ڈاکٹر ضیاألدین خان
dr.ziauddinkhanpk@gmail.com
ایک ہنگامہ خیز دور کے خاتمے پر جسٹس ثاقب نثار ریٹائر ہوگئے۔ جاتے جاتے وہ اپنے پیچھے مسائل کا ڈھیر چھوڑ گئے۔ جنہیں سلجھانے کے لئے نئے چیف جسٹس کو ابتدا سے محنت کرنی ہوگی۔ جسٹس کھوسہ کو ان مسائل کا شدت سے ادراک ہے۔ تبھی اپنے خطاب میں انہوں نے ان کی نشاندہی کی ہے اور حل کرنے کی خواہش کا اظہار بھی۔ ثاقب نثار نے ایسے کئی ایشوز تشنہ چھوڑے، جنہوں نے پاکستانی معاشرے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ تمدن۔ تصوف۔ شریعت۔ کلام سے لے کر سیاست۔ معیشت۔ حکومت۔ عوام تک ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں۔ اور اب۔ تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں۔ وہ تو چلے گئے۔ لیکن اون کا گولہ الجھا گئے۔ جسٹس ثاقب نثار کے اندر ایک بے چین روح تھی۔ جس نے عدلیہ سے انتظامیہ تک۔ حکومت سے اسمبلی تک۔ صنعت سے تجارت تک۔ تعلیم سے تربیت تک۔ ریاست سے اداروں تک۔ اور قانون سے کلام تک ہر جگہ طاقت پرواز کا مظاہرہ کیا۔ وہ پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتے تھے۔ یہ بات پھر کبھی کہ اس پرواز کے اثرات مفید تھے یا مضر۔ عدالتی فیصلوں کی فصل ذائقے سے آشنائی تب دیتی ہے۔ جب وقت کی دھوپ میں پکنے کے بعد اس میں تلخی یا شیرینی کا رس آجاتا ہے۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ ان کا دور سوموٹو کے نام پر عدالتی تحرک کا سب سے نمایاں دور تھا۔ تحرک ایسا کہ خود ان کے عقیدت مندوں کو بھی شکایت ہونے لگی۔ جن میں سب سے نمایاں حکومت تھی۔ وہی حکومت جس نے ان کے دفاع میں مضبوط پشتے باندھتے باندھتے اپنے کپڑے گیلے کرلئے۔ اتنے گیلے کہ اپوزیشن نے بالواسطہ طور پر گٹھ جوڑ کا الزام بھی لگا دیا۔ یقین نہ آئے تو اس وقت کا سوشل میڈیا دیکھ لیں۔ عالمی قانونی حلقوں میں اس اختیار کے کثرت استعمال کو حیرت اور افسوس کی نظر سے دیکھا گیا۔ لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز یعنی لمس کی لا فیکلٹی کے پروفیسر علی سلطان کہتے ہیں کہ انہیں اکثر بین الاقوامی وکلا کانفرنسوں میں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ جہاں پاکستان کا مذاق ارایا جاتا تھا کہ وہاں کی عدلیہ سوموٹو کے نام پر ہر چیز میں پائوں اڑا دیتی ہے۔ خود نثار صاحب بھی اکثر غزالوں کے تعاقب میں ختن سے آگے نکل جاتے تھے۔ لیکن پھر لوٹ بھی آتے تھے کہ آگے جائے رفتن ہوتا تھا نہ پائے ماندن۔ اس سے عدالتی فیصلوں میں یوٹرن کا تاثر بھی ابھرا۔ ان کے چند ہی فیصلے ہوں گے۔ جن سے تمام فریقین کو اتفاق ہو۔ خصوصاً سیاسی مقدمات کے حوالے سے کئے گئے وہ فیصلے زیادہ تنقید کا نشانہ بنے، جن سے قومی معیشت بحران کا شکار ہوئی۔ اس بحران کا جو اب قابو سے باہر ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ سیاسی مقدمات میں اتنی تیزی دکھانے والے ثاقب نثار نے بارہ مئی۔ 19 اپریل۔ سانحہ بلدیہ فیکٹری جیسے خوفناک مقدمات کو آگے بڑھانے میں کوئی دلچسپی نہیں لی اور نہ فوجی عدالتیں بننے کے بعد اپنی ماتحت عدلیہ کی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے بے چین نظر آئے۔ حالانکہ فوجی عدالتوں کا قیام سول عدلیہ پر براہ راست عدم اعتماد کا اظہار تھا۔ عدالتی تحرک کا جدید چلن سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے ڈالا تھا۔ جنہوں نے سوموٹو اختیار کو عدالتی ہتھیار بنا کر انتظامیہ اور حکومت کو پنجوں کے بل کھڑا کر دیا تھا۔ اس اختیار کے لازمی جزو کے طور پر ان کے کاٹ دار اور تلخ تبصرے تھے۔ جو دوران سماعت عدالت کی فضا میں کشیدگی بھر دیتے تھے۔ اس روایت کو جسٹس ثاقب نثار نے آگے بڑھایا۔ کیونکہ وہ بھی بولنے کی لذت میں مبتلا تھے۔ اس لذت میں کہ جس کے ہاتھوں آج حکومت کا ہر شخص گرفتار ہے۔ اللہ تعالیٰ نئے چیف جسٹس کو ایسے اظہار سے محفوظ رکھے۔ بات یہ ہے کہ جج کی زبان اس کے قلم سے بولتی ہے۔ اور قلم کی زبان دل کے ساتھ ساتھ دماغ کی رفیق بھی ہوتی ہے۔ یہ صرف قلندروں کا نہیں ججوں کا بھی طریق ہے۔ جج کی خاموشی ہی اس کی غیر جانبداری ہے۔ اور غیر جانبداری ہی اصل ایمان۔ انسانی پیشوں میں سب سے زیادہ اللہ کو جواب دہ جج ہوگا۔ ورنہ امام ابو حنیفہؒ اس ذمہ داری سے بچنے کے لئے جان نہ چھڑاتے۔ ان سے زیادہ علم کس کے پاس تھا؟ لیکن جوابدہی کے احساس نے علم کا پرچم سرنگوں کر دیا۔ سو وہ خلیفہ کے اصرار پر بھی راضی نہ ہوئے۔ خاموشی کی روایت توڑنے کا آغاز جسٹس کیانی نے کیا تھا۔ وہ پہلے جج تھے جنہوں نے عدالت کو اظہار کی آزادی کا ذریعہ بنایا۔ لیکن تب اس کا سبب جمہوریت کا دفاع تھا۔ وہ ایوب دور کا مارشل لاء تھا۔ پہلا توانا اور گبرو مارشل لائ۔ جس نے سیاست۔ جمہوریت۔ اسمبلی۔ عوام سب کو ’’بنیادی جمہوریت‘‘ کے کوزے میں بند کر دیا۔ پھر یہ کوزہ آمر مطلق کے غسل خانے میں دھرا آب دست کے کام آتا تھا۔ ایسے میں عدالت کا احاطہ واحد مقام تھا۔ جہاں آمر کا امر نہیں چلتا تھا۔ سو جسٹس کیانی نے نعرئہ حق بلند کرنے میں دیر نہ لگائی۔ اپنے شگفتہ تبصروں اور شاہکار تقریروں سے لوگوں کو زندہ ہونے کا احساس دلایا۔ وہ جتنے بڑے جج تھے۔ اس سے زیادہ صاحب بصیرت عالم بھی۔ اس لئے تبصروں میں کہیں ذاتیات کا سایہ نہیں پڑا۔ وہ شگفتگی پھیلاتے تھے کشیدگی نہیں۔ وہ حوصلہ دینے والے شخص تھے۔ ڈرانے دبانے دھمکانے خوفزدہ کرنے اور بدلہ لینے والے نہیں۔ ان کے نزدیک ملزم تب تک بے گناہ تھا۔ جب تک استغاثہ جرم ثابت نہ کر دے۔ اور استغاثہ تب تک گنہ گار تھا جب تک اپنی شفافیت ثابت نہ کر دے۔ وہ سیاست۔ ریاست۔ معیشت۔ طریقت۔ تمدن سب کے زوال پر نوحہ کناں تھے۔ لیکن اپنا درد چٹکلوں میں بیان کرتے تھے۔ چٹکیاں نہیں لیتے تھے۔ ان کے نزدیک اخلاقیات سب باتوں پر مقدم تھی۔ دیانت۔ اہلیت اور کردار کو وہ اخلاقیات کی بنیاد سمجھتے تھے۔ اس لئے آمر سے اختلاف میں کہیں شائستگی کا دامن نہیں چھوڑا۔ کہیں جانبداری کا سایہ نہیں پڑا۔ اور کبھی مایوسی کی تاریکی نہیں پھیلی۔ ان کے تبصرے اعلیٰ درجے کی ادبی چاشنی رکھتے تھے۔ جو بعد میں ضرب المثل کی طرح دہرائے جاتے تھے۔ انہوں نے خاموشی کی روایت ضرور توڑی۔ لیکن اس کی جگہ ایک بہتر روایت ڈالی۔ آمر کے خلاف اظہار میں شائستگی۔ قانون اور جمہوریت کے دفاع کی روایت۔ افسوس کہ آنے والے وقتوں میں اس درجے کی احتیاط اور بہادری کا ملاپ دیکھنے میں نہیں آیا۔ اور ہماری عدالتی تاریخ میں جسٹس منیر سے لے کر جسٹس ڈوگر تک نظریۂ ضرورت کو آگے بڑھانے والی روایت دم پکڑتی گئی۔ جبکہ جسٹس کارنیلئس اور جسٹس کیانی کی اصول پسندی اور خلاقیات کی روایت کمزور ہوتی گئی۔ لیکن اس پر عدلیہ سے کیا شکوہ۔ ہر شعبے کا یہی حال ہے۔ کیونکہ اخلاقی زوال کی جڑیں سیاست سے پھوٹی ہوں یا مارشل لاء سے؟ نقصان عدلیہ کا ہوا یا عوام کا۔ جانے والا آج بھی چلا جاتا ہے اور احتساب کرنے والے ادارے اس کی ہمالیہ جیسی غلطیوں کو انسانی خطا کہہ کر منہ پھیر لیتے ہیں۔ مشرف اس کی زندہ مثال ہے۔ ایک دوسرے کی کمر کھجانے کا کام سیاست داں بھی کرتے رہے اور فوجی حکمراں بھی۔ لیکن عدلیہ توازن رکھنے والا واحد فیکٹر ہے جسے غیر جانبدار رہنا چاہئے۔ مشکل تب ہوتی ہے۔ جب عدلیہ سے تعلق رکھنے والا کوئی بڑا اپنے دائرے سے تجاوز کرکے اتنا فعال ہو جائے کہ آئینی اور قانونی اختیار رکھنے والے دیگر سول ادارے سانس گھٹتا ہوا محسوس کریں۔ تب دونوں کے خوشگوار تعلقات کی صبح ناگوار دوری کی شام پر ختم ہوتی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ دوسروں کے اختیارات کو دائرے میں پابند رکھنے کا ذمہ دار اپنے دائرے سے تجاوز کرنے کو بھی نظریۂ ضرورت کا نام دیتا ہے۔ ثاقب نثار اپنی تمام تر دیانت اور اہلیت کے باوجود اپنے دائرے سے باہر نکلنے کا شکوہ سنتے رہے۔ یہ شکوہ حکومت نے بھی کیا اور اپوزیشن نے بھی۔ لیکن موصوف اسے زیاں کار اور سود فراموش قرار دے کر فکر فروا کا پرچم لہراتے رہے۔ ان پر سب سے بڑا اعتراض یہ کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے ملک بھر سے کرپشن ختم کرنے کا بیڑہ تو اٹھایا۔ لیکن اپنے ماتحت ادارے یعنی عدلیہ اور اس سے وابستہ اداروں یعنی پولیس اور پراسیکیوٹر آفس کی کرپشن دور کرنے پر کوئی توجہ نہ دی۔ پھر چراغ تلے اس اندھیرے نے باقی ملک کی روشنی بھی چھین لی۔ اب جبکہ وہ چیف جسٹس کے پرجلال منصب سے اتر کر ایک عام شہری بن چکے ہیں۔ پروٹوکول کی چکاچوند دور کہیں افق پر گم ہو چکی ہے۔ انہیں اپنے فیصلوں پر تبصرہ سننے کے لئے خود کو آمادہ رکھنا چاہئے۔ یہ اچھے بھی ہوں گے۔ برے بھی۔ تعریف بھی ہوگی۔ تنقید بھی۔ اور امید ہے انہیں وہ اسی خوش دلی سے برداشت کریں گے جیسی خوش دلی وہ ان فریقین سے چاہتے تھے۔ جن کے مقدمات ان کی عدالت میں پیش ہوتے تھے۔ قیامت کے روز یہ فیصلے انہیں سایہ دیں گے یا دھوپ۔ اس کا فیصلہ تو اللہ رب العزت کرے گا۔ دنیا میں تو انسانی دلوں کی فراخی یا تنگی سے پتہ چلے گا کہ قدرت ان پر مہربان ہے یا قہرمان۔ یہاں زبان خلق کو نقارئہ خدا سمجھا جاتا ہے۔ اس لئے ریٹائر جج کے لئے دل کھل جائیں تو سمجھیں قدرت مہربان ہے۔ اور تنگ ہو جائیں تو پھر توبہ کا دروازہ تو کھلا ہی ہے۔ ٭
٭٭٭٭٭