قمر زمانی کی خاموشی نے دلگیر کو مضطرب کردیا تھا

ڈاکٹر فرمان فتحپوری
قمر زمانی نے دلگیر کے اس خط کا بھی جواب نہیں دیا جو انہوں نے بارہ مارچ کو لکھا تھا۔ اب دلگیر کو اپنے افتتاحیہ مضمون کی اور بھی فکر ہوئی۔ انہوں نے قمر زمانی کی خاموشی سے سمجھ لیا کہ وہ ان کی طرف سے مضمون لکھ بھیجنے کی فرمائش پوری نہ کریں گی۔ اس لیے انہوں نے مجبوراً علامہ نیاز فتح پوری کو جو اصل میں قمر زمانی تھے، قمر زمانی کے افتتاحیہ مضمون کی نقل بھیجی اور ان سے اس کا جواب لکھ دینے کی گزارش کی۔ اتفاق سے یہ خط بھی نیاز صاحب کے پاس محفوظ تھا اس پر بھی نظر ڈالتے چلئے۔ دلگیر نے نیاز صاحب کو لکھا:
آگرہ 10 مارچ 17ء
’’محب جلیل‘‘
نوازشی کارڈ ملا۔ اب میں اس خیال پر قائم ہوں اور خدا نے چاہا تو آخر مارچ تک نقاد آپ کے ہاتھوں میں ہو گا۔ انشااللہ تعالیٰ لطیف صاحب کے مکان پر آپ نے اس کا جو معاوضہ طے فرمایا تھا۔ مجھے منظور ہے۔ جب ارشاد ہو بذریعہ منی آرڈر ارسال کر دوں یا مضمون آپ بذریعہ وی پی ارسال کر دیں مگر جلد، کیونکہ پہلے نمبر میں اسے ہی دینے کا ارادہ ہے۔
مانی صاحب کی نظم نہیں ملی جلد ارسال فرمایئے۔
’’افتتاحیہ‘‘ نقاد کے نشاۃ الثانیہ کے لیے آگیا ہے جو بغرض ملاحظہ روانہ کرتا ہوں۔ مجھ میں اتنی سکت نہیں کہ اس کے مقابلے میں افتتاحیہ لکھ سکوں۔ اس لیے یہ کام آپ کو اور صرف آپ کو کرنا ہو گا کہ میری طرف سے افتتاحیہ لکھ دیجئے جس میں ان کی (قمر زمانی کی) تقریب ان کی (قمر زمانی کی) شان کے موافق ہو جائے، واقعہ کا علم آپ کو ہے۔
میں ممنون ہوں گا۔ آپ ’’افتتاحیہ‘‘ جواب کے ساتھ ارسال فرمائیں ورنہ آخر مارچ تک پرچہ شائع نہ ہو سکے گا۔ اس کا خیال رہے۔
اگر آپ حسب منشا افتتاحیہ لکھ دیں گے تو مدۃ العمر شرمندہ احسان رہوں گا۔ دیکھئے کتنی اچھی خدمت آپ کے سپرد کی ہے۔
عارف صاحب کا خط آیا۔ مضامین دینے کا وعدہ ہے۔ خلیقی بھی لکھ رہے ہیں۔ رئوف کو اب لکھتا ہوں۔ آپ بھی ان کو لکھ دیجئے۔
یہ ’’افتتاحیہ‘‘ جو بھیج رہا ہوں نقاد کی اشاعت سے پہلے کسی پر ظاہر نہ کیجئے ورنہ لطف جاتا رہے گا۔
بے صبری سے منتظر
دلگیر
نیاز فتح پوری نے افتتاح کا مضمون لکھ کر اسی ہفتے دلگیر کے حوالہ کر دیا۔ افتتاحی مضمون ملتے ہی دلگیر نے قمر زمانی کی خاموشی کے باوصف ان کو پھر ایک خط لکھا اور اپنا افتتاحی مضمون بھی بغرض ملاحظہ منسلک کر دیا۔ اصل خط یہ ہے:
17 مارچ 17ء
قمر دلگیر
خوش رہو۔ میرے دونوں خط اب تک لاجواب رہے۔ میری طرف سے افتتاحیہ تو کیوں لکھتیں۔ مزاج پرسی تک نہ کی۔ اس ناخوشی کا کیا ٹھکانہ۔ خیر؎
گو نہیں پوچھتیں وہ اپنا مزاج
ہم تو کہتے ہیں دعا کرتے ہیں
ہم ہوں نہ ہوں تم سلامت رہو۔
مرمر کے ’’افتتاحیہ‘‘ کی تقریب کی ہے۔ گویا آپ کا منہ چڑایا ہے۔ بغرض اصلاح بعینہٖ بھیجتا ہوں۔ نظرثانی بھی نہیں کی۔ دیکھ کر جلد واپس فرمایئے دیر نہ ہو۔ پہلے نمبر کے لیے اپنا کوئی مضمون فوراً عنایت ہو کہ ضرورت ہے۔ آپ کا افتتاحیہ بلاک بننے اور چھپنے کے لیے بمبئی گیا ہوا ہے۔
نقاد دو جزو تک لکھا جا چکا ہے تیسرا جزو لکھنا باقی ہے۔ پرسوں سے چھپنا شروع ہو جائے گا۔ حیران ہوں کہ اب کے نقاد خدا جانے کیا ہوگا۔
واللہ لوگ دیکھتے ہی مر جائیں گے۔
مختلف موقت الشیوع اخبارات میں اس مضمون کا اشتہار روانہ کر دیا گیا ہے۔
’’نقاد ایک خاتون کے ہاتھ میں‘‘
’’وہ جن کی مسیحائی نے نقاد کو دوبارہ زندہ کر کے اس کی حیات ثانیہ کو خدا جانے کس رنگ میں رنگ دیا ہے۔ دنیائے علم و ادب میں یہ پہلی مثال ہے کہ ایک ادبی رسالے کو ایسا قابل ذہین اور غیر معمولی پاکیزہ مذاق ادب رکھنے والے نسوانی دماغ تہذیب و ترتیب کے لیے میسر آیا ہوں آپ ایک بار دیکھ تو لیں۔‘‘
انشااللہ تعالیٰ حسب وعدہ اپریل کے پہلے ہفتے میں نقاد آپ کے دست ناز میں ہوگا۔
لیکن نقاد کے نظام ہستی کو برقرار رکھنے کے لیے ضرورت ہے کہ آپ جلد جلد لکھتی رہیں اور اپنے افکار جمیلہ سے محروم نہ رکھیں۔ ورنہ اب میری موت میں کیا شبہ ہو سکتا ہے۔
مضمون بغیر اصلاح واپس کیا تو لڑوں گا، گو لڑنا نہیں آتا۔
صرف آپ کا
’’دلگیر‘‘
(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment