سنتی جا، شرماتی جا

پاکستان کے اکثر حکمرانوں اور سیاستدانوں کے پاس بے پناہ مالی اثاثوں اور جائیداد و املاک کی کوئی کمی نہیں ہے، لیکن جس چیز کی قلت شدت سے محسوس کی جاتی ہے، وہ جذبہ حب الوطنی ہے۔ ان کے پاس جتنی اور جیسی بھی قابلیت، صلاحیت اور تجربہ ہے، اسے انہوں نے ملک و قوم کی فلاح کے لئے استعمال کرنے کے بجائے ہمیشہ اپنی موروثی سیاست کو بچانے، قومی دولت لوٹ کر تجوریاں بھرنے اور صرف اپنی آئندہ نسلوں کا مستقبل محفوظ بنانے کے لئے استعمال کیا۔ یہی وجہ ہے کہ وطن عزیز آزادی کے ستر سال بعد بھی سیاسی و اقتصادی طور پر زبوں حالی کا شکار اور اس کے بائیس کروڑ افراد غربت و افلاس میں مبتلا اور زندگی کی تمام بنیادی ضرورتوں سے محروم ہیں۔ اس کے برعکس ان کی خدمت کے دعویدار حکام، ادارے، سیاستدانوں اور نوکر شاہی کے کارندے نہایت عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ دونوں طرف کے چہرے دیکھ کر فوراً ہی بہ زبان فارسی یہ کہا جا سکتا ہے کہ ’’صورت ببیں حال مپرس‘‘ یعنی دنیا کے لوگو! کسی کو پاکستان کے مقتدر و متمول طبقات اور غریبوں کا حال پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے، ایک طرف چمکتے دمکتے چہرے اور دوسری طرف پژمردہ جسم دیکھ کر خود ہی اندازہ ہو جائے گا کہ پاکستان اور اس کے عوام کا کیا حال ہے۔ سب سے زیادہ حیرت اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ ملک و قوم پر سات عشروں سے مسلط طبقوں میں ذمے داری کا احساس ہے، نہ شرم و حیاء ان کے قریب سے گزری ہے، وہ حزب اقتدار میں ہوں یا مخالف صفوں میں، آج بھی حلق پھاڑ پھاڑ کر دعوے کر رہے ہیں کہ ہم تو عوام کے غم میں گھلے جا رہے ہیں، پھر بھی ان کے حالات میں کوئی بہتر تبدیلی نہ آئے تو اللہ کی مرضی، ہم اور وہ انتظار کے سوا کیا کر سکتے ہیں۔ ابھی عام انتخابات کو چھ ماہ ہی گزرے ہیں کہ وفاق اور سندھ کی حکومتیں اپنا اصل کام، یعنی ملک و قوم کی خدمت چھوڑ کر ایک دوسرے کو گرانے میں لگی ہوئی ہیں۔ ایک طرف حزب اختلاف کی جماعتیں قومی حکومت بنانے یا تحریک انصاف کی مخلوط حکومت کو ختم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، تو دوسری جانب وفاقی حکومت سندھ میں وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کی جگہ کسی اور کو اس منصب پر فائز کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ قومی اخبارات اور ٹی وی چینلز کو اشتہارات کے اربوں روپے نہ دلانے اور ذرائع ابلاغ کے محنت کشوں کو پانچ چھ ماہ کی تنخواہیں ادا کرکے فاقوں سے بچانے میں ناکام وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری روزانہ بیانات کی گولا باری کرکے ایک جانب حکومت سندھ کو ڈرا رہے ہیں تو دوسری طرف پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے رہنمائوں نے وفاق میں حکمراں جماعت تحریک انصاف کے ناراض ارکان سے رابطے شروع کر دیئے ہیں۔ ابھی یہ بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی ہے، لیکن آئندہ حکومت کے متوقع وزیر اعظم کے نام بھی سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ ان میں بلاول بھٹو زرداری، شہباز شریف اور ان کے بیٹے حمزہ شہباز کے نام سب سے نمایاں ہیں۔ شامل باجا کے طور پر تحریک انصاف کے دو سرکردہ رہنمائوں کے نام بھی زیر گردش ہیں، جو فی الوقت وفاقی کابینہ میں شامل رہ کر حکمرانی کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ اس حوالے سے بلوچستان کے اختر مینگل کا نام بھی لیا جا رہا ہے۔
کوئی حکومت گرے، برقرار رہے یا دوسری حکومت بنے، ایم کیو ایم کے ارکان اسمبلی حسب عادت دونوں ہاتھوں میں لڈو لینے کے لئے رال ٹپکا رہے ہیں۔ اس تحریک کے رہنما اسلام آباد میں وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کرکے اپنے دفتروں کی بازیابی سمیت کچھ مطالبات منوانے کی کوشش کر چکے ہیں۔ ادھر کراچی میں فواد چوہدری نے ایم کیو ایم کے رہنمائوں سے ملنے کے بعد کہا کہ کراچی میں پیپلز پارٹی کا کوئی سیاسی مستقبل نہیں ہے۔ سندھ تبدیلی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ کراچی میں ملاقاتوں نے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو ہٹانے کی بنیاد رکھ دی ہے۔ اگر پیپلز پارٹی خود انہیں ہٹانے کا فیصلہ نہیں کرتی تو وزیر اعظم عمران خان فیصلہ کریں گے کہ اس غبارے سے کب ہوا نکالنی ہے۔ بڑبولے وزیر اطلاعات کو یہ بتانے والا کوئی نہیں کہ وفاقی حکومت کا غبارہ اس سے بھی بڑا اور کمزور ہے، جس کی ہوا نکالنے کے لئے کسی بیرونی دبائو یا پن کی ضرورت نہیں ہے، اندر کا پریشر ہی اس کو پھاڑنے کے لئے کافی ہوگا۔ قومی اسمبلی کے نمبر گیم میں تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ ایک سو چھپن ارکان ہیں اور اتنی ہی تعداد اپوزیشن ارکان کی ہے۔ تحریک انصاف کے جو دو رہنما حزب اختلاف میں شامل ہونے کے لئے پر تول رہے ہیں، اگر ان کی سودے بازی کامیاب ہوگئی تو پانسہ پلٹ سکتا ہے۔ حکومت کی حمایت کرنے والے ایم کیو ایم کے سات ارکان قومی اسمبلی ماضی کی طرح کسی وقت بھی دھوکہ دے سکتے ہیں، جبکہ فواد چوہدری کے ایک بیان کی وجہ سے مسلم لیگ (ق) اور گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس بھی حکومت سے ناخوش ہے۔ اقتدار کی اس رسا کشی میں شامل کسی جماعت کو یہ فکر نہیں کہ قومی معیشت بڑی تیزی سے روبہ زوال ہے۔ قرضے اور مہنگائی میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومت کے اقتصادی ماہرین، بشمول وزیر خزانہ اسد عمر، قوم کو ہر روز ایک نیا خواب دکھا رہے ہیں، لیکن سونے اور ڈالر کی قیمت میں اضافہ، ادائیگیوں کا عدم توازن، زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی اور درآمدات و برآمدات کا بڑا فرق موجودہ حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کی ناکامیوں کا واضح ثبوت ہے۔ مزید قرضوں کے حصول میں بھی اب تک خاطر خواہ کامیابی نظر نہیں آتی، ورنہ اس کے اثرات مہنگائی کم ہونے اور روزگار کے مواقع بڑھنے کی صورت میں فوری طور پر ضرور ظاہر ہوتے۔ مرے پر سو درے کے مصداق اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے خبر دی ہے کہ گزشتہ چھ ماہ کے دوران غیر ملکی سرمایہ کاری میں دو چار فیصد نہیں، ستر فیصد کمی واقع ہوئی ہے، جو تین ارب ڈالر تک کم ہو چکی ہے۔ گزشتہ مالی سال کے دوران، جولائی تا دسمبر 2017ء ملک میں تین ارب چھیانوے کروڑ ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری ہوئی تھی، جبکہ رواں سال اسی مدت کے دوران صرف نوے کروڑ روپے کی سرمایہ کاری ہوئی۔ ملک کی اس مجموعی صورتحال کے تناظر میں تبدیلی اور فلاحی ریاست کے دعویدار تحریک انصاف کی حکومت سے عوام کیا امید سے رکھ سکتے ہیں؟ البتہ یہ کہے بغیر نہیں رہا جا سکتا کہ ’’سنتی جا، شرماتی جا‘‘ جس حکومت نے ایک دن بھی مردانہ دلیری کا مظاہرہ نہیں کیا، اس کے لئے تذکیر کے بجائے تانیث کا صیغہ ہی زیب دیتا ہے، ورنہ اصل محاورہ یہ ہے ’’سنتا جا، شرماتا جا‘‘ اس کے علاوہ شرمانا مردوں سے زیادہ خواتین کی صفت ہے، جن کی تحریک انصاف میں کوئی کمی نہیں۔ ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment