیصلہ ہوا۔ یہ محمد علی کے لئے بڑا اعزاز تھا، لیکن وہ یہ سوچ کر ہی کانپ اٹھے کہ آقاؐ کا نام زمین پر لکھا ہوگا اور لوگ اسے اپنے پیروں سے روند رہے ہوں گے۔ محمد علی نے کمیٹی سے درخواست کی کہ ان کا نام Walk of Fame پر درج نہ کیا جائے۔ لوگوں کو بڑی حیرت ہوئی کہ دنیا کے مشاہیر تو حسرت کرتے ہیں کہ ان کے نام کی تختی یہاں نصب ہو اور وہ دنیا میں امر ہو جائیں، جبکہ محمد علی خود ہی اس عظیم اعزاز کو ٹھکرا رہے ہیں۔ لوگوں نے بہت سمجھایا، لیکن محمد علی راضی نہ ہوئے۔ چنانچہ کمیٹی نے محمد علی کے نام لکھنے کی تجویز واپس لے لی۔ تاہم کمیٹی کی دوسرے اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ محمد علی نے اپنے نبیؐ کے احترام کا جو مظاہرہ کیا ہے، اس سے ان کی عظمت اور بڑھ گئی ہے۔ چنانچہ محمد علی کے نام کی تختی سڑک پر نصب کرنے کے بجائے گلی کی دیوار پر لگا دی گئی۔
اس سے پہلے بھی محمد علی نے اپنے عقیدے کی حرمت پر باکسنگ کے اعزاز کو قربان کیا تھا۔ 1966ء میں انہوں نے امریکی فوج میں بھرتی ہونے سے انکار کردیا۔ یہ ویت نام جنگ کا زمانہ تھا اور لازمی فوجی خدمت کے تحت یہ انکار قابل سزا جرم تھا، لیکن محمد علی نے یہ کہہ کر ویت نام جانے سے انکار کردیا کہ ’’میرا مذہب بے گناہوں کے قتل کو انسانیت کے خلاف جرم سمجھتا ہے اور میں معصوم لوگوں کا خون نہیں بہا سکتا۔‘‘ حکم عدولی پر انہیں تمام اعزازات سے محروم کرکے جیل بھیج دیا گیا۔
محمد علی کہا کرتے تھے کہ خدا نے انہیں نوازنے کا آغاز لوئیول سے کیا تھا۔ چنانچہ اہلیان شہر نے اپنے قابل فخر بیٹے کی سالگرہ کے موقع پر اس کے نام کی تختی شہر کی پیشانی پر نصب کر دی۔ حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں جب کسی نے ان کی تعریف کی تو حضرت پر رقت طاری ہوگئی اور روتے ہوئے فرمایا ’’عمر کو تو بکریاں چرانا بھی نہ آتا تھا، یہ سارا وقار نبی مہربانؐ کے تعلق سے ہے۔‘‘ محمد علی کا اعزاز بھی رسول اکرمؐ سے وفاداری اور عقیدت کا ثمر ہے۔ دعا ہے کہ خدا تعالیٰ محمد علی کو اپنے محبوبؐ سے محبت کا بہترین اجر عطا فرمائے۔
ہیں تلخ بہت بندئہ مزدو کے اوقات:
امریکہ کی ڈیموکریٹک پارٹی نے کم سے کم تنخواہ میں اضافے کے لئے ایک مسودہ قانون پیش کیا ہے۔ کانگریس کی مجلس قائمہ برائے محنت اور پارٹی کے سینئر سیاہ فام رہنما با بی اسکاٹ (Bobby Scott) کی جانب سے پیش کئے جانے والے Raise the Wages Act Tax 2019 پر ایوان نمائندگان کے 181 اور 31 سینیٹروں نے دستخط کئے ہیں۔ اس قانون کے تحت حالیہ تنخواہ 7.5 ڈالر فی گھنٹے کو رفتہ رفتہ ہر سال بڑھا کر 2024ء تک 15 ڈالر فی گھنٹہ کردیا جائے گا۔ ضعیف العمر اور 20 سال کے بچوں کو ترجیحی بنیاد پر کم تنخواہ دے کر ملازم رکھنے کے قانون کا خاتمہ بھی اس بل کا حصہ ہے۔ موجودہ قانون کے تحت آجر ضعیف اور کم عمر لوگوں کو کم سے کم تنخواہ سے بھی کم پر ملازم رکھ سکتے ہیں۔ نئے قانون کے تحت آجر ان لوگوں کو بھی کم سے کم تنخواہ دینے کے کے پابند ہوں گے۔
ایوانِ نمائندگان کی اسپیکر محترمہ نینسی پلوسی اور سینیٹ کے اقلیتی سربراہ (حزب اختلاف) سینیٹر چک شومر نے اس بل کی مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے۔ یہ قرارداد ایوانِ نمائندگان میں تو آسانی سے منظور ہو جائے گی کہ یہاں ڈیموکریٹک پارٹی کو برتری حاصل ہے، لیکن ریپبلکن پارٹی کی شدید مخالفت کی بنا پر اس کا سینیٹ سے منظور ہونا بہت مشکل نظر آرہا ہے۔ 100 رکنی ایوان بالا میں ریپبلکن پارٹی کے پاس 53 نشستیں ہیں۔ اگر مزدور یونینوں کے دبائو پر سینیٹ سے بھی یہ قرارداد منطور ہوگئی تو صدر ٹرمپ اسے ویٹو کرکے غیر مؤثر کردیں گے۔ صدارتی ویٹو کو دو تہائی اکثریت سے ناکام کیا جا سکتا ہے، لیکن کانگریس سے اتنے زیادہ ووٹوں کا حصول ناممکن حد تک مشکل ہے۔ دوسری جانب امریکہ کی مزدور انجمنیں بل کی منظوری کیلئے سارے ملک میں مظاہروں کا پروگرام بنا رہے ہیں۔ ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment