ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی
یٰسین آبادسے گزرتے ہوئے اس نے اچانک ہی ٹیکسی والے کو رکنے کا اشارہ کیا۔ ٹیکسی والے نے چونک کر اُسے دیکھا۔ کیوں کہ جاوید نے ٹیکسی میں بیٹھتے ہوئے اُسے ایئر پورٹ جانے کے لئے کہا تھا اور ٹیکسی والا اسے موٹا اسامی سمجھ کر منہ مانگے دام لینے کا تہیہ کر چکا تھا۔ ٹیکسی کے رکتے ہی جاوید نے ٹیکسی والے سے کہا ’’بس دو منٹ ٹھہرو، میں آتا ہوں، پھر ایئر پورٹ ہی چلیں گے۔‘‘
ٹیکسی والے نے اطمینان کا سانس لیتے ہوئے ٹیکسی ایک طرف کھڑی کردی۔ جاوید نے دروازہ کھول کر پچھلی سیٹ سے اپنا بریف کیس اٹھایا، جس میں اس کی ضروری دستاویزات، امریکہ کا پاسپورٹ، اس کی پینشن کی رقم جو تقریباً پینتیس لاکھ پاکستانی روپے کی شکل میں تھی اور اس کا ارادہ ایئر پورٹ پر ڈالر میں تبدیل کرانے کا تھا۔ ایک اہم چیک ڈیڑھ کروڑ روپے کا تھا، جو اسے اس کے پلاٹ بیچنے پر وصول ہوا تھا۔ اس نے بریف کیس مضبوطی سے پکڑا اور سڑک کے کنارے بنے ہوئے ایک پرانے سے اسکول کی عمارت میں گھس گیا۔ اسکول کے صدر دروازے پر بیٹھا ہوا چوکیدار اسے دیکھ کر چونک کر کھڑا ہوگیا۔ جاوید بہت تیزی سے آگے بڑھا۔ چوکیدار کو اس کی حرکات کچھ مشکوک سی لگیں۔ ’’کس سے ملنا ہے آپ کو‘‘ وہ جاوید کے پیچھے آگیا۔ ’’کسی سے نہیں۔‘‘ جاوید نے مڑ کر کہا اور تیز تیز قدموں سے برآمدے میں سیڑھیوں پر چڑھ گیا۔ چوکیدار اور زیادہ پریشان ہوگیا۔ سیڑھیوں پر ہیڈ ماسٹر صاحب نظر آگئے، جو اسکول کا راؤنڈ لے کر آرہے تھے۔ چوکیدار کو پرشیان دیکھ کر بولے ’’کیا ہوا محمد خان؟‘‘ سر یہ صاحب بغیر کچھ کہے سنے گھسے چلے آرہے ہیں۔ میں نے پوچھا بھی کہ کس سے ملنا ہے، مگر بتاتے بھی نہیں ہیں۔
ہیڈ ماسٹر صاحب نے جاوید کو دیکھا۔ جاوید نے جھکتے ہوئے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر فوجی انداز سے انہیں سلوٹ مارا ’’سر میں جاوید صلاح الدین ہوں‘‘۔ ہیڈ ماسٹر کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔ خندہ پیشانی سے بولے ’’فرمائیے میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟‘‘ جاوید جھینپ کر بولا ’’سر آپ کی اگر اجازت ہو تو میں اپنا اسکول اچھی طرح دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘ اوہ، ہیڈ ماسٹر کی مسکراہٹ اور گہری ہوگئی۔ تو آپ یہاں کے اولڈ اسٹوڈنٹ ہیں؟ جی سر،میں یہاں پندرہ سال کے بعد آیا ہوں۔ جاوید کے لہجے اور نظروں میں احترام تھا۔ میں نے تقریباً تیس سال پہلے یہاں سے میٹرک کیا تھا۔ اس کی نظریں جھکی ہوئی تھیں۔ ہیڈ ماسٹر صاحب کے سامنے احتراماً ہاتھ باندھے ہوئے تھا۔ ’’کہاں سے آئے ہیں آپ‘‘ ہیڈ ماسٹر صاحب کو یہ اسمارٹ سا انسان بہت اچھا لگا۔ صاف ستھرے سوٹ میں ملبوس۔ چہرے مہرے سے ظاہر ہورہا تھا کہ کسی اچھے خاندان کا فرد ہے۔ جس نے اسے بڑوں کا احترام و ادب سکھایا ہے اور جو تعلیم کے زیور سے پوری طرح آراستہ ہے۔ اسی لئے معلم کا ادب کرنا جانتا ہے۔ ’’سر میں امریکہ میں ایک ایئرلائن میں ہوں۔ تقریباً پندرہ سال بعد میرا پاکستان آنا ہوا ہے۔‘‘ اوہ۔ Excellent۔ ہیڈ ماسٹر صاحب کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں۔ میں پاکستان میں ایئر فورس میں تھا۔ یہاں سے ریٹائرمنٹ لے کر امریکہ چلا گیا۔ جب تک پاکستان میں رہا، میں اپنے اس مادر علمی سے فیض حاصل کرتا رہا۔ اپنے کچھ نجی کام سے پاکستان ایئر فورس میں میری پوسٹنگ مختلف شہروں میں ہوتی رہی۔ میں ہر سال کسی نہ کسی طرح ایک دن کے لئے کراچی ضرور آتا تھا۔ اپنے اسکول سے مجھے عشق ہے والہانہ عشق۔
جاوید کے لہجے اس کے خلوص کی چاشنی سے ہیڈ ماسٹر بہت متاثر تھے۔ وہ آگے بڑھے، اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولے ’’بیٹا مجھے خوشی ہے کہ ہمارے طلباء میں تم جیسے ہونہار نوجوان موجود ہیں۔‘‘ ’’سر میں اپنی کلاس دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘ وہ جھکتے ہوئے بولا۔ ہیڈ ماسٹر صاحب نے چوکیدار کو اس کے ساتھ جانے کا اشارہ کیا اور خود اپنے کمرے میں چلے گئے۔ جاوید محمد خان کے ساتھ تیزی سے کلاس کی طرف جا رہا تھا۔ اسکول کی عمارت کسی آثار قدیمہ کا نمونہ پیش کر رہی تھی۔ ٹوٹی چھتیں، خستہ بوسیدہ دیواریں، کھیل کا بڑا سا میدان، جہاں جاوید نے مخالف اسکولوں کے ڈھیروں میچ کھیلے اور جیتے تھے، اب خود رو جھاڑیوں سے بھرا ہوا تھا۔ اس کی اپنی کلاس جس کا وہ مانیٹر تھا اور کلاس کی صفائی کا خاص خیال رکھتا تھا۔ آج کھنڈر نظر آرہی تھی۔ کلاس میں بیس پچیس طلباء تھے، جو خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ کلاس میں استاد کرسی پر بیٹھے کوئی کتاب پڑھ رہے تھے۔
وہ جب محمد خان کے ساتھ کلاس میں داخل ہوا تو کرسی پر بیٹھے ہوئے استاد کی گود میں سے کتاب گر گئی، کیوں کہ وہ شاید اونگھ گئے تھے۔ ’’گڈ مارننگ سر‘‘ طلباء کی اجتماعی آواز سے انہوں نے گھبرا کر آنکھیں کھولیں اور اچھل کر کھڑے ہوگئے۔ شاید وہ معائنہ ٹیم کے کسی آفیسر کے مغالطے میں تھے، جاوید کو دیکھ کر تیزی سے تختہ سیاہ پر لکھنا شروع کردیا۔ جاوید نے سنجیدگی سے کلاس پر نظر ڈالی اور تیزی سے باہر آگیا۔ اس کا دل بڑا بوجھل ہوگیا تھا۔ کلاس سے نکل کر اسے یاد آیا کہ اس کی ٹیکسی باہر کھڑی ہے، جس میں اس کا سامان بھی ہے اور اسے ایئرپورٹ جانا ہے، جہاں چار گھنٹے کے بعد امریکہ کے لئے اس کی روانگی ہے۔ مگر جانے سے پہلے وہ ہیڈ ماسٹر صاحب سے ملنا چاہتا تھا، اس نے جھکتے ہوئے اجازت طلب کی ’’سر میں حاضر ہوسکتا ہوں؟‘‘
ہیڈ ماسٹر صاحب کرسی چھوڑ کر کھڑے ہوگئے۔’’ آئیے دیکھ لی آپ نے اپنی کلاس۔‘‘ ’’سر دیکھ لی۔ مگر اسکول کو دیکھ کر یوں لگتا ہے جسے یہاں برسوں سے رنگ و روغن نہیں ہوا۔ اسکول کی دیواریں، چھتیں، ڈیسکیں، یہ سب دیکھ کر تو یوں محسوس ہورہا ہے جیسے ہم کسی برسہا برس پرانی آثار قدیم کی عمارت میں آگئے ہیں۔ دیواروں پر کائی جمی ہوئی ہے۔ ڈیسکیں دیمک زدہ اور ٹوٹی ہوئی ہیں۔ ٹوٹی چھتوں سے ہوا اور دھوپ طلباء کے سروں پر آرہی ہے۔ یہ سب کیا ہے؟ تیس سال پہلے تو میرا یہ اسکول ایسا نہ تھا۔ بلکہ پندرہ سال پہلے بھی اس کی یہ حالت نہیں تھی۔‘‘ اس کا لجہ بھیگ رہا تھا۔ آنکھوں میں نمی آنے لگی تھی۔ یہ ہی وہ گلشن تھا، جہاں سے وہ علم کی خوشبو سمیٹ نکلا تھا۔ اسی مادر علمی نے تو اس کو سچ اور جھوٹ، اچھائی اور برائی کی تمیز سکھائی تھی۔ یہاں کے اساتذہ نے تو اپنے عمل سے نظم و ضبط اور تنظیم کا سبق اسے دیا تھا۔ ہیڈ ماسٹر صاحب شرمندہ سے کہنے لگے ’’کیا بتاؤں بیٹا۔ صوبائی حکومت اور شہری حکومت کے آپس کے تنازعات نے شہر میں تمام گورنمنٹ اسکولوں کی یہ حالت بنادی ہے۔ ہم لوگ اپنی شکایات شہری حکومت کو لکھ کر بھیجتے ہیں۔ صوبائی حکومت اس کو یک لخت مسترد کر کے شہری حکومت پر پابندی لگا دیتی ہے۔ چنانچہ درخواستیں فائلوں میں بند پلندے کی شکل میں ناظم اعلیٰ کے دفتر میں ڈھیر لگی ہوئی ہیں۔ طلباء کے پاس کتابیں نہیں ہیں۔ شہری حکومت نے اعلان کیا تھا طلباء کو ششم سے ہشتم تک شہری حکومت ہی کتابیں فراہم کرے گی۔ مگر اس اعلان کے بعد سلیبس بدل گیا۔ آٹھ ماہ گزر گئے ہیں، ابھی تک فیصلہ نہیں ہو پایا کہ پرانے کورس سے امتحان ہوگا یا نئے کورس سے۔ نئے سلیبس میں غیر اسلامی چیزیں شامل ہیں۔ پرانے کورس میں معلومات اپ ڈیٹ نہیں۔ اس کشمکش میں وقت گزر رہا ہے۔ اساتذہ ایسے تکلیف دہ حالات میں کیا پڑھائیں۔ ان کی ترقیاں رکی ہوئی ہیں۔ سفارش اور رشوت دونوں کا محکمہ تعلیم میں بازار گرم ہے۔ ہر ترقی کے لئے مختلف ریٹ مقرر ہیں۔ مایوس اساتذہ ان حالات میں ذہنی کرب کا شکار ہیں۔ ان کا دل پڑھانے میں نہیں لگتا۔ طلباء انڈیا چینل دیکھ دیکھ کر تعلیم سے قطعاً لا پراو ہوگئے ہیں۔ تعلیم صرف پرائیویٹ اسکول دے رہے ہیں۔ کیوں کہ وہ حکومت کے دباؤ سے آزاد اور قطعاً خود مختار ہیں۔ نہ وہ حکومت کے کسی حکم کو مانتے ہیں، نہ اس کی پابندی کرتے ہیں۔ حکومت کی کسی تجویز اور مشورے کو درخور اعتنا نہیں سمجھتے۔ ان کا اپنا نصاب ہے۔ اپنے اصول ہیں اور ہزاروں کے حساب سے فیس وصول کرتے ہیں۔ کئی اسکول تو فیس ڈالر میں وصول کر رہے ہیں۔ غریب ذہین طلباء وہاں تعلیم حاصل نہیں کرسکتے۔ کیوں کہ وہاں تک ان کی رسائی نہیں۔ جو حکومت آتی ہے، وہ پاکستان کو اپنی جاگیر سمجھتی ہے۔ معیار تعلیم گورنمنٹ اسکولوں میں نہیں، پرائیویٹ اسکولوں میں نظر آتی ہے۔ اگر گورنمنٹ اسکول کا کوئی ذہین بچہ بورڈ کے امتحان میں پوزیشن حاصل کر بھی لے تو پرائیویٹ اسکول کے مالکان ان نتائج کو بورڈ سے مہنگے داموں خرید کر اپنی اسکول کے کسی طالب علم کے گلے میں پوزیشن کا تحفہ سجا دیتے ہیں۔‘‘
ہیڈ ماسٹر صاحب کافی دلبرداشتہ تھے۔ جاوید کی ہمدردی پاتے ہی اپنا دل اور زبان اس کے سامنے کھول کر رکھ دیا۔ حیرت سے جاوید یہ سب سن رہا تھا۔ اس کے لئے یہ انکشافات نئے تھے۔ امریکہ جاتے وقت وہ پاکستان ایئرفورس سے ریٹائرمنٹ لیکر گیا تھا۔ اس کی پینشن یہاں پندرہ سال سے جمع ہورہی تھی۔ امریکہ میں ایئرلائن سے اس کی آمدنی اچھی خاصی تھی۔ وہ پاکستان ہر سال اپنے غریب رشتہ داروں کو اچھی خاصی رقم بھیجتا تھا۔ پندرہ سال بعد وہ صرف پندرہ دن کے لئے پاکستان آیا تھا۔ ایئرپورٹ سے کلفٹن تک جاتے ہوئے اس نے کشادہ سڑکیں، فلائی اور اور پارک دیکھے۔ دل میں طمانیت کا احساس ہوا۔ امریکہ میں رہتے ہوئے بھی اسے پاکستان کا ہر گلی کوچہ یاد آتا تھا۔ امریکہ میں صاف ستھری کشادہ سڑکیں، فلائی اورز اور معیار زندگی دیکھ کر ہمیشہ دل سے دعا کرتا تھا کہ کاش میرا وطن ایک فلاحی مملکت بن جائے۔ جہاں صفائی نصف ایمان ہو۔ کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو اپنے ہاتھ اور زبان سے اذیت نہ پہونچائے۔ جہاں شرافت کا معیار پڑوسی کی گواہی ٹھرے۔ جہاں ساری امت ایک دوسرے کے لئے ایسی ہی تڑپ رکھے جیسے جسم کے تمام اعضائ۔ کاش پاکستان میں بھی تعلیم عام ہوجائے۔ مگر اپنے اس اسکول کو دیکھ کر وہ تڑپ اٹھا بالکل اسی طرح جیسے اپنی ماں کی کسی تکلیف پر وہ ساری ساری رات سرہانے کھڑا رہتا تھا۔ جب تک ماں سکون سے سو نہ جاتی وہ جاگتا رہتا تھا۔
اسے یوں محسوس ہوا جیسے ان تمام خرابیوں کا ذمہ دار وہ خود ہے۔ وہ کیوں اپنے وطن کو چھوڑ کر غیروں کے دیس میں جا بسا۔ اپنے ملک کی خدمت کے بجائے دوسروں کی غلامی پر اس نے کیوں ترجیح دی۔ وہان سیاستدانوں سے بھی نالاں تھا جو ووٹ لیتے وقت تو ہر ہر دروازے پر جاکر خوشامد کرتے ہیں اور ووٹ حاصل کر کے جیتنے کے بعد کسی عہدے پر فائز ہوکر انہی لوگوں سے چھپنے لگتے ہیں۔ ان کے کام کرنے کے بجائے ان سے بچنے کے لئے اپنے اردگرد سیکورٹی کی تعداد بڑھالیتے ہیں۔ ہم سب کم زور لوگ ہیں بے عمل اور کم ظرف۔ ایک بہترین اور دائمی نظام حیات ہوتے ہوئے بھی طاغوتی طاقتوں کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ اس نے اپنا بریف کیس میز پر رکھا۔ اسے کھول کر دیکھا۔ پنتیس لاکھ کی رقم جو اس کی پینشن کی تھی اس کے سامنے تھی۔ اس نے لمحے بھر کو ہیڈ ماسٹر صاحب کو دیکھا جو حیرت سے منہ کھول کر رہ گئے تھے۔ نوٹوں کی گڈیاں اٹھا کر ہیڈ ماسٹر صاحب کے سامنے رکھ دیں۔ ’’سر یہ نذرانہ ہے میری طرف سے۔ میرے اس گلشن کے لئے۔ جس کی خوشبو میں اپنی ہر سانس میں محسوس کرتا ہوں۔ جس کے درو دیوار سے مجھے والہانہ پیار ہے۔ اسی نے مجھے ہر لمحہ بھٹکنے سے بچایا ہے۔ سر اس کو ویران ہونے سے بچالیجئے۔ آپ بغیر گورنمنٹ کی مدد کے اپنے طور پر مزدور لگا کر اس کی مرمت کرائیں۔ اس سے پہلے کہ اس کی چھتیں طلباء پر گریں اور یہ میرا گلشن بند کردیا جائے۔ اسکو اجڑنے سے آپ ہی بچا سکتے ہیں سر۔ یہ نذرانہ ان محبتوں کا قرض ہے جو اس ادارے نے مجھے دی ہیں۔ یہ قرض مجھ پر واجب ہے میں انشاء اللہ آئندہ بھی کچھ نہ کچھ کرتا رہونگا اس چمن کی شادابی کے لئے‘‘ اس سے پہلے کہ ہیڈ ماسٹر صاحب کچھ سمجھتے یا اس کا شکریہ ادا کرتے وہ تیزی سے باہر نکل گیا۔ جہاں ٹیکسی والا دروازہ کھولے اس کا انتظار کررہا تھا۔ ’’آئی ایم سوری مجھے کچھ دیر ہوگئی‘‘ وہ ٹیکسی والے کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اپنائیت سے بولا۔ ’’کوئی بات نیہں صاحب‘‘۔ ٹیکسی والا مسکرا کر بولا۔ جاوید کے دل کا بوجھ ہلکا ہوچکا تھا۔ وہ پینشن جو اس نے پاکستان سے اپنی پرانی خدمات کے عوض وصول کی تھی وہ یہیں لوٹا دی تھی۔ محبتوں کا قرض ادا کر کے دل بالکل ہلکا پھلکا ہوگیا تھا۔ اس نے ٹیکسی والے سے اسپیڈ بڑھانے کا کہا اور خود آنکھیں بند کر کے سیٹ کی پشت پر سر ٹکا دیا۔